• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نوجوان مستقبل کے معمار! مگر کیا ہیں یہ تعمیر کے لئے تیار؟۔۔ایازمورس

نوجوان مستقبل کے معمار! مگر کیا ہیں یہ تعمیر کے لئے تیار؟۔۔ایازمورس

نوجوان معاشرے کا چہرہ اور سرمایہ ہیں، یہ کسی بھی معاشرے کی اسا س ہوتے ہیں۔پاکستان اُن خوش قسمت ملکوں میں شامل ہے جہاں نوجوان آبادی کا 60فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔(یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی کُل آبادی کا 64% نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 30سال سے کم ہے جبکہ کُل آبادی کا% 29 وہ ہیں جن کی عمر 15سے 29سال ہے۔

یہ نوجوان ہمارے مستقبل کی ضمانت ہیں۔یہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے مستقبل کے معمار بننے کیلئے تیار ہیں؟کیونکہ اگر انسان کا حال درست نہیں تو اُس کے بہتر مستقبل کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے۔

البرٹ آئین سٹائین نے کہا تھا ”پاگل وہ ہوتا ہے جو روز روز ایک ہی جیسا کام کرتا ہے،مگر چاہتا ہے کہ نتیجہ الگ ہو۔“

معروف موٹیویشنل اسپیکر ٹونی رابنز نے تو اس بات کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔”اگر تم وہ ہی کرو گے جو تم ہمیشہ کرتے آئے ہو، تو تمہیں وہ ہی ملے گا جو تمہیں ہمیشہ ملتا رہا ہے۔“

اس صورتحال سے ہمیں ایک بڑا واضح پیغام ملتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو کچھ منفرداور ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔مشکلات،مسائل اور چیلنجزبے شمار ہیں لیکن ان مسائل کے اندر سے اپنے لئے وسائل اور مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل افراد ہی زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔
ویسے بھی زندگی میں مواقع ملتے کہاں ہیں مواقع بنانے پڑتے ہیں۔

آج کے مضمون میں ہم اپنے معاشرے کے نوجوانوں کا مختصر جائزہ لیں گے اور اُن کو مستقبل کی تیاری کیلئے چند رہنما اصول پیش کریں گے تاکہ وہ خود کو بدل کر معاشرے اور ملک کی اجتماعی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

اگر ہم نیک نیتی، صد قِ دل اوروسیع ذہن سے اپنے ملک کے نوجوانوں کی اجتماعی صورتحال کا احاطہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہمارے نوجوان بے شمار قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں،ان میں محنت کا جذبہ اور زندگی میں آگے بڑھنے کی جستجو موجودہے لیکن یہ اکثر درست سمت کی رہنمائی،مناسب حوصلہ افزائی اور مسلسل ٹوئنگ(کسی ایک فرد کا دوسرے فرد کو مسلسل آگے بڑھنے کیلئے کوشش کرنا) نہ ملنے کی وجہ سے خود سے مایوس اور حالات سے تنگ آکر معاشرے سے بے دل ہو جاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ٹیلنٹ ہو نا ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیت کا مناسب مواقع پر ادراک،اُس صلاحیت کو وقت کے ساتھ ساتھ نکھارنا اورمستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہنا انسان کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاسی،معاشی، سماجی اور تعلیمی حالات آئیڈیل نہیں ہیں لیکن حالات و مسائل کا رونا رونے سے دستیاب وسائل کا بہتر استعمال نہیں ہو سکتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو مواقع ہیں ان سے فائدہ اُٹھا یا جائے اور مزید بہتری کیلئے اپنے حصے کی شمع روشن کی جائے۔
امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا ہے:
اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے
تمہاری دسترس میں جو دیا ہو وہ جلا دینا

میں جب اکثر ملک کے مختلف حصوں میں نوجوانوں سے مکالمہ کرتا ہوں تو مجھے ان نوجوانوں میں شدید نا اُمیدی اور خوف نظر آتا ہے جس کی وجہ سے وہ غصہ کا اظہار کرتے ہوئے منفی مائنڈ سیٹ اپنا لیتے ہیں۔

پاکستان کے معروف مصنف، دانشور اور سکالر جناب جاوید جبار سے پاکستان کے نوجوانوں کے حوالے سے گفتگو میں اُنہوں نے کہا کہ ”ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بے شمار قدرتی صلاحیتیں ہیں لیکن اُنہیں اپنے رویے، زندگی کے طرزِ عمل اور مقاصد کو تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔“

یہاں یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کا موازنہ ان کے گاؤں، محلے،شہر اور ملک سے نہیں کرنا بلکہ دُنیا کے نوجوانوں سے کرنا ہے۔ہم پاکستانیوں میں قدرتی،جفرافیائی اور معاشرتی ماحول کی وجہ سے زندگی سے لڑنے کیلئے ایکس فیکٹر موجود ہو تا ہے۔ہم نے اپنے نوجوانوں کو زمانے کیلئے رول ماڈل بنانا ہے۔پاکستانی نوجوان گلوبل لیڈرشپ، فوربس 30، انٹرنیشنل ایکسپرٹ بن کر دُنیا میں اپنے خاندان، کمیونٹی،گاؤں،شہر اور ملک کا نام روشن کریں۔نوجوانوں کو اپنے مقصد کے حصول کیلئے آغاز مقامی سطح سے کرنا ہے لیکن سوچ عالمی رکھنی ہے۔

سوچ بڑی اور وسیع رکھ کر ہی نوجوان معاشرے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔نااُمیدی،غصہ،نفرت اور حسد انسان کی قدرتی صلاحیتوں کو اندر ہی اندرسے کھا جاتی ہیں، اس لئے ان منفی سوچوں اور رویوں سے بچنے کیلئے باہمت اور مثبت سوچ کے حامل افراد،اداروں اور کتابوں سے وابستگی بڑھائیں۔ہمت کریں زندگی کو جئیں اور حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں توحالات اور چیز یں بدلیں گی۔

سینٹ آگسٹین نے اس حقیقت کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔

”اُمید کی دو خوبصورت بیٹیاں ہیں،ان کے نام غصہ اور ہمت ہیں۔غصہ یہ کہ چیزیں ایسی ہی ہیں،اور ہمت یہ کہ چیزیں ایسی نہیں رہیں گی جیسی وہ ہیں۔“

یہ بات درست ہے کہ آج کے تیز رفتار دور میں نوجوانوں کیلئے زندگی میں آگے بڑھنا ایک بہت مشکل مرحلہ ہو گیا ہے،لیکن یہ آپکی سوچ ہے جو آپ کی کامیابی کے سفر پر گامزن ہو نے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ہمارے اردگرد بے شمار ایسی مثالیں ہیں جنہوں سے بڑی دلیری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور محدود وسائل میں معاشرے میں اپنا منفرد مقام اور نام بنایا۔کبھی ہم غور کریں تو ایسے پاکستانیوں کی ایک طویل فہرست بن جائے گی جو ہمارے نوجوانوں کیلئے مشعل ِراہ ہیں۔

ایک امریکی فلاسفر ایم۔سکاٹ پیک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

”زندگی مشکل ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے، یہ ایک عظیم ترین سچائی ہے۔یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے کیونکہ جب ہم واقعی ہی اس سچائی کو دیکھتے ہیں تو ہم اس کو عبور کرتے ہیں۔ جب ہم ایک بار حقیقی طور پر جان لیں گے کہ زندگی مشکل ہے، جب ہم اسے حقیقی طور پر سمجھ اور قبول کر لیں گے،پھر زندگی کبھی بھی مشکل نہیں رہے گی۔ کیونکہ جب ہم اس حقیقت کو ایک مرتبہ قبول کرلیتے ہیں، تو یہ سچ کہ زندگی مشکل ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔“

نوجوانوں کی بہتری اور ایمپاورمنٹ کیلئے سرمایہ کاری کرنا کسی بھی قوم کیلئے بہترین اسٹریٹجک سرمایہ کاری ہوتی ہے۔اگر نوجوانوں کو بنیادی سہولیات،یعنی،معیاری تعلیم،بہتر اور عزت دارنہ نوکری،اچھی طبعی ونفسیاتی صحت کی سہولیات اور جدید دور کے مطابق زندگی بسر کرنے کے ہنر سے آراستہ کر دیا جائے تو یہ ملک و معاشرے کیلئے بہترین ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔نوجوانوں کی اُمیدیں،خوف،خواب اور چیلنجزکو جاننے کیلئے پاکستان نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ کی 2017 کی رپورٹ پڑھ لیں۔ آپ کو اس ملک کے نوجوانوں کے حقیقی مسائل کا ندازہ ہو جائے گا۔

اس رپورٹ میں 100 پاکستانی نوجوانوں کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ان 100نوجوانون پاکستانیوں میں سے 50لڑکے ہیں اور 50لڑکیاں۔
100میں سے 67شادی شدہ ہیں اور 33غیر شادی شدہ۔
55پنجاب میں، 23سند ھ میں، 4بلوچستان میں، 14کے پی کے میں، 4 آزاد کشمیر اور کشمیر، فاٹا،گلگت بلقستان میں رہتے ہیں۔
64شہروں میں جبکہ 36دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔
15کی پہلی زبان اردو ہے۔ 37کی پنجابی، 10کی سندھی، 13کی پشتو، 4کی بلوچی، 13 کی سرائیکی اور 8دیگر زبانیں بولتے ہیں۔
70پڑھے لکھے اور 30ان پڑھ ہیں۔
29بالکل پڑھے لکھے نہیں۔
16صرف پرائمری تک پڑھے ہیں۔
40صرف مڈل سے میٹرک سکول گئے ہیں۔
9صرف انٹرتک تعلیم حا صل کر سکے ہیں۔
6 نے 12سال تک کی تعلیم مکمل کی ہے۔
39 کے پاس ملازمت ہے جن میں 32میل اور 7فی میل ہیں۔
4کے پاس نوکری نہیں اور نوکری کی تلاش میں ہیں۔
57کے پاس نوکری نہیں اور وہ نوکری کی تلاش میں بھی نہیں۔
100میں سے60 کام نہیں کررہے۔
14 بغیر پیسوں کے کام کررہے ہیں۔
10غیر مستقل ورکر ہیں۔
8 اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
8 سیلری ورکز ہیں۔
100میں سے صرف 6کی لائبریری تک رسائی ہے جبکہ باقی 94لائبریری کی نعمت سے محروم ہیں۔
100میں سے صرف 7کو کھیلوں تک رسائی ہے باقی93اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔
15کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے جبکہ 85 کے پاس نہیں ہے۔
1کے پاس کار ہے،12کے پاس موٹر سائیکل،10کے پاس سائیکل اور77کے پاس کو ئی سہولت نہیں۔
52کے پاس موبائل فون ہے جبکہ48 کے پاس فون موجود نہیں۔
رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 80 نے گزشتہ الیکشن میں ووٹ ڈالا تھا جبکہ 20نے نہیں۔
70 نے اپنے آپ کو محفوظ قرار دیا،15 نے غیر محفوظ جبکہ 15خو د کو نہ محفوظ اورنہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
89 خوشی محسوس کرتے ہیں جبکہ 8 اس سے مختلف اور 3نا خوش ہیں۔
38مستقل کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں،3کبھی کبھار جبکہ 59 شاذونادر ہی حصہ لیتے ہیں۔
67 یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ان کے والدین سے بہتر ہے۔18 یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ان کے والدین جیسی ہی ہے،15محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اپنے والدین سے بھی بدتر ہے۔
48 یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل بہت بہتر ہو گا، 16کا خیال ہے کہ پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی،36 کے نزدیک صورتحال اس سے بھی خراب ہو گی۔

اس رپورٹ سے ہمیں اپنے ملک کے نوجوانوں کی مجموعی صورتحال کا بخوبی آئیڈیا ہو گیا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں ٹھوس،قابلِ تقلید اور جامع اقدام کرنے ہوں گے۔

نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کیلئے خصوصی اقدام:
ہمیں اپنے نوجوانوں کی تعلیم کیلئے خصوصی بجٹ مختص کرنا ہو گا۔ہمارا تعلیمی بجٹ 2.3انتہائی کم ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI2020) کی رپورٹ کے مطابق 189ممالک میں سے پاکستان کا 154واں نمبر ہے جوا س بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں اس ضمن میں مزید عملی اقدام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

نوجوانوں کی قدر کریں:
لیڈرشپ ایکسپرٹ جان سی میکسویل کہتے ہیں کہ”جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ نوجوانوں کی ترقی کیلئے کیا کریں؟ تو میں کہتا ہوں کہ نوجوانوں کی،اپنے خاندان،سکول،معاشرے اور ملک میں عزت کریں۔ان کو اہمیت دیں۔“

نوجوانوں کی سنیں:
ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آج کے نوجوان بات نہیں سنتے۔ لیکن کیا ہم ان کی بات،رائے اور نقطہ ء نظر سننے کیلئے تیار ہیں؟

لائف اسکلز:
تعلیم،ہنر اور روزگار کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو لائف اسکلز سکھانا بہت اہم ہے۔مشکل وقت میں قو تِ ارادی،فیصلہ سازی،ذمہ داری،لیڈرشپ اور زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔

فیصلہ سازی میں شمولیت:
یہ بات طے ہے کہ آج کے دور میں نوجوانوں کو سیاست،مذہب،سماج،خاندان اور زندگی کے ہر پہلو میں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے منصوبوں میں اپنی رائے اور سوچ کا اظہار کر سکیں۔

مائنڈ سیٹ بدلیں:
نوجوان اگر اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا۔ اگر سوچ مثبت اور مائنڈ سیٹ درست ہو گا تومسائل ہی وسائل بن جائیں گے۔

اپنی ذات کی کھوج لگائیں:
دُنیاکی سب سے انمول اور نایاب چیز اپنی ذات کی کھوج کیلئے اپنا وقت،سرمایہ اور قوت لگانا ہے۔دُنیا کی سب چیزیں آپ کو مل جائیں گی بس اپنی ذات کی کھوج لگائیں۔

زندگی کے مقصد کوتلاش کریں:
اگر انسان دُنیا کے بے شمار خزانے تلاش کر لے لیکن اپنی زندگی کے مقصد کی تلا ش کو حاصل نہ کر سکے تو زندگی کا کیا فائدہ؟

سیکھنے کاعمل زندگی کا حصہ بنائیں:
سیکھنے کے رویے کو زندگی بھر کا عمل بنا لیں۔سیکھنے کیلئے جب بھی،جہاں بھی،کہیں بھی ملے سیکھ لیں،اس پر رنگ،نسل،زبان،ملک،مذہب اور عمر کی قید نہ لگائیں۔زندگی جو سکھائے سیکھ لیں۔

اپنی توانائی مثبت کاموں میں لگائیں:
جوانی میں جوش اور توانائی ہی اصل طاقت ہوتی ہیں اور اکثر لوگ اس توانائی کو موثر طور پر استعمال نہیں کرتے اس لئے اپنی زندگی مثبت کاموں کیلئے وقف کر دیں۔

اپنی مثال خو د بنیں:
دُنیا میں پہلے موجود مثالیں صرف مثالیں ہیں۔آپ کو اپنی مثال خود بننا ہے۔مثالیں بنتی نہیں بنانی پڑتی ہیں۔

اپنی پہچان اور شنا خت خود بنائیں:
قدرت نے آپ کو منفرد اور خوبصورت بنایا ہے اس لئے آپ کو معاشرے میں اپنی پہچان اور شناخت خود بنانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوجوان اپنی سوچ اور رویے بدلیں تو ترقی کی منزلیں اُن کی منتظر ہیں۔
سیکھنے کو زندگی بھر کا عمل بنا ئیں اور اپنے اُن منفی رویوں کو بدلیں،جو معاشرے سے اخذ کئے ہیں۔ معروف امریکی مصنف ایلون ٹوفلرکا کہنا ہے کہ”اکیسویں صدی میں ان پڑھ وہ لوگ نہیں جو پڑھ اور لکھ نہیں سکتے،بلکہ وہ ہیں جو سیکھنے، نہ سیکھنے اور دوبارہ سیکھنے سے قاصر ہیں۔“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply