باسم اللہ والحمد للہ و الصلاۃ والسلام علی محمد رسول اللہ.
محترمہ سعدیہ سلیم بٹ کی معرکۃ الآراء مہم نے بہت سے لوگوں کی آراء پڑھنے کا موقع فراہم کیا.
ہم اکثر مکالمات زیادہ تر خاموشی سے پڑھتے رہے اور سر دھنتے رہے.خواتین و حضرات کے اعتراضات ہیں کہ رک ہی نہیں رہے. ایسے میں خیال پیدا ہوا کہ تمام تر گفتگو کا احاطہ نہ بھی ہو تو کم از کم ان اعتراضات کو ہی مکمل سٹڈی کیا جائے.چنانچہ اعتراضات کے دو پہلو نمایاں محسوس ہوتے ہیں،ایک یہ کہ خاتون کی ذات پر بات کی جانے لگی.جو کچھ کہا/لکھا گیا، اس کی تفصیل یوں ہے کہ
1. وہ نفسیاتی مریض ہے.
2. وہ غالباً کسی کی دوسری بیوی ہے.
3. وہ خود نمائی کے شوق میں یہ سب کررہی ہے.
اب تک چوتھا ذاتی اعتراض نہیں مل سکا.
اگر کسی کو ملے تو ضرور بتائے.
یہ تینوں اعتراضات شکست کھانے کی نشاندہی کرتے ہیں. یاد رکھیں کہ کسی کے دلائل کا مقابلہ ایسے اعتراضات سے کرنا جن کا تعلق ذات سے ہو، بجائے اس کے کہ اس کے دلائل کا اتنے ہی طاقتور دلائل سے مقابلہ کریں، مقابلے سے ہار کی علامت ہے. اب یہ اس بندے کی قسمت کہ اس کے پاس بجز ان دلائل کی طاقت کے کسی کا ساتھ نہ ہو، گویا وہ تنہا ہو، تب بھی وہ ہارا نہیں ہے.
سعدیہ کی تمام تر تحاریر کو بغور دیکھنے اور اس کے کمنٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا کوئی تاثر نہیں بنا جو ان تینوں باتوں کو ثابت کرے. لیکن بعض لوگوں کی تحاریر جو کہ مستند ویب سائٹس پر نظر آرہی ہیں. ایسی تحاریر چھاپنے پر مبارکباد کس کو دی جائے؟
محترمہ کی تمام تحاریر وضاحت کرتی ہیں کہ ان کا موقف ایسے مشاہدے پر مبنی ہے، جو کہ اسلام کے درخشاں اصولوں سے میل بھی کھاتا ہے. یہی ان کا قصور ہے.
اسلام کی رہنمائی کی بات بعد میں، اس سے قبل وہ اعتراضات جن کا تعلق اسلام ہی سے ہے.
چنانچہ کسی نے کہا کہ
1. دوسری شادی کو حکم بنا رہی ہے.
2. یہ اجازت صرف اس زمانے کے اسلام میں تھی اب اس کی کوئی ضرورت نہیں.
3. دوسری شادی کا نہ ہونا، زنا کے عام ہونے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.
4. دوسری شادی صرف وہ پاکیزہ ہستیاں کرسکتی تھیں.
5. دوسری شادی میں پہلی بیوی کے حقوق مارے جاتے ہیں.
6. دوسری شادی عیاشی ہے.
7. دوسری شادی کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ کارپوریٹ سیکٹر کا گند ہے.
8. یہ بھی کہا گیا کہ اپنی بیگمات کو دوسرے مردوں کے پاس بھیج کر دیکھ لیں ٹھیک لگے تو آپ بھی کسی کو لے آئیں.
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ اس کی کسی تحریر میں یہ تاثر بھی نہیں ملا کہ وہ اجازت کو حکم بنا رہی ہے.
دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ اجازت زمانے سے مخصوص تھی تو قرآن میں بیان ہوتا جبکہ ایسا بیان پورے قرآن میں نہیں بجز نکاح کے بیان کے. اگر ہے تو پیش کیا جائے اور عند اللہ ماجور ہوں اور مجھے توبہ کا موقع فراہم کریں. قرآن میں تو یہ بات یوں ہے :
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ:
لہذا نکاح کرو دو دو تین تین چار چار ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہیں…………… (اس میں کوئی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ پسند دو طرفہ ہی ہونی چاہئے)
تیسری بات کے تحت کئی نکات ہیں جس میں سے پہلے کے جواب میں میرا سوال ہے کہ کیا پہلی شادی معاشرے کو زنا سے بچانے کا سبب ہے یا نہیں؟
دوسرا نکتہ بھی سوالیہ ہے کہ زنا کرنے والے کے لئے لڑکی مہیا ہونا کیونکر ممکن ہوتا ہے؟
اسی طرح زنا کرنے والی لڑکی کے لئے لڑکا کیونکر دستیاب ہوتا ہے؟
اگر لڑکے کو اس کی پسند کی ذمہ داری اٹھانے پر اس کا ساتھ دیا جاتا تو کیا وہ پھر بھی یہی کرتا رہتا؟
نیز لڑکی کو اس کی پسند پر ڈرایا نہ جاتا اور اس کی شادی اس کی پسند سے ہوجاتی تو کیا وہ پھر بھی یوں ہی کرتی رہتی؟
(اس کا جواب صرف اس معاشرے کو سامنے رکھ کر سوچیں.)
نیز یہ سوالیہ نکات غیر شادی شدہ لڑکا اور لڑکی ، جن کا تعلق بن گیا، کو سامنے رکھ کر پیش کئے ہیں نہ کہ جنسی مریضوں کو جو ایسے بن چکے کی ہر روز نیا بندہ/بندی ڈھونڈتے ہیں.)
چوتھے نمبر پر یہ کہا کہ دوسری شادی صرف وہی پاکیزہ ہستیاں ہی کرسکتی تھیں.
یہ تو اعتراض ہی نہیں ہے بلکہ فیصلہ ہی کردیا گیا ہے گویا. جواب وہی ہے کہ قرآن نے دوسری شادی کی اجازت دی لیکن یہ بیان نہیں کیا کہ وہ پاکیزہ ہستیوں کو ہی زیبا تھا، بلکہ عام اجازت دی:
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ:
لہذا نکاح کرو دو دو تین تین چار چار ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہیں……….
اس کا کیا کیا جائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان ہی دو سے شروع فرمایا. اور اس کے بعد مرد کو مخاطب کیا، جو کہ کسی ایسے شخص کے لئے اس آیت میں تعدد کا استثناء سمجھ لیا جائے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ عدل نہیں کرسکے گا تو وہ ایک ہی پر اکتفا کرے. آیت کا یہ حصہ یہ بھی بتاتا ہے کہ پانچویں اعتراض کو آپ کے اٹھانے سے قبل ہی اللہ نے اس کا حکم بیان کردیا. لہذا یہ کہنا کہ عدل ہو ہی نہیں سکتا غلط ہے. نیز یہ فیصلہ کس نے کرنا ہے؟ اسی بندے نے؟ یا محلے کے ناظم نے، یا گھر کے کسی بڑے نے؟ درست معاشرے میں یہ بات واضح ہونا مشکل نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ بات پہلے سے فرض کرلی گئی ہے کہ یہ ظلم ہے.
بعض لوگ اس کو امیر لوگوں (کارپوریٹ کلچر) کا گند بھی کہتے ہیں اور غلط فہمی سے اسے دین کا حصہ نہیں جانتے. یہ ساتواں اعتراض ہے.
یاد رکھیں کہ دین اسلام امیروں کے لئے بھی اترا ہے. بلکہ جو شادی کی ذمہ داری بالکل نہیں اٹھا سکتا اس کا حکم بھی موجود ہے.چانچہ شادی کا حکم اور زیادہ شادی کی اجازت ذمہ داری کو اٹھانے کی صلاحیت پر ہی موقوف رہے گی.
آٹھواں اعتراض تو عجیب ہے. گویا سوئنگر پارٹی ارینج کی جائے. ارے دوسرے کی بیوی نہیں لانی جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں ہوں، بلکہ ایک مکمل غیر شادی شدہ سے شادی کرنا ہے اعلانیہ.
رہی بات عورت کا ایک وقت میں دو نکاح کرنا تو یہ ممکن نہیں نسل کی حفاظت کی خاطر. چاہے اس کے لئے ڈی این اے کی موجودہ سہولیات کو بھی بحث میں لا کر مزید دلائل کھڑے کر دئے جائیں عورت کے ایک سے زائد نکاح کے حق میں. اس رجحان کی قبولیت کے لئے اسلام سے نکل کر ہی کچھ ممکن ہوسکے گا.
دوسرا نکاح عیاشی بھی نہیں اور اگر ہے تو پہلی شادی بھی عیاشی ہی ہے کم از کم اس اعتبار سے کہ جتنا خرچہ آپ سب اس پر کر لیتے ہیں اس سے آسان ہے کہ ایک ویک اینڈ پر اپنے اپنے پارٹنر تلاش کرکے خوش ہولیا جائے. نہ ذمہ داری کا بوجھ نہ سسرال کی جھنجھٹ. یاد رہے سہاگ رات ہو یا بعد کا کوئی زمانہ جنسی تعلق انجوائے کرنے کے علاوہ کیا ہے؟ اور دنیا بھر کے وہ ملک جن کے سب پیرو کار ہیں وہ اس کے علاوہ کس طرح سوچتے ہیں اس سب عمل کو؟
شادی اور بغیر شادی کے رہنے میں حقوق و ذمہ داری قبول کرنے اور نہ کرنے کا فرق ہی تو ہے. اور وہ جو شادی چھوڑ چکے ان کی سب سے بڑی دلیل ہی ذمہ داری سے بچنا ہے کہ
بہرحال آخری نتائج یکساں ہیں یعنی ایک دوجے سے لطف اٹھانا.
وہ جذبہ کیا ہے جس کی وجہ سے انسان /جانور اپنے اپنے پارٹنر ڈھونڈنے پر مجبور ہیں؟
لطف اٹھانا اور نتیجے میں صرف اور صرف نسل بڑھانا، اپنے آپ کا سروائیول!
لذت اندوزی بھی تو قدرت کا ودیعت کردہ احساس ہے کوئی خود ساختہ چیز تو نہیں.
لہذا دو مزاج ہر ہر زمانے میں رہے ہیں اور اب تو اکثر یہی ہے کہ :
خواہش پوری ہوگئی اب کیا ضرورت ہے ذمہ داری اٹھانے کی. وہ جانے جس نے بچے پالنے ہیں. یہ تو ہے جانور مزاج.
انسانیت والا مزاج کیا ہے؟ اعلان کرو اور آپس کا اعلانیہ معاہدہ کرو جس کے تحت معاشرے کو پتہ ہو کہ یہ عورت اور مرد اپنی نسل کو ایک دوسرے کے ذریعے سے بڑھائیں گے. اور پھر اس نسل کی پرورش بھی مل جل کر کریں گے. چنانچہ ان کو حقوق حاصل ہیں ایک دوسرے پر اور معاشرہ ان کے حقوق کے ساتھ کھڑا ہو گا اور ان کے اس تعلق کو تحفظ دے گا نہ کہ ان کا جینا حرام کردے گا. چنانچہ یہاں یہ بیان لازمی ہے کہ معاشرے کی یہ تربیت ہونا ضروری ہے.
یہ بھی قدرتی بات ہے کہ عورت میں ملکیت کا احساس بہت زور دار ہے. بقول کسے عورت موحد ہے. اس حال یہ ہے کہ موحد عورت اپنے شوہر کے خلاف کس قدر زورآور ہے ہر شادی شدہ جانتا ہے. نتیجہ سوائے بگاڑ کے اور کچھ نہیں. یہ مکینزم قدرتی ہے جو اس کو حق کے لئے لڑنے کی صلاحیت دیتا ہے. یہ صلاحیت دو بیویوں کی صورت میں استعمال ہوتی تو بات تھی لیکن ہوتا یہ ہے کہ یہ صلاحیت ہر رشتے میں صرف بلیک میلنگ کے ہی کام آتی ہے. حق سے زیادہ چھیننے کی پلاننگ کرتے رہنا بس یہی رہ گیا ہے.
اور آخر میں گھر کے سکون کے لئے ایک مفید مشورہ:
سوچنا کبھی کہ شوہر گھر گھستے ہی عتاب کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ ساری زندگی گھر والی اور بچوں کے لئے مشقت جھیلنے والا گھر گھستے ہی بے بسی کی انتہا پر کیوں ہے؟ کیا اس کو سکون کی ایک لحظہ ضرورت نہیں؟
اس کا جواب یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم بھی تو سارا دن محنت کرتی ہیں. جب کہ یہی خواتین خود صرف مارکیٹ سے ہو آئیں تو کم از کم کچھ دیر ان کو گھر میں کرفیو لگا ملتا ہے. یا وہ خود کامیابی سے نافذ کرلیتی ہیں : میں ابھی باہر سے آئی ہوں خبردار کوئی بات مت کرو.
بی بیو کبھی شوہر کے گھر میں گھستے ہی اس کا بھی لحاظ کرکے دیکھو پھر بتانا کہ گھر پرسکون ہوگیا کہ نہیں. پھر شکوہ کرنا کہ اس نے تمہارا لحاظ کیا یا نہیں.
اس آخری بات پر گفتگو کو روکتا ہوں ممکنہ اگلی قسط تک.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں