غربت ۔رانا اورنگزیب

اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا !
غریب عربی کا لفظ ہے فارسی میں بھی مستعمل ہے غریب کے معانی بہت وسیع ہیں۔مسافر، پردیسی، اجنبی، بے وطن، مفلس، نادار، محتاج، بے سروسامان، بےکس، بیچارہ، مجبور،مسکین، عاجز، بے ضرر، بے زبان، سیدھا سادا، جو شریرنہ ہو. نادر، عجب، انوکھا، اچنھبے والا، یہ سب غریب کی حالتیں ہیں جن سے امیر حظ اٹھاتے ہیں۔غریب عربی والا ہو، فارسی والا یا اردو والا غریب ہی ہوتا ہے۔
غریب غریب ہی ہوتا ہے انسان نہیں ہوتا کبھی کسی نے غریب کو انسان نہیں سمجھا۔بس غریب ہی سمجھا۔غربت کا عالمی دن ابھی منایا گیا کس نے منایا کس طرح منایا کچھ علم نہیں۔

کل ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا جو ایک اچھی ہاؤسنگ سکیم میں بہت ہی اچھے گھر میں رہتا ہے گاڑی بھی ہے بہت ہی پرکشش ملازمت ہے۔کمپنی کی طرف سے خانساماں ،مالی، ڈرائیور اور گارڈ بھی ملا ہوا ہے۔سنٹرل ائیرکنڈیشنڈ دفتر، گھومنے والی کرسی چاۓ کافی فری۔مگر ایک گھنٹے کی ملاقات میں ساٹھ بار اپنی غربت کا رونا رویا۔میں پریشان بیٹھا سوچتا رہا اور اب تک سوچ رہا ہوں کہ اس بندے کو غربت کے مطلب کا بھی علم ہے یا نہیں۔

کبھی شہر کے مضافات میں بسی کچی بستیوں میں کبھی دیہات اور گوٹھوں میں زندگی کو قریب سے دیکھیے۔کبھی فیکڑی ایریاز میں بنے ایک کمرے کے کوارٹر میں جھانکیے۔کبھی کسی مزدور کی بپتا سنیے پھر پتا چلے گا کہ غربت کیا ہوتی ہے۔اللہ سے دعا کریں کہ وہ مفلسی سے بچاۓ۔میرے آقا کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ “مفلسی اور تنگ دستی سے اللہ کی پناہ مانگو”۔کیونکہ غربت بندے کو شرک تک پہنچا دیتی ہے۔مسلک مسلک کھیلنے والو کبھی غور کرنا بھوک کا کوئی مسلک کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ایک سنی شیعہ سے حسینی لنگر کھارہا ہوتا ہے اور دیوبندی داتا دربار پر جھولی پھیلاۓ کھڑا ہوتا ہے۔بھیک مانگنے والے کا کون سا مسلک اور کیسا مذہب؟

آپ بھکاری کی جھولی میں سکہ پھینک کر دیکھیں وہ آپ کو پھلنے پھولنے کی دعا دے گا ۔کبھی نہیں کہتا کہ صاحب میں سنی ہوں شیعہ کی بھیک نہیں لیتا کبھی نہیں کہتا میں شیعہ ہوں دیوبندی مجھے بھیک دینے کی زحمت نہ کریں۔کبھی نہیں کہتا کہ میں مسلمان ہوں مجھے قادیانی امداد کی ضرورت نہیں۔جب کبھی سیلاب آۓ یا کوئی اور آفت منہ بھر بھر کے یہودی عیسائی امریکہ برطانیہ کو گالیاں دینے والے کبھی ان کی امداد میں ملنے والی چیزوں سے انکار نہیں کرتے۔حالانکہ وہاں غربت عارضی ہوتی ہے۔بس بھوک کا مسئلہ ہوتا ہے وہ بھی چند دن کے لیے، جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں لوگوں کو اپنے کاروبار زمینیں ملازمتیں سب واپس مل جاتا ہے۔ذرا سوچیے کہ جن کی ساری زندگی ہی ایمرجنسی بن جاۓ ان کی حالت کیسی ہوتی ہوگی۔

جس کو گھر سے روزانہ دو چار سو سے دو چار ہزار تک جیب خرچ ملتا ہو جس کی تنخواہ پانچ ہندسوں کو بھی کراس کرتی ہو جس کو روزانہ ہزاروں میں رشوت ملتی ہو جس کا کارخانہ فیکڑی دکان کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہو بھلا اسے کیسے احساس ہوسکتا ہے کہ پندرہ ہزار مہینہ کمانے والا چھ بچوں کا باپ جو کراۓ کی قبر میں رہتا ہو وہ کیسے گزارہ کرتا ہوگا۔

جبکہ اعدادوشمار جمع کرنے والے ادارے پاکستان میں چالیس فیصد آبادی کو غریب بتاتے ہیں۔یاد رہے ،غربت اور چیز ہے سفید پوشی اور چیز۔کچھ متوسط طبقے کے لوگ بھی خود کو غریب سمجھتے ہیں مگر وہ غربت نہیں ہوتی۔غربت دیکھنی ہو تو سندھ میں دیکھو۔پنجاب بلوچستان اور پختونخوا میں ان بستیوں کی خاک چھان کے دیکھیں جہاں لوگوں کا روزگار کھیتی باڑی سے وابستہ ہے۔جہاں ہر بندہ مزدور ہے جہاں چاہنے کے باوجود کام نہیں ملتا۔جہاں چند سیر چاول یا گڑ کے لیے لوگ دس دس گھنٹے جان توڑ محنت کرتے ہیں۔جہاں مکان کے نام پر کھپریل کا چھپر ہے۔ چار دیواری کے نام پر جھاڑیوں کی باڑھ ہے۔جہاں تپتی دوپہروں میں ننگے پاؤں چلنا پڑتا ہے جہاں کڑکتے جاڑوں میں تن پر ناکافی کپڑوں کے باوجود دن رات زندگی گھسیٹی جاتی ہے۔غربت دیکھنی ہے تو ان مکانوں میں جھانکیں جہاں بچے کو دودھ پورا نہیں ملتا، کھلونے کتابیں تو کتابی باتیں ہیں۔دنیا میں ڈھائی ارب کے لگ بھگ غریب بستے ہیں اور ان میں سے دو ارب وہ لوگ ہیں جن کو روٹی بھی پوری نہیں مل رہی۔

بہت سے دانشور اس کو غریب کہتے ہیں جو یومیہ پچیس ڈالر کی خریداری کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔جبکہ دنیا کی آدھی آبادی کی کمائی دو سے ڈھائی ڈالر یومیہ ہے۔اور ہمارے امیر وزیر خزانہ جب دور دیس گئے اور وہاں آستانہ میں قیام کیا تو انہیں کشف ہوا کہ جناب یہ دنیا تو بلاوجہ ہی سب کو غریب کہے جاتی ہے جبکہ جو بندہ دوسو روپیہ یا دو ڈالر یومیہ کما سکتا ہو وہ غریب نہیں ہوسکتا۔کیونکہ عالمی ادارے چیخ رہے تھے کہ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی بھیڑ بڑھتی جارہی ہے اور عوام کے حالات دگرگوں ہوتے جاتے ہیں تو ہمارے وزیرخزانہ نے اس میں پاکستان کی سبکی محسوس کی اور کیوں نہ کریں آخر کو انہیں پاکستان سے محبت ہی بہت ہے۔کوئی جو بھی کہے مگر اسحاق ڈار صاحب کی پاکستان کے خزانے سے محبت پر دو رائے نہیں ہو سکتی۔انہوں نے سوچا سمجھا پرکھا اور کہا کہ جناب دیکھیں چھ ہزار ماہانہ کمانے والا غریب نہیں ہو سکتا۔جبکہ ہم نے تو کم ازکم تنخواہ بھی پندرہ ہزار مقرر کی ہے تو ہمارے ملک میں غریب بمشکل تین چار فیصد ہی ہوں گے۔

میرے مہان ہم وطنو!
یہ جو دن رات غربت اور مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے اس کے بہت سے کارن بتاۓ اور سجھاۓ جاتے ہیں۔کوئی آبادی کو غربت کی وجہ بتاتے ہیں کوئی ناخواندگی کو غربت بڑھانے کی وجہ بتاتے ہیں۔ کچھ بیروزگاری پر طعن فرماتے ہیں۔کچھ غریبوں کو ہی غربت کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔باہر کی دنیا کا مجھے علم نہیں مگر پاکستان کی غربت کی صرف دو وجوہات ہیں کرپٹ اور رشوت خور سرکاری ادارے بمعہ حکمران۔دوسری وجہ انگریز کی بخشی جاگیروں پر قابض غدار اور لٹیرے جاگیردار جو کہ اب صنعتکار بھی ہیں۔
پاکستان کی جملہ خرابیوں کی جڑ اور ماں یہی جاگیردار صنعتکار اور اشرافیہ ہیں ، غربت میں اضافہ ،ناخواندگی، بیروزگاری ،اقربا پروری ،مہنگائی، سب انہی چند حرام خوروں کے تحفے ہیں جن کی بھینٹ چڑھ کے متوسط طبقہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہورہا ہے اور ان کی دولت بڑھنے کی رفتار سپر سونک طیارے سے بھی زیادہ ہے۔

پہلے یہ صرف زرعی زمین پر قابض تھے پھر انہی لوگوں کے بچے ایچی سن جیسے اداروں میں گئے وہاں سے نکلے تو بیوروکریسی میں جا بیٹھے۔اب حالت یہ ہے کہ انہی خاندانوں کے لوگ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں۔پولیس کے پرکشش عہدے بھی ان کے پاس ،بیوروکریسی بھی یہ خود، صنعتکار بھی یہی، انڈسٹریلسٹ ،تاجر، رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، غرض ایسا کون سا شعبہ ہے جس میں ان جاگیرداروں کی اولادوں کی اجارہ داری نہ ہو۔

بینظیر انکم سپورٹ ہو یا کوئی اور سکیم سب انہی کے اشاروں پر چلتی ہیں۔زکوٰة کا پیسہ ہو یا بیت المال کا قبضہ ان کا ہی ہے۔غریب غربت کی لکیر سے نیچے رینگتا رہےیا اوپر نوازا وہی جاۓ گا جو ان کا مصاحب ہوگا۔بے گھروں کے لیے بننے والی پانچ مرلہ سکیمیں ہوں یا سات مرلہ سب ان کے حواری لے اڑیں گے ۔برطانیہ امریکہ سے امداد کے نام پر پیسہ آۓ یا زلزلہ زدگان کی بحالی کے نام پر،تعلیم کے لیے ملے یا صحت کے لیے ۔اس سے محل ان ہی لوگوں کے کھڑے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو سو سال پہلے بے گھر تھے وہ آج بھی بے گھر ہیں جن کو ستر سال پہلے لوٹا گیا وہ آج بھی اجڑے ہوۓ ہیں۔معاشرے میں بڑھتی غربت پر سیمینار کرنے والے کروڑوں کھا جاتے ہیں مگر غریب کی غربت وہیں رہتی ہے۔کبھی فرمایا جاتا ہے کہ ملک میں جسم فروشی کا دھندا عروج پر ہے جناب جب تک بھوک کو زوال نہیں آۓ گا ایسے دھندے عروج پر ہی رہیں گے.مائیں بچوں سمیت خودکشی کرتی رہیں گی۔غربت اکیلی نہیں آتی بلکہ بھوک ،کسمپرسی، مایوسی اور بے حسی ساتھ لاتی ہے۔

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply