جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ مبارکہ منور

روایت ہے کہ کوئل اپنے انڈے کوے کے گھونسلے میں دیتی ہے اور اس کام کے لیے اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ گھونسلے میں موجود کوے کے انڈے توڑ کر اپنے انڈے دے کر چلی جاتی ہے اور روزانہ اسی طرح کرتی ہے اور کوا بےچارہ انہیں اپنے انڈے سمجھ کر سہتا رہتا ہے تاوقتیکہ انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں اور پھر اُن بچوں کی پرورش میں تندہی سے مصروف ہوجاتا ہے. اس طرح کوا کوئل کی آیا ٹھہرتا ہے.

اس روایت میں صداقت کتنی ہے اللہ بہتر جانتا ہے. لیکن یہ منظر تو ہم نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کوئل کا چوزہ خوراک کی طلب میں کوے کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے جن میں ایک دو خود کوے کے چوزے بھی ہوتے ہیں اور کوا اکثر تو خود اپنے ہی چوزے کے منہ میں خوراک ڈالتا ہے لیکن کبھی کبھار کوئل کے چوزے کے منہ میں بھی خیرات کی طرح خوراک ڈال دیتا ہے. اور آج کل یہ منظر صبح شام میں کئی بار دکھائی دیتا ہے. شاید ایسا ہی کوئی منظر دیکھ کر میرے سُسر صاحب بھی متاثر ہوئے اور آج صبح جب ناشتہ کرنے کی غرض سے کچن میں آئے تو کہنے لگے کہ کوئل بہت ہی “سیانا” پرندہ ہے اپنے بچوں کی پیدائش اور پرورش کوے سے کرواتا ہے.

جب کہ میرا نکتہ نظر اس حوالے سے ذرا مختلف ہے میں نے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے دی. لیکن چونکہ وہ اونچا سنتے ہیں تو میری بات سمجھ نہیں سکے اور جو میں نے کہا تھا وہ مجھ سے دوبارہ دہرانے کو کہا ۔۔میں جو اس وقت ناشتہ بنانے میں مصروف تھی لکڑیوں کے چولہے پر دھرے توے سے پراٹھا اتار کر پوری توجہ سے اُن کی جانب متوجہ ہوئی اور اپنی بات دہرائی کہ یہ کوئل کا سیانا پن نہیں بلکہ کمینگی ہے کہ وہ اپنی نسل کی پرورش خود کرنے کے بجائے کوے سے کرواتا ہے اور کوا لاکھ بدنام سہی لیکن پھر بھی دیالو ہے اور قربانی کرتا ہے اور باوجود کوئل کے بچوں کو پہچان لینے کے پھر بھی اُن کی خاطر مدارت کرتا ہی رہتا ہے اور شاید اسی دریا دلی اور قربانی کا صلہ ہے کہ کوؤں کی آبادی کو کوئی خطرہ نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں کوئل کی آبادی ہمیشہ گنی چنی اور چند ایک ہی رہی ہے.

میرے سُسر صاحب جو کہ اس وقت چائے پی رہے تھے میری بات سن کر انہیں زبردست “اچھو” لگا اور ان کی چائے ڈگمگا گئی لیکن فوراً ہی سنبھل کر ہنستے ہوئے کہنے لگے کمینگی ؟۔۔۔اچھا تو تم اسے “کمینتائی” کہتی ہو. اس کے بعد وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے اور مجھے یوں لگا کہ جیسے انہوں نے میری بات سے لطف تو لیا لیکن اتفاق نہیں کیا اور اُن کا خیال اب بھی وہی ہے جو وہ بیان کر چکے تھے. اور میری رائے اب بھی وہی ہے کہ کوئل کی صرف میٹھی اور درد بھری آواز اسے نمایاں کرتی ہے ورنہ اس میں ایسا کوئی وصف نہیں کہ قابلِ ستائش ہو.

کوئل ایک خانہ بدوش پرندہ ہے. موسم میں تبدیلی کے ساتھ ہی علاقہ بھی تبدیل کر لیتا ہے. نئی جگہ پر نیا اور بہتر جیون ساتھی تلاش کرتا ہے. اور خاصا پُر خور بھی واقع ہوا ہے. کوئل کے  انہی اوصاف کی بنا پر میرے پاس اس کی آواز کی پسندیدگی کے علاوہ اور کوئی جواز نہیں کہ میں اسے بطور مثال پیش کروں. شاید وہ ان باتوں سے لاعلم ہوں اسی لیے کوئل کو بطور مثال پیش کرتے ہوں. ویسے سیاناپن تو اپنے کوے پر ختم ہے اس کے لیے اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو گی کہ اس سے انسان نے اپنا مردہ بھائی دفنانا سیکھایہ اس کا کُل انسانیت پر احسان ہے ا س کے بعد اس کی خوبیوں پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی.

لیکن بڑے پھر بڑے ہی ہوتے ہیں چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کے اعتقادات پر بے دلیل، بے حوالہ، بے سند کے کہے”مستند”.

اسی طرح میرے بڑوں نے مجھے بتایا کہ یہ جو سیاہی مائل سُرخ “بھڑ ” ہے جسے ڈیمو، یا زنبور بھی کہتے ہیں اور ہماری زبان میں اسے “گھریڑ “کہتے ہیں یعنی گھروں میں رہنے والی. جو کہ عام طور پر انسانی آبادی میں رہنا پسند کرتی ہے اور گھروں کے اندر نسبتاً تاریک کونوں میں جہاں آمدورفت قدرے کم ہو وہاں پر یہ اپنا گھر بناتی ہے اور اس کا گھر بھی دوسری بھڑوں کے گھر سے مختلف ہوتا ہے. عام طور پر ایسی مکھیاں اپنے موم سے چھتہ بنا کر ان میں رہتی ہیں یا پھر کچھ قسمیں پرانی موٹی لکڑی میں سوراخ بنا کر رہتی ہیں. جبکہ یہ سیاہی مائل سُرخ بھڑ اپنے ننھے سے منہ میں گیلی مٹی لے کر آتی ہے اور دیوار کی اوٹ میں، کھڑکی کے پٹ پر، دروازے کے پیچھے جہاں جہاں بھی اسے جگہ مناسب لگے یہ اپنے گھر کی تعمیر شروع کردیتی ہے اور اس کی یہی بات ہمیں بری لگتی ہے،

ویسے بعض دیگر بھڑوں کی طرح یہ عادتاً تو حملہ نہیں کرتی البتہ جوابی حملہ ضرور کرتی ہے اور اسی جوابی حملے کا میں بھی ایک دو بار شکار ہوئی کیونکہ میں چاہتی تھی کہ یہ ہر جگہ اپنی بستیاں نہ بسائے جبکہ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے نتیجتاً ہماری ہاتھا پائی  ہوئی  ،میں نے ڈرا کر اسے بھگانا چاہا تو اس نے جوش میں آ کر حملہ کردیا اور میری ٹانگ پر ڈنک دے مارا اور آئندہ کئی دنوں تک میری ٹانگ پر اس کے وجود کا اسٹیکر چھپا رہا جو ناصرف اس کے وجود کے برابر تھا بلکہ اسی کے ہم رنگ بھی تھا.

اس بھڑ کے گھر کی بناوٹ بھی کچھ عجیب سی ہوتی ہے یعنی گارے سے ایک گنبد نما چوٹی بناتی ہے اور اس گنبد کے اندر دو تین علیحدہ علیحدہ سرنگیں بناکر ان سرنگوں میں باہر درختوں اور گھاس پر سے کیڑے چن کر لاتی ہے اور ان کیڑوں کو اپنے بنائے ہوئے سرنگوں میں ڈال کر بند کردیتی ہے اور اُپر سے پھر اچھی طرح لپائی  کرکے اپنا کام ختم کر دیتی ہے. اور اپنے اسی طرح کے اگلے مشن پر پھر روانہ ہو جاتی ہے اور کچھ عرصہ بعد اس چوٹی میں سے اس بھڑ کے بچے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں یہ منظر ہمارے روز مرہ زندگی میں معمول کی بات ہے. لیکن اس میں جو غیر معمولی بات ہے وہ یہ ہے کہ مجھے میرے بڑوں نے بتایا کہ

” دیکھو خدا کی قدرت کہ یہ بھڑ مختلف اقسام کے کیڑے لاکر دفن کرتی ہے جو کہ کچھ عرصہ بعد اسی کی نسل کے بچے بن کر نکلتے ہیں” اور میں خاموشی اور حیرت سے اپنے بڑوں کا منہ تکتی کیونکہ اس منطق کے رد میں میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی تھی. لیکن پھر ایک سائنسی کالم کے ذریعہ مجھ پر یہ” بھید” کھلا کہ یہ بھڑ سرنگوں میں کیڑے دفن کرنے سے قبل ان میں انڈے دیتی ہے اور کیڑوں کو اپنے نکلنے والے بچوں کے لئے بطور خوراک دفن کرتی ہے.

ایسے ہی ایک اندھے یقین کا واقعہ میری ساس صاحبہ بھی بیان کیا کرتی ہیں کہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں ایک حاملہ خاتون کی وفات ہوئی تو لوگوں نے اس کی تدفین کردی لیکن حمل میں بچہ اس کا زندہ ہی تھا. قبر میں دفن شدہ مردہ خاتون کے بچے کی پیدائش ہوئی پھر اس کی پرورش ہوئی  یہاں تک وہ بچہ کسی طرح سے راستہ بناکر قبر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر کبھی قبر کے اندر اور کبھی باہر آنے جانے لگا. گڈریا لوگ بکریاں چرانے جاتے تو ایک بچے کو قبر کے قریب کھیلتے دیکھتے قریب جاتے تو بچہ غائب ہو جاتاتجسس کے مارے چھپ کر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ غائب ہونے کی صورت میں بچہ قبر کے اندر چلا جاتا ہے. پھر قبر کھولی گئی تو مزید حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ مدت سے وفات یافتہ خاتون کا ناصرف ایک پستان تندرست تھا بلکہ اس میں دودھ بھی موجود تھا اور وہی اس بچے کی نشوونما کا ذریعہ تھا. میں نے ادب سے کہا کہ ماں جی! ایسا ممکن نہیں. تو کہنے لگیں کہ تمہیں معجزات و کرامات کا اعتبار نہیں لیکن میں اس واقعہ کے چشم دید گواہوں سے مل چکی ہوں اور وہاں کے لوگ اس بچے کو “نامُردی” کے نام سے موسوم کرتے ہیں یعنی جو مر نہ سکا.

Advertisements
julia rana solicitors london

اور مجھے فیض صاحب یاد آئے شاید انہوں نے بھی اسی قسم کے معجزات کے انکار میں کہا ہو کہ۔۔۔۔”مجھے معجزوں پہ یقیں نہیں”.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply