میں نے کراچی جلتے دیکھا ہے۔۔عدیل رضا عابدی

27دسمبر2007کی زرد و سرد شام سے یونیورسٹی کیمپس میں بیٹھا محظوظ ہورہا تھا کہ ایک دم فون کی گھنٹی بجی, والدہ کا نمبر  سکرین پر نمودار وا, دوسری جانب سے ملنے والی خبر نے مجھے چند لمحوں کے لئے بوکھلاہٹ میں مبتلاء کردیا۔۔۔
عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کردیئے جانے کی اطلاع کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ والدہ کا میرے والد سے رابطہ نہیں ہوپارہا, معلوم کیا جائے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں, والدہ مرحومہ کی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے میں نے انہیں دلاسہ دیا کہ آپ مت گھبرائیں پاپا خیریت سے آجائیں گے, ویسے بھی قتل کراچی میں نہیں ہوا یہاں سب ٹھیک ہے۔

تم نہیں جانتے اب یہ لوگ کراچی پر کیا قیامت ڈھائیں گے, تمہیں کچھ نہیں معلوم۔۔۔ یہ کہہ کر والدہ نے رابطہ منقطع کردیا۔۔

سرِآسماں جھٹپٹے نے جیسے ہی دن کے اختتام کی خبر دی ،میں یونیورسٹی سے نکلا, ایک کلومیٹر کا سفر طے بھی نہ ہوا تھا کہ ایک بس نذرِ آتش دکھائی دی, ابوالحسن اصفہانی روڈ سے سہراب گوٹھ کی جانب بڑھا تو شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگیں, عباس ٹاؤن اقرا ء سٹی کے سامنے ہائی لکس ڈالے میں سوار آدھے درجن نقاب پوش جنہوں نے سندھ کی موجودہ حکمران  جماعت کا پرچم اٹھا رکھا تھا عباس ٹاؤن جانے والی سڑک پر اندھا دھند فائرنگ کرتے دکھائی دئیے, فائرنگ سے بچنے کے لئے بائیک ایک طرف چھوڑ کر ایک دکان میں پناہ لی, قریب 15 منٹ بعد آتش فشانی کا سلسلہ تھما تو میں گھر کی جانب روانہ ہوا مگر سہراب گوٹھ  پہنچتے ہی منظر بدل چکا تھا, ہزاروں افراد پیدل روبہ جانب منزل خوف کے عالم میں جاتے دکھائی دیئے, انچولی انٹرچینج پہنچنے تک قریب ایک درجن چھوٹی بڑی گاڑیوں سے اٹھتے شعلوں کی تپش سے اپنا بدن تاپ چکا تھا۔

علاقے کی ساری دکانیں بند ہوچکی تھیں, گھر میں داخل ہوتے ہی پہلا سوال جو اماں نے کیا وہ یہ تھا کہ ” پاپا سے رابطہ ہوا” ؟
باہر کے حالات اور اماں کی گھبراہٹ سے مجھے مزید پریشانی لاحق ہوگئی, سانحہ کے روز میرے والد بحیثیت میرین سرویئر پاکستان کسٹم کے ایک پروجیکٹ پر کام کررہے تھے جو پورٹ قاسم پر جاری تھا۔ میں نے پاپا کو کال کرنے کی کوشش مسلسل جاری رکھی لیکن ان کا نمبر لگ کر نہیں دیا, اسی دوران مجھے اپنی جماعت کے علاقائی یونٹ سے کال آئی کہ مدینہ کالونی, فیڈرل انڈسٹریل ایریا سے فیکٹریوں کی خواتین ملازمین کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچانے کا انتظام کرنے کے لئے سب جمع ہوجائیں, جو خواتین نہ جاسکیں انہیں اپنے گھروں میں پناہ دیں اور اُن کا گھروالوں سے رابطہ کروائیں۔

ہم تمام لڑکے اس کارِخیر کی تکمیل میں جُت گئے۔ اسی اثناء میں یہ بھی یاد نہ رہا کہ پاپا اب تک گھر نہیں پہنچے۔ قریب رات 8 بجے والدہ نے دوبارہ کال کی اور کہا کہ کسی بھی طرح پاپا کا معلوم کرو, میں نے ان کے ساتھیوں کو کال کرنا شروع کی تو ان میں سے ایک نے بتایا کہ عابدی صاحب اُس ہولناک قتل کی خبر سنتے ہی پورٹ سے چلے گئے تھے, اب موصوف کی بات سن کر ہمارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ ہم نے اپنے بھائیوں اور کزنز کو کال کرکے جمع کیا اور ان سے معاملے کی سنگینی کو ڈسکس کیا, نیوز چینلز کے مطابق کراچی میں شام سے اُس وقت تک متعدد افراد قتل ہوچکے تھے۔ حواس پر قابو پاتے ہوئے یہ طے کیا کہ خود پورٹ قاسم سے گھر کی طرف آنے والے راستوں پر پاپا کو تلاش کیا جائے جبکہ دیگر کو مردہ خانوں اور ہسپتالوں میں تلاش کے لئے بھیجا جائے۔

تلاش میں آدھی رات گزر چکی تھی, کوئی بھی پاپا کی خبر نہ لاسکا کہ ہماری اماں کی صفِ  ماتم اُٹھ سکے۔ اس دوران ہم نے کراچی کی وہ تاراجی دیکھی جو شاید بغداد والوں نے امریکی فوج اور مہدی ملیشیا کے درمیان لڑائی کے بعد دیکھی ہو۔ شہر قائد کے ماتھے پر خون میں لت پت جھومر لٹک رہا تھا, عروس البلاد شبِ عروسی ہی بیوہ ہوئی دلہن کی طرح خوف و ہراس اور کمبختی کا شکار تھا۔ سیکڑوں جلتی ہوئی گاڑیاں اندھیرے میں ڈوبے شہر کو روشن کیے دے رہی تھیں, یہ تو ابتداء تھی, کراچی مثل ِ واقعہ حرہ مدینہ کی طرح مباح قرار دے دیا گیا تھا, پولیس تھانوں و چوکیوں میں پناہ گزین اور رینجرز بیرکوں میں چُھپ چکی تھی۔ شہرِ ناپُرساں کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا, ایک طرف سمندر اور تین اطراف سے گوٹھوں دیہاتوں سے گھرے اس شہر پر وقفے وقفے سے یلغار ہوتی, کہیں کہیں حملہ آور کامیاب ہوتے بینک اور دکانیں لوٹتے, اے ٹی ایم مشینیں اکھاڑ کر ساتھ لے جاتے اور جاتے جاتے کھڑی ہوئی گاڑیاں جلا جاتے, تین روز تک کراچی باہر سے آئے ابدالیوں اور غزنویوں کے لئے غالب کا دلّی اور گھنشام ویاس کا گجرات بنا رہا جہاں لوٹ مار, جلاؤ گھیراؤ اور اغوا کا بازار گرم رہا۔

کہیں کہیں ان گوٹھ دیہاتوں سے حملہ آور ہوتے یلغاریوں کو مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا, 29 دسمبر کا سورج غروب ہوچکا تھا, 3 دن سے میرے والد کا کہیں اتا پتا نہ تھا, ایدھی سردخانے, سرکاری و نجی ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ چھانے جاچکے تھے, ہمارا گھر بھی کراچی کے ہزاروں متاثرین گھروں میں سے ایک تھا, ٹی وی چینلز اب قتل, لوٹ مار, جلاؤ گھیراؤ کے ساتھ ساتھ متعدد مرد و خواتین کے اغواء  و لاپتا ہونے کی بھی خبریں نشر کررہے تھے۔ حول و افسوس کا شکار ہم اہلخانہ کو ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے 30 دسمبر کی صبح مژدہ ملا کہ ہمارے والد بقدرِ حیات مگر زخمی حالت میں پورٹ قاسم کے قریب واقع نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ہوش میں آنے پر انہوں نے رابطہ کرنے کیلئے کہا ہے۔۔۔

ہم سب بتائے گئے مقام پر پہنچے, والد کو دیکھا تو وہ پٹیوں میں لپٹے بستر پر موجود تھے, گھر آنے اور ہوش و حواس بحال ہونے پر انہوں نے جو خود پر بیتی ہمیں سنائی وہ یہ تھی کہ
” میں جیسے ہی پورٹ قاسم پر واقع آئل ٹرمینل زیڈ او ٹی سے نکلا تو اچانک جھاڑیوں کے جھنڈ میں چھپے مسلح جتھے نے گاڑی کے سامنے آکر مجھے روک لیا, اور سندھی بولی میں پوچھنے لگے کہ کہاں جارہے ہو, میں نے جواب دیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے گاڑی کے شیشے توڑنا شروع کردیئے کہ ‘ اردو والا ہے, بی بی کے قاتلوں میں سے ہے’, مجھے گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا, گاڑی کو آگ لگادی جبکہ مجھ سے موبائل فون ،لیپ ٹاپ, والٹ چھننے کے بعد مجھ پر ڈنڈوں کی بوچھاڑ کردی, ایک ٹانگ, ہاتھ اور پسلیوں کی ہڈیاں توڑ دیں, سر پر وار ہونے سے میں بے ہوش ہوا تو شاید مجھے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے, ایک بھلا آدمی جو پیشے کے لحاظ سے آئل ٹینکر ڈرائیور ہے اس نے مجھے ہسپتال تک پہنچا دیا”
ہم لوگ بعد میں اس بھلے آدمی جاکر ملے اور اس کا شکریہ ادا کیا, اس کے سوا کربھی کیا کرسکتے تھے یہ تو وہ احسان تھا کہ ساری زندگی خدمتیں کرکے بھی نہیں اتارا جاسکتا تھا۔

میرے والد کو صحتیاب ہونے میں تقریباً سال بھر کا عرصہ لگا, ابھی یہ غم و تکلیف بھولے بھی نہ تھے کہ عصر عاشور 28دسمبر2009کو کراچی میں عاشورہء محرم کے جلوس کو بم دھماکہ کرکے نشانہ بنایا گیا, سرکاری طور پر 50 جبکہ غیرسرکاری طور پر 105 افراد جان سے گئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے جنہیں لیاقت نیشنل اور آغا خان ہسپتال طبی امداد کے لئے منتقل کیا گیا۔

دھماکہ قریب سوا چار بجے ہوا, جلوس عزا کے دوران میں اور مجھ سے چھوٹے دو بھائی بطور سکاؤٹس عزاداران امام حُسین علیہ السلام کی خدمت میں مصروف عمل تھے۔ جائے وقوعہ سے تقریباً 100 میٹر کے فاصلے پر موجود میں اپنے بھائیوں کے کیمپ کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک دھماکہ ہوگیا جس کے بعد قیامت صغریٰ کے مناظر تھے, ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں, زخمیوں کی آہ زاری جاری تھی, يَوْمَ يَكُـوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ کا منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا, جائے دھماکہ پر لگی آگ سے اٹھتا دھواں ذرا بیٹھا تو قریبی عمارتوں کی بالکونیوں سے انسانی اعضاء لٹکتے نظر آئے۔ ایک جانب خون کا رشتہ بھائیوں کی تلاش پر مجبور کررہا تھا تو دوسری جانب  سکاوٹنگ کے فرائض بھی انجام دینے تھے, امدادی کارروائی شروع ہوچکی تھی, زخمیوں میں ہی چھوٹا بھائی نظر آگیا جبکہ دوسرا بفضل خدا محفوظ تھا۔ ایمبولینسز اور نجی گاڑیوں کے ذریعے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا ہی جارہا تھا اچانک بولٹن مارکیٹ سے ملحقہ گلی سے شرپسندوں کا ایک گروہ نمودار ہوا جنہوں نے کالے لباس زیب تن کیے ہوئے  تھے, ہاتھوں میں فاسفورس یا کسی اور قسم کے آتشگیر مادے کے بڑے بڑے گیلن اٹھائے ہوائی فائرنگ کرتے خوف و ہراس پھیلاتے نظر آئے, لائٹ ہاؤس چوک پر آتے ہی غنڈوں نے دکانوں اور گاڑیوں پر کیمیکل پھینکنا شروع کیا جو ہوا لگتے ہی آگ پکڑتا جاتا, چند منٹوں میں ہی لائٹ ہاؤس, بولٹن مارکیٹ اور اطراف کی دکانوں کو آگ لگادی گئی, اولڈ کے ایم سی بلڈنگ میں واقع حبیب بینک کو لوٹ لیا گیا, ایم جناح روڈ پر واقع قدیمی اسلحہ فروشی کے مرکز العباس آرمری کے تالے توڑ کر جدید قسم کا چھوٹا بڑا اسلحہ چوری کرلیا گیا۔

ہمت کرکے میں نے بھی اپنے چند دوستوں کی مدد سے دو شرپسندوں کو پکڑلیا جنہیں بعد میں انٹیلی جنس والے اپنے ساتھ لے گئے۔ جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو جیسے کوئی اشارہ ملا ہو ،اچانک دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوگئے, رینجرز کی نفری اپنی پوزیشن سنبھال چکی تھی۔۔۔

شام غریباں سے پہلے بپا شامِ غریباں کے ہنگام کے بعد پنڈی اسٹبلشمنٹ کی پروردہ مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ حسن ظفر نقوی نے پاک محرم ہال و فاطمیہ میت غسل خانے میں منعقدہ پریس کانفرنس میں دھماکے کو خودکش قرار دیا (جس کے متعدد عینی شاہدین زخمی حالت  میں موجود تھے) مگر 45منٹ بعد ہی دوسری پریس کانفرنس میں دھماکہ پلانٹڈ بم کا نتیجہ قرار دے کر دکانوں کو آگ لگائے جانے کی ذمہ داری اس وقت کے میئر کراچی اور ان کی جماعت پر ڈال کر شہرقائد میں مزید افراتفری پھیلانے کی کوشش کی گئی ۔

ایم کیو ایم کے نمائندوں کو ہسپتالوں کا دورہ کرنے سے روکا جانے لگا, راقم خود اس بات کا گواہ ہے کہ لیاقت نیشنل ہسپتال میں شہر کی نمائندہ سیاسی جماعت کے رہنما فاروق ستار کو زخمیوں کی عیادت کے لئے ایم ڈبلیوایم کے کارندوں کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑے تھے تب جاکر انہیں ہسپتال میں داخل ہونے دیا گیا۔

جن شرپسندوں کو ہنگامہ آرائی کے دوران پکڑ کر انٹیلی جنس حکام کے حوالے کیا گیا تھا انہیں تفتیش کے بعد سٹی کورٹ میں پیش کردیا گیا تھا, متعدد عینی شاہدین نے عدالت میں پیش ہوکر گواہی دی جبکہ ملزمان نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ لیاری گینگز اور عبدالقادرپٹیل کے لئے کام کرتے آئے ہیں اور انہی کے حکم پر انہوں نے یہ سب کیا۔ پیشی سے واپسی پر ملزمان کے ساتھیوں نے سٹی کورٹ کے احاطے میں فائرنگ کی اور نگرانی پر معمور پولیس اہلکاروں کو شہید کرکے انہیں بھی چھڑا لے گئے۔

عاشورہ اور اس کے بعد ہی چہلم پر ھوئے دو دھماکے کراچی میں فرقہ وارانہ اور سیاسی کارکنان کے قتل ِعام کی نئی لہر لے کر وارد ہوئے, جس کے بعد کراچی آج تک سنبھل نہ سکا, شہرقائد سے سیکڑوں کی تعداد میں قابل پروفیشنل شخصیات بیرون ملک منتقل ہوچکی ہیں جبکہ چارسو سے زائد کو قتل کیا جاچکا ہے جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا۔۔۔ آج جو کراچی مجھے میسر ہے اس سے رونقیں اٹھ چکی ہے, جو کچھ ہنگام زندگی ہے سب مصنوعی, دھوکہ, فریب ہے, مجھ سمیت ہر شخص اس شہر میں خوف کا شکار ہے, شام ڈھلتے ہی بے ہنگمی کا شکار شہر کسی ویران قبرستان میں منعقد عُرس کے میلے کا منظرپیش کرتا جبکہ گلیاں سنسان اور آسیب زدہ محسوس ہوتی ہیں, جس کراچی سے میں نے عشق کیا تھا وہ رخصت ہوچکا, وہ شاید ہی لوٹ کر آئے کیوں کہ میں نے اسے غیروں کے ہاتھوں اپنوں کی بےحسی سے اجڑتے, جلتے دیکھا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply