• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انڈیا میں مودی اور آر۔ ایس۔ ایس کی دہکائی جہنم بارے غیر ملکیوں کے تاثرات – غیور شاہ ترمذی

انڈیا میں مودی اور آر۔ ایس۔ ایس کی دہکائی جہنم بارے غیر ملکیوں کے تاثرات – غیور شاہ ترمذی

میری طرح شاید آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں کہ جولائی سنہ2011ء میں ہونے والی ایک دہشت گردانہ کاروائی، امسال کرائیسٹ چرچ، نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہونے والی دہشت گردی اور اسی سال اگست میں امریکی ریاستوں ٹیکساس اور اوہایو میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات ایک دوسرے سے فکری اور نظریاتی طور پر مربوط ہیں۔ کیسے؟۔ فی الحال اس سوال کو چھوڑ کر ہم ان تینوں حملوں کے بارے میں کچھ جانکاری لے لیں تاکہ اس کیسے کا جواب حاصل کیا جا سکے۔

تفصیلات کے مطابق امریکہ کے شہروں ٹیکساس کے شہر ایل پاسو اور اوہایو کے شہر ڈیٹن میں 24 گھنٹوں کے دوران فائرنگ 5 اگست کو 2 نسل پرست سفید فام دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 29 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق کانر بیٹس نامی 24 سالہ حملہ آور نے ڈیٹن کے ایک مقامی نائٹ کلب کے باہر فائرنگ شروع کر دی، لیکن نزدیک موجود پولیس اہلکاروں نے اسے موقع پر ہلاک کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں حملہ آور کی اپنی بہن بھی شامل تھی۔ اس سے قبل ٹیکساس کے شہر ایل پاسو میں ایک شاپنگ مارٹ میں فائرنگ کے ایک واقعے میں 21 سالہ پیٹرک کروسئس نامی دہشت گرد نے 20 افراد ہلاک اور 26 کو زخمی کر دیا تھا۔

نارویجین دہشت گرد بریوک
آر ایس ایس

یہ دہشت گرد پولیس کے ہتھے چڑھ گیا اور تحقیقات میں پتہ لگا کہ یٹرک کروسئس نامی یہ دہشت گرد کرائیسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی مسجد پر مسلح حملہ کر کے 51 نمازیوں کو ہلاک کرنے والے آسٹریلین دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ سے بہت متاثر تھا اور ایسی ہی کاروائی امریکن میکسیکن لوگوں کے خلاف کرنا چاہتا تھا۔ نیوزی لینڈ میں کرائیسٹ چرچ مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹارنٹ سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق یہ شخص ناروے میں 22 جولائی سنہ2011ء میں 32 سالہ دہشت گرد آندرس بیہرنگ بریوک کی طرف سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں حکمران جماعت کے ایک یوتھ کیمپ کے 69 شرکاء کی ہلاکت اور اس فائرنگ سے کچھ ہی پہلے اسی دہشت گرد کی جانب سے نصب ایک بم دھماکے میں 8 افراد کی ہلاکت کو آئیڈیلائز کیا کرتا تھا۔ ناروے کے دہشت گرد آندرس بیہرنگ بریوک نے اپنی ویب سائیٹ پر اپنی دہشت گردانہ سوچ کے اغراض و مقاصد تحریر کئے تھے جس میں اُس نے واضح طور پر بتایا تھا کہ اس بزدلانہ دہشت گردی کے پیچھے وہ کن انتہا پسند اور سخت گیر تنظیموں سے متاثر تھا جو اس کرہ ارض پر نفرتوں اور دہشت گردیوں کا ایجنڈہ پھیلا رہی ہیں۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ نارویجین دہشت گرد بریوک نے اپنی سوچ کے پیچھے جس تنظیم کا نام لیا، اُسے ہم راشٹریہ سیوک سنگھ یعنی آر۔ ایس۔ایس انڈیا کے نام سے جانتے ہیں۔ بریوک نے آر۔ ایس۔ایس کی ہندو نیشنل ازم کی جی بھر کے تعریفیں بیان کی ہیں جس کے تحت آر۔ ایس۔ایس نے انڈیا کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ آر۔ ایس۔ایس کیسے انڈیا بھر کے گلی محلوں میں منظم ہو کر کاروائیاں کرتی ہیں جن کا نشانہ زیادہ تر مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ بریوک نے مزید لکھا ہے کہ آر۔ ایس۔ایس اور سفید فام نسل پرستوں کت اغراض و مقاصد ایک جیسے ہی ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون بڑھا کر ان دونوں کو ایک دوسرے کی کاروائیوں اور تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ آر۔ ایس۔ایس ایک مسلح شدت پسند تنظیم ہے جو سنہ 1925ء میں قائم کی گئی تھی۔ یہ وہی سال تھا جب جرمن نازی سوشلسٹ آمر آڈولف ہٹلر نے اپنی مشہور سوانح حیات ’مائن کامپف‘ یا ’میری جدوجہد‘ شائع کروائی تھی جو ایک طرح سے اُس کا فاشسٹ سیاسی منشور بھی تھا۔ آر۔ ایس۔ایس نے اپنی تنظیم کے اغراض و مقاصد اور نصب العین کا تعین کرتے وقت مائن کامپف سے ہی رجوع کیا تھا۔ آر۔ ایس۔ایس اور مائن کامپف کے ملغوبہ سے ہی نریندر سنگھ مودی نے جنم لیا تھا۔ آر۔ ایس۔ایس کی سیاسی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز انڈین ریاست گجرات تھی جہاں پر مقیم ہندو آبادی شدت پسند نظریات رکھنے والی تھی اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے الگ تھلگ رہ کر صرف اور صرف ہندو توا کے نظریہ پر عمل پیرا تھی۔ انہوں نے اپنے لوگوں میں تجارت کو بے انتہا فروغ دیا اور اپنی فطرت کے تحت لوگوں کو پیسے دے کر خود کے لئے لڑنے کی ذمہ داری بھی سونپی۔ سنہ 2002ء میں مودی نے آر۔ ایس۔ایس کے اس مسلح جتھوں کی سربراہی کی تھی جنہوں نے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی تھی جس میں 2000 مسلمانوں کی ہلاکت کے علاوہ سینکڑوں مسلمان خواتین کے ساتھ گینگ ریپ بھی کیا گیا تھا۔ مرنے والے ان مسلمانوں میں ایسے کافی لوگ تھے جنہیں آر۔ ایس۔ایس کے غنڈوں نے زندہ جلا دیا تھا۔ ان حملہ آوروں کے بیشتر اراکین نے بعد میں میڈیا کے سامنے کئی دفعہ اعترافات کئے کہ اس نسل کش سانحہ کی منصوبہ بندی کی منظوری اُس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر سنگھ مودی نے دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان اعترافات کے بعد امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک نے نریندر مودی کے اپنے ممالک میں داخلہ پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ امریکہ میں مودی کے داخلہ کی اس پابندی کا خاتمہ 10 سال بعد سنہ 2012ء میں اُس وقت ہوا جب مودی انڈیا کا وزیر اعظم منتخب ہوا۔ انڈیا میں جاری اس ابتر صورتحال کے بارے میں ہیوسٹن ٹیکساس کی ریاستی اسمبلی کے اراکین نے مودی کی مذمت میں مشترکہ بیان بھی جاری کیا اور مودی کے ہیوسٹن میں ہونے والے جلسہ Howdi Moodi میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کچھ دوسرے ممبران پارلیمنٹ کی شرکت کی شدید مذمت بھی کی۔

امریکیوں کی طرح ہی ان دنوں انڈیا سے واپس آنے والے کئی دوسرے غیر ملکیوں نے انڈیا میں آر۔ ایس۔ایس اور مودی کی فسطائیت کا پردہ چاک کیا ہے۔ بحفاظت آسٹریلیا پہنچنے والی ایک خاتون سیاح سینڈرا کا کہنا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ میں بمشکل تمام انڈیا سے واپس نکل آئی ہوں۔ جب تک میں انڈیا میں مقیم تھی، میرے فون ٹیپ کئے جا رہے تھے۔ مجھے انڈین امیگریشن والوں نے بہت دیر تک پریشان کئے رکھا، میری ای میل اور میرے ذاتی لیپ ٹاپ کے پاس ورڈ لے کر میرا ڈیٹا کھنگالا جاتا اور انڈیا میں مقیم میرے مسلمان، عیسائی اور ترقی پسند خیلات رکھنے والے ہندو دوستوں کے بارے میں معلومات لی جاتیں۔ ایک دوسرے شخص پیٹرک کا تعلق جرمنی سے ہے اور اُس نے کہا ہے کہ اگرچہ انڈیا کے درجنوں شہروں میں جاری مظاہروں کی خبریں باہر کی دنیا میں جانے سے روکنے کے لئے مودی سرکار نے انٹرنیٹ بند کر رکھا ہے لیکن وہاں کی خبریں کسی نہ کسی ذریعہ سے باہر نکل رہی ہیں۔ لوگوں کو جبری گمشدگی  کے علاوہ راہ چلتے مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دلتوں پر ظالمانہ حملے عام ہیں۔ کشمیر میں بھارتی جبر و استداد کا عالم یہ ہے کہ وہاں آئے دن انڈین فوجی اور آر۔ ایس۔ایس کے جتھے گلی محلوں میں گھس کر خواتین کے گینگ ریپ کرتے ہیں۔ کشمیریوں کی منظم نسل کشی جاری ہے اور انہیں تیسرے درجہ کی رعایا کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ انڈیا میں کوئی بھی غیر ملکی شخص نریندر سنگھ مودی اور آر۔ ایس۔ایس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا ورنہ انہیں فورا“ انڈیا سے ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ مودی ہرگز انڈیا کے لئے اچھا نہیں ہے۔ مودی کی وجہ سے انڈیا اس وقت دنیا کی تمام تشریحات کی رو سے ہندو فاشسٹ ریاست بن چکا ہے اور دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ انڈیا میں اس وقت تمام پیسہ صرف اور صر ف ہندو توا کا نفاذ کرنے میں لگ رہا ہے اور انڈیا ایک دفعہ پھر منتشر اور تقسیم ہونے کے دہانہ پر پہنچ چکا ہے۔

میری این ناروے کی سیاح تھیں جنہیں مودی سرکار نے انڈیا سے اس لئے ڈی پورٹ کیا ہے کہ انہوں نے مودی کے خلاف ہونے والے کشمیری لوگوں کے ایک مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جھوٹ پر یقین کرنا چھوڑ دیں۔ میں کشمیریوں کے ساتھ رہی ہوں۔ اُن کے رشتہ داروں کو کاروبار کرنے کے لئے دہلی آنا پڑتا ہے۔ مہینوں سے اُن کے یہاں فون، انٹرنیٹ کے استعمال کی بندش لگی ہوئی ہے۔ غیر ملکیوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ صرف ایک کمپنی ہی انٹرنیٹ اور پری پیڈ فون کے کنکشن دے رہی ہے مگر وہ بھی صرف انڈین شہریوں کو۔ کشمیر میں مودی سرکار اغواء، جبری گم شدگیوں اور ہندو جوانوں کی مسلم خواتین کے ساتھ زبردستی کی شادی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ زبردستی کی ان شادیوں کی میڈیا میں بہت تشہیر کی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کی بے بسی اور مجبوری کا مذاق اُڑاتے ہوئے قہقہے لگائے جا سکیں۔میرا دل ان واقعات کو دیکھ کر متلا جاتا ہے۔ مودی اور آر۔ ایس۔ایس مقبوضہ کشمیر اور لداخ میں انڈین آئین کی مخصوص حیثیت کو ختم کرنے کے بعد سے لوگوں پر جاسوسی کا وسیع ترین نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ یہ ویسا ہی کنٹرولڈ فاشسٹ نظام ہے جیسا کہ ہٹلر نے اپنی کتاب میں پیش کیا تھا۔ مجھے انڈیا میں رہنے کا کافی سالوں طویل تجربہ رہا ہے لیکن میڈیا پر اتنی شدید پابندی اور کنٹرول کا مجھے پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں تو اس صورتحال سے اتنی خوفزدہ تھی کہ اپنی فیملی کے ساتھ بھی فون یا انٹرنیٹ پر بات کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔ انڈیا سے باہر نکلنے کے لئے مجھے براستہ سڑک انڈیا۔ نیپال بارڈر کی طرف جانا پڑا اور جس قسم کا سلوک مجھے امیگریشن حکام سے بھگتنا پڑا، اُس کی وجہ سے میں نے پکا تہیہ کر لیا ہے کہ کبھی بھی انڈیا واپس نہیں آؤں گی۔ جب میں امیگریشن مراحل سے گزر کر نیپال امیگریشن کی طرف جا رہی تھی تو میرا سامان انڈین حکام نے روک لیا۔ انہوں نے میری تفتیش شروع کر دی اور میرے سامان کی اس طرح تلاشی شروع کر دی کہ کسی بھی طرح سے اس میں سے کوئی ممنوعہ شے نکل آئے۔ میں اتنی خوفزدہ تھی کہ تلاش کے دوران شاید یہ خود ہی میرے سامان میں ایسی کوئی مشکوک چیز نہ شامل کر دیں۔ اس تلاشی کے دوران وہ مجھے مسلسل خوفزدہ کرتے رہے کہ اگر میرے سامان سے کچھ نکل آیا تو وہ مجھے لمبے عرصہ کے لئے جیل میں ڈال دیں گے اور مجھے ہمیشہ کے لئے انڈیا میں داخلہ کے لئے بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ انڈین امیگریشن کے مراحل سے کلئیر ہو جانے کے باوجود بھی وہ میرا پاسپورٹ لے کر واپس انڈین حدود میں چلے گئے اور میرا فون لے کر واہیات اور فضول سوالات کرتے رہے جن کا امیگریشن کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میرے فون میں موجود میرے انڈین عیسائی دوستوں سے میری دوستی پر وہ شدید تنقید کرتے رہے۔

میری این کی طرح کرسٹائن بھی انڈیا سے حال ہی میں امریکہ واپس پہنچی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی طرح عیسائیوں پر بھی آر۔ ایس۔ایس کے مسلح جتھے منظم حملے کر رہے ہیں۔ کرسٹائن بھی ان غیر ملکیوں میں شامل تھیں جو انڈیا سے نیپال کے راستہ نکل سکی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ انڈیا سے نکلنے کے بعد بھی اُن کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں انڈین حکومت کے بے شمار جاسوس گھوم رہے ہیں۔ مجھے وہاں ایسے کئی لوگ ملے جو انڈین عیسائیوں اور مسلمانوں پر شدید تنقید کر رہے تھے اور اُن کے بارے میں سخت ناپسندیدہ الفاظ کھلے عام ادا کر رہے تھے۔ انڈیا میں قیام کے دوران میرے دوستوں کو بھی پریشان کیا گیا اور میں نے جب امریکہ سے اپنے خاندان سے کچھ رقم ویسٹرن یونین منی ٹرانسفر کے ذریعہ منگوائی تو مجھے کسی بھی منی چینجر نے یہ رقم دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے یہ رقم کشمیر میں بے گھر ہونے والے اور شدید معاشی بدحالی کا شکار ہونے والے کچھ خاندانوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لئے منگوائی تھی۔ میں جس بھی منی چینجر جاتی تو مجھے یوں لگتا کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُن کے سٹاف کو ہدایات پہنچ جاتیں کہ بغیر کوئی وجہ بتائے مجھے یہ رقم نہ دی جائے جو میں نے اپنے خاندان سے منگوائی تھی۔ میں نے یہاں واپس پہنچنے کے بعد اتھارٹیز سے چیک کیا ہے اور وہ بتا رہے ہیں کہ مجھے انڈیا میں بھیجے جانے والی اس رقم کو روکنا ہر طرح سے غیر قانونی اور غلط طرز عمل ہے۔ انڈیا میں مجھے منی چینجرز والے بتاتے تھے کہ یہ رقم تو میرے نام سے آئی ہی نہیں ہے۔ میں معاشی طور پر اس قدر مجبور ہو چکی تھی کہ میں ایک خاندان کو سردی کے شدید موسم سے نبٹنے کے لئے صرف $20 امریکی ڈالر مالیت کے کمبل تک بھی مہیا نہیں کر سکی۔ مجھے انڈین کلچر اور انڈیا سے بہت محبت تھی۔ مجھے یہاں کے لوگوں سے ملنا اور ان کے مزے کے کھانوں سے مجھے بہت رغبت تھی۔ مجھے انڈیا اپنا گھر لگتا تھا اور میں امریکہ میں مقیم اپنے دوستوں اور فیملی والوں کو انڈیا کے بہترین طرز معاشرت کے بارے میں بتاتی رہتی تھی۔ مگر مودی اور آر۔ ایس۔ایس نے میرا انڈیا مجھ سے چھین لیا ہے۔ کیوں؟۔ شاید اس لئے کہ میں نے کشمیر میں مجبور اور محصور لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں دنیا میں بسنے والے ہر شخص سے بغیر کسی تعصب کے محبت کرتی ہوں۔ میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں کشمیری لوگوں سے اس لئے محبت نہ کروں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کو مجبور لوگوں کی مدد کے لئے وقف کیا ہوا ہے اور ایمان داری کا تقاضا ہے کہ میں کشمیر میں ہو رہے مظالم پر دنیا کو بتاؤں اور مودی و آر۔ ایس۔ایس کی فاشسٹ حکومت کے خلاف آواز اٹھاؤں۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے جیریمی مورگن بھی حال ہی میں واپس مانچسٹر پہنچے ہیں۔ وہ نئی دہلی انڈیا میں ایک کالج سے یوگا میں تربیت حاصل کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میرے پاس الفاظ بھی نہیں ہیں کہ میں انڈیا میں مسلمانوں سمیت عیسائی، سکھ، دلت اقلیتوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف افسوس بھی کر سکوں۔ میں ان مظالم پر اتنا رو چکا ہوں کہ اب میرے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں۔ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے سے ہر گز خوش نہیں ہوں مگر یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں انڈیا سے صحیح سلامت نکلنے میں کامیاب ہو سکا۔ میں اب اپنے لوگوں اور اپنے ملک میں محفوظ ہوں مگر انڈیا میں محصور کئی غیر ملکی ایسے ہیں جو اب بھی کسی نہ کسی مشکل کی وجہ سے وہاں قید اور محصور ہیں۔ ہم غیر ملکیوں کے برعکس وہاں رہنے والے ہم سے اتنی زیادہ شدید مشکلات کا شکار ہیں کہ اُن کے مقابلہ میں ہمیں اپنی مشکلات کچھ بھی محسوس نہیں ہوتیں۔ ہندو توا نظریہ کے مخالف ہر شخص کی زندگی انڈیا میں اجیرن ہو چکی ہے۔ میں خوف کی ان کیفیات کو بھی بیان نہیں کر سکتا جو مجھے انڈیا میں رہتے ہوئے مودی اور آر۔ ایس۔ایس کے ہر مخالف کی آنکھوں میں نظر آتی تھی۔ میں اتنا پریشان تھا کہ کسی بھی طرح خوف، ڈر اور اذیت کے اس ماحول سے فورا نکل سکوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے لوگوں پر تشدد ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ خود مجھے بھی ہجوم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے آر۔ ایس۔ایس کے جتھوں کو اپنے مخالفین پر تشدد کرتے دیکھا ہے۔ انڈیا میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی بہت خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ اصل ہندو دھرم کے ماننے والے لوگ صلح جو ہیں اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ایمان رکھتے ہیں۔ انڈیا میں مودی اور آر۔ ایس۔ایس کی فاشزم سے پہلے بہت سکون تھا، وہاں بہت خوشیاں تھیں، اور ہندو مذہب کے ماننے والے دوسروں کو روحانیت اور سکون کی تلاش میں مدد دیتے تھے۔ اس مثالی انسان دوست معاشرہ کو مودی اور آر۔ ایس۔ایس کے غنڈوں نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مجھ پر خود یہ بیت بھی چکا ہے۔ میں کافی دنوں تک یہ سب کہنے میں خوفزدہ رہا ہوں۔ میں اب بھی انڈیا میں موجود مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان دوست لوگوں سے رابطہ قائم رکھنے اور اُن کے ساتھ روحانیت کی تلاش میں کام کرنے کے لئے خود کو آمادہ پاتا ہوں۔ میری نظر میں ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مذہب کا انتخاب کرے یا وہ کسی بھی مذہب کی پیروی نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ میری نظر میں جو لوگ بھی کسی نظریہ اور مذہب کا انتخاب کرتے ہیں وہ روحانیت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ لیکن جب اُن کا یہ نظریہ دوسروں کو غلط قرار دینے اور اُن پر جبر کرنے کی طرف مڑ جاتا ہے تو یہ نظریہ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ انڈیا میں اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔ میں اپنے انڈین دوستوں سے کہوں گا کہ وہ مودی اور آر۔ ایس۔ایس کی فاشزم کی کھل کر مخالفت کریں اور کبھی اس کی حمایت نہ کریں۔ انڈیا دنیا بھر میں سیکولرازم، خوبصورت کلچر اور ابھرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔ موودی اور آر۔ ایس۔ایس کے ہندوتوا ایجنڈہ کو مسترد کر دیجئے اور انڈیا کا سیکولر نظام باقی رکھنے کے لئے بھرپور جدوجہد کیجئے۔ اس سلسلہ میں ترقی پسند ہندوؤں کو دوسروں کی نسبت آگے بڑھنا ہو گا۔ چونکہ اس وقت میڈیا پر مودی اور آر۔ ایس۔ایس کا بہت زیادہ کنٹرول ہے، اس لئے ترقی پسند، جمہوریت دوست اور سیکولر دوستوں کو میڈیا کے اُن کم حصوں پر انحصار کرنا پڑے گا جومودی اور آر۔ ایس۔ایس کی فاشزم کے خلاف کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بطور ہندو آپ کو اس اندھی نفرت اور تعصب کے خلاف آواز اٹھانی پڑے گی۔ برطانیہ میں مقیم میں جتنے بھی میرے انڈین دوست ہیں، میں نے ان سب سے بات کی ہے اور وہ سب میری معروضات سے متفق بھی ہیں اور مودی و آر۔ ایس۔ایس کی اس فاشزم سے بہت شرمندگی بھی محسوس کر رہے ہیں۔ انڈیا میں مودی اور آر۔ ایس۔ایس کا میڈیا پر کنٹرول اس وقت آؤٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے۔ ہم سب انڈیا کا تحفظ چاہتے ہیں۔ انڈیا کے شاندار کلچر اور سیکولر معاشرہ کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں ایسے انڈیا میں واپس جانا چاہوں گا جہاں جا کر مجھے روحانی خوشی ملا کرتی تھی۔ وہ انڈیا جو لوگوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔ میں انڈیا میں موجود اپنے تمام مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت اور ترقی پسند ہندوؤں کی حفاظت کے لئے پریشان ہوں اور اُن کے لئے دعا کرتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماہرین کے مطابق آج انڈیا میں آر۔ ایس۔ایس کی حمایت اور ملک بھر میں پھیلے مسلح جتھوں کی مدد سے مودی کی آہنی حکومت کے تلے مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت ہندو اور ہر وہ ترقی پسند ہندو اپنی زندگی بچانے کی کوشش میں ہے جو بھی مودی اور آر۔ ایس۔ایس کے دہشت گردانہ، نفرت انگیز، حاکمانہ اور فاشسٹ نظریات کی مخالفت کرتا ہے۔ مودی کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جس کے بدلہ میں ہمارے دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اُسے اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ مودی کے ساتھ اپنا ہاتھ ملانے والے ہزاروں معصوم انسانوں کے خون کے دھبوں سے اپنا ہاتھ اور دامن صاٖف نہیں کر پائیں گے۔ اگر راقم نے یہاں کسی اسلامی ہستی کے کسی قول کا ذکر کیا تو یقیناٰٰ ہمارے دیسی لبرلز فورا“ مذہبیت کا الزام لگا دیں گے، اس لئے ایک عیسائی مفکر بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کا قول دہرا دیتا ہوں کہ اگر آپ نے بے انصافی کی صورتحال میں نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو جان لیں کہ آپ ظالم کے ساتھی بن چکے ہیں۔ مودی جیسے ظالم ہتھیارے کے لئے اعلیٰ ترین سول اعزاز دینے اور اُس کے استقبال کے لئے ریڈ کارپٹ بچھانے کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟۔ نامی گرامی مفکر افلاطون نے کہا تھا کہ خاموشی کا مطلب رضا مندی ہے جبکہ ہمارے بظاہر دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ ہمیں انڈین مظالم پر خاموشی کی لمبی چادر تانے سونے کی ترغیب دے رہے ہیں اور ہم اپنے محدود مخلص دوستوں ترکی، ایران، ملائیشیا اور چین کی حمایت کھوتے جا رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply