ذرائع ابلاغ کے سیاسی کردار کا جائزہ ۔۔ قادر خان یوسف زئی

یہ سوال ہمیشہ اہمیت کا حامل کا  رہا ہے کہ میڈیا کو کیا کرنے کی اجازت ہے ؟ اس لیے اس سوال کا   جواب ملنا  چاہیے کہ ’’میڈیا کو کیا کرنا چاہیے ‘‘؟ میڈیا کا ضابطہ اخلاق ، گر ہے تو اس سوال کا جواب مل سکتا ہے ۔ ذمہ دار میڈیا کی مثبت کارروائی کے امکانات اور شرائط پر تبادلہ خیال میں صنعت کو طرز عمل اور مناسب اصول مہیا کرسکتاہے۔ہمیں اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ کیا میڈیا کے ضابطے ہی دراصل معاشرے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ؟۔

یہ امر قابلِ  توجہ ہے کہ ہر میڈیا رپورٹ جو قابل ِ اطلاق قانون کے ساتھ خود بخود ہم آہنگ ہوسکتی ہے ، اچھی اور ذمہ دار صحافت کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اسے ہم سنسنی   پھیلانے والی خبروں کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں، جو کسی کے بھی مخصوص ایجنڈے یا فروعی مفادات کے تحت پھیلائی جاسکتی ہے۔ میڈیا کی آزادی کی حدود کا تعین کرنے کیلئے ایک درمیانی راستہ تلاش کرنے کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے ، جس میں ایک طرف معلومات میں عوام کے جائز مفاد اور دوسری طرف متاثرہ افراد کے تحفظ کے مفادات کو مد نظر رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔

مثال کے طور پر اس ضرورت کو ہمیشہ محسوس   کیا جاتاہے کہ میڈیا کو کسی کی  بھی ایماء  پر جھوٹے دعوے نہیں پھیلانے چاہئیں ،جن سے کسی اور کی ساکھ یا ملک و قوم کو نقصان پہنچے۔ دوسری طرف اس وقت جس پہلو کی جانب سب سے زیادہ تو جہ دینے کی  ضرورت ہے وہ سیاسی تنازعات میں رائے کے اظہار کو مکمل طور پر ایک واضح پالیسی کے تحت بیان کرناہے۔مثال کے طور پرایک سیاست دان تنقیدی ، حتیٰ کہ مبالغہ آمیز منفی ، طنزیہ یا تضیحک آمیز بیانات کے خلاف کامیابی کے ساتھ اپنے دفاع میں عموماً ناکام رہتا ہے، کیونکہ اس کا پورا سیاسی کرئیر داؤ  پر لگ جاتا ہے ، میڈیا کو شکایات اور الزامات کا ازالہ کرنے کے طریقے پر بحث کرنے کا موقع  میسر ہونا چاہیے۔ صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ حکام ، تجارتی اداروں یا مشہور شخصیات کے رویئے پر تنقید  کرنے کا بھی موقع فراہم کرنا چاہیے۔ انہیں تنقید کا جواب دینے کیلئے قبول کرنے کی روایت ڈالنی ہوگی کیونکہ بلاجواز تنقید یا منصوبے  کے تحت منفی مہم سے ان کے  عوامی امیج کو نقصان پہنچنے یا ان کے کاروبار میں خلل پڑنے کا اندیشہ یقینی   ہے۔

اصولی طورپر ، ہر کسی کو یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کیا معلومات دوسروں کے ذریعے جمع  کی اور پھیلائی جاسکتی ہیں ۔ یہ حق معلومات میں عوامی دلچسپی کی وجہ سے بھی محدود ہے ، اگر عوام کو متعلقہ شخص کے رویے کے بارے میں مطلع کرنے میں جائز دلچسپی ہے، تو متعلقہ شخص کو متعلقہ رپورٹنگ کو قبول کرناچاہیے۔اگر انفرادی معاملات میں، اس بات پر اختلاف پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی خاص اشاعت ، خبر یا رپورٹ جائز ہے تو مجاز کو اس میں شامل مفادات کا جائزہ لینا چاہیے، چونکہ بنیادی حقوق کی حد بندی کا فیصلہ کیا جانا اہمیت رکھتا ہے اس لیے قانون کی حکمرانی اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کرنا میڈیا سمیت سب کی یکساں ذمے داری بن جاتا ہے۔سچائی کا احترام اور انسانی وقار کا احترام ، مکمل اور منصفانہ تحقیق، ادارتی متن اور اشتہارات کی بھی واضح علیحدگی نیزراز داری اور رازداری کا احترام مقدم رکھے جانا ضروری ہے۔ترقی کے کئی مراحل کے دوران ، آج کا انٹر نیٹ روایتی کمپیویٹر سسٹم تک محدود نہیں رہا بلکہ بہت زیادہ ترقی کرچکا ہے۔

معلومات کی درست یا غلط فراہمی میں اب سب سے اہم کردار موبائل فون کا بن گیا ہے جو ہر کسی کے پاس ہے۔ بالخصوص جن گھرانوں میں بارہ سے 19 سال کی عمر کے نوجوان رہتے ہیں، وہاں میڈیا کوریج جیسے کہ موبائل فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی 100 فیصد ہے۔ نوجوانوں کے ذریعے استعمال ہونے والے سب سے عام افعال سوشل میڈیا کی مختلف اپیلی کیشن کے ذریعے بات چیت کرنا، موبائل فون پر کال کرنا اور موسیقی سننا یا مہیا کرنا ہے۔

نوجوانوں کیلئے ، موبائل فون روزمرہ کی زندگی میں روزمرہ کا ساتھی بن گیا ہے۔ پیش کردہ خدمات زیادہ سے زیادہ متنوع ہوتی جارہی ہیں، موبائل سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے مواصلت ہوتی ہے، جیسا کہ مقامی خدمات کے بارے میں معلومات، موسیقی اور متحرک تصاویر کے استعمال کے بارے میں تفریح، یا مثال کے طور پر، چلتے پھرتے ٹکٹوں کی ادائیگی۔

سوشل میڈیاکا بازار بہت متحرک ہے۔ ان حالات میں رازداری اور اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ کرچی کرچی   ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کسی اخلاقی ضابطے کے تحت پا بند بھی کردیئے جاتے ہیں تو سوشل میڈیا کے آزاد ذرائع کے ذریعے پھیلائی  جانے والی ڈس انفارمیشن کو روکنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاہم، یہ دیکھا  گیا ہے کہ خاص طور پر بڑی رکن تنظیمیں سیاسی مقاصد کیلئے آن لائن استعمال کو نا صرف فروغ دے سکتی ہیں بلکہ روک بھی سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر، سوشل نیٹ ورکس میں نئے حامیوں کو حاصل کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ پارٹی کے اراکین بعض اوقات دوست،فالورزیا فین کو دیکھتے ہیں، جو پارٹی کے اندر اثر و رسوخ کیلئے ناپسندیدہ مقابلے کے طور پر صرف پارٹی مفادات سے منسلک ہوتے ہیں۔ پارٹی کی اندرونی بحث اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے ’’پارٹی بک‘‘ کے خصوصی حقوق، اس دوران، سوشل نیٹ ورکس میں بیانات بھی عہدیداروں اور منتخب عہدیداروں کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں اور تنازعات کی نئی لکیریں کھولتے ہیں۔ لہٰذا اس ضمن میں سمجھنے میں اب کوئی دشواری نہیں کہ مثبت معاشرے کیلئے سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا کردار ہی سب سے اہم ہے جو منفی رجحانات کو روک سکتے ہیں اور میڈیا سمیت سوشل میڈیا میں پھیلنے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں کولگام دی جاسکتی ہے۔ سیاست میں ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتنا دراصل نوجوان نسل ، ملک وقوم کسی بڑی افتاد سے بچانا ہے، اظہار آزای رائے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مدر پدر آزادی ہو اور قانون کو موم کی ناک کی طرح کسی بھی جانب موڑدیا جائے۔ سیاسی جماعتوں، تنظیموں میں خصوصی طور پر ایسے میڈیا سیل بنائے گئے ہیں جنہیں خصوصی ہدایات دی جا تی ہیں، توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں اکثریت کی تعداد بیرو ن ملک ہوتی ہے تاکہ ملکی قانون کی گرفت سے بچا جاسکے۔ اس ضمن میں تما م سٹیک ہولڈرز کو ملک و قوم کے مفاد میں یکساں اور اخلاقی حدود میں رکھنا ہوگا کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply