خود بخود پیدائش؟ (49)۔۔وہاراامباکر

بائیولوجی کے آنے سے بہت پہلے، زندگی کا مشاہدہ کرنے والے بہت سے تھے۔ کسان، مچھیرے، ڈاکٹر اور فلسفی ۔۔ جنہوں نے سمندر اور میدانوں میں زندگی کے بارے میں سیکھا۔ لیکن بائیولوجی محض پودوں اور پرندوں کی فہرست بنا دینے اور ان کی خاصیتیں لکھ دینے کا نام نہیں۔ کیونکہ سائنس بس خاموشی سے بیٹھ کر دنیا کو نہیں تکتی رہتی۔ کیا ہے؟ کیسا ہے؟ پر اکتفا نہیں کرتی۔ یہ ایسا ہی کیوں ہے؟ یہ اس کا اصل سوال ہے۔ سائنس دنیا کی وضاحت کے لئے ہے۔ اور یہ کام، صرف فہرست بنا لینے سے بڑا مشکل کام ہے۔ اور بائیولوجی ایسی وضاحتوں اور خیالات سے بھری ہوئی تھی جو معقول لگتے تھے لیکن غلط تھے۔

قدیم مصر کی مثال لیتے ہیں۔ ہر بہار میں دریائے نیل میں سیلاب آتا تھا اور زرخیز کیچڑ چھوڑ جاتا تھا۔ یہ وہ زمین تھی جہاں پر کی گئی کسان کی محنت قوم کا پیٹ بھرتی تھی۔ اور یہ زرخیز مٹی نہ صرف فصل دیتی تھی بلکہ ایک اور چیز بھی، جو خشک زمین پر نہیں ہوتی تھی۔ مینڈک۔۔۔

یہ شور مچاتی مخلوق اچانک نمودار ہوتی تھی اور اتنی زیادہ تعداد میں کہ لگتا تھا کہ کیچڑ سے ابھری ہے۔ اور مصری بالکل یہی یقین رکھتے تھے۔

اس بارے میں مصری تھیوری کسی غیرمعقول منطق پر نہیں بنی تھی۔ باریک بین مشاہدہ کرنے والے تاریخ میں اسی نتیجے پر پہنچتے رہے ہیں۔ قصائی مشاہدہ کرتے تھے کہ گوشت پر کیڑے نمودار ہو جاتے ہیں۔ کسانوں کا مشاہدہ تھا کہ جہاں گندم رکھی جاتی ہے، وہاں چوہے نمودار ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سترہویں صدی میں ایک کیمسٹ جان وان ہیلمونٹ نے ایک ترکیب تجویز کی تھی کہ چوہوں کو روز مرہ کے مادوں سے کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ گندم ایک مرتبان میں رکھیں، گندا زیرجامہ اس میں ڈالیں اور اکیس روز انتظار کریں۔ اور یہ ترکیب اکثر کام کر جاتی تھی۔

وان ہیلمونٹ کی ترکیب کے پیچھے جو تھیوری تھی وہ spontaneous generation کی تھی۔ کہ سادہ جاندار خود ہی بے جان اشیا سے جنم لے سکتے ہیں۔ قدیم مصر سے، اور شاید اس سے بھی پہلے سے زندگی کے بارے میں تصور یہ تھا کہ کوئی زندگی کی فورس ہے جو بے جان کو جاندار بنا دیتی ہے۔ (بچوں کی کہانیوں میں کسی جادوگر کا کسی کو جادو سے پتھر کا بنا دینا اور پھر دوسرے جادو سے واپس لے آنا بھی اسی سوچ کی وجہ سے ہے، جو کامن سینس محسوس ہوتی ہے)۔ تصور یہ تھا کہ بے جان مادے میں زندگی کی فورس داخل ہو کر اسے جاندار کر دیتی ہے۔ اور ان خیالات کو مربوط تھیوری کی صورت میں لانے والے سائنسدان ارسطو تھے۔

جس طرح سترہویں صدی کے مشاہدات اور تجربات نے ارسطو کی فزکس کا خاتمہ کرنا شروع کیا، ویسے ہی اس صدی میں ان کی بائیولوجی بھی حملے کی زد میں آ گئی۔ اور اس میں ایک یادگار چیلنج اٹلی کے فزیشن فرانسسکو ریڈی کا تھا۔ یہ بائیولوجی کا بڑا ہی خوبصورت تجربہ تھا۔

ریڈی کا طریقہ سادہ تھا۔ انہوں نے کھلے منہ کے مرتبان لئے۔ اس میں سانپ، مچھلی اور بچھڑے کا گوشت رکھا۔ اس کے بعد کچھ مرتبانوں کو کھلا رہنے دیا جبکہ کچھ کو جالی دار میٹیریل سے یا کاغذ سے ڈھک دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ پیدائش واقعی ایسے ہی ہوتی ہو تو تمام مرتبانوں میں سنڈیاں پیدا ہو جائیں گی۔ لیکن اگر یہ سنڈیاں ہونے کی وجہ مکھیوں کے نہ نظر آنے والے انڈے ہوئے تو یہ کھلے مرتبان میں ہوں گے لیکن کاغذ سے ڈھکے ہوئے مرتبان میں نہیں۔ اور جالی سے ڈھکے ہوئے مرتبانوں میں بھی ہوں گے، اگرچہ مکھیاں گوشت تک نہیں پہنچ سکیں۔

اور بالکل ایسا ہی ہوا۔

ریڈی کے خیالات پر ہونے والا ردِعمل ملا جلا تھا۔ کچھ کے لئے اس نے spontaneous generation کا خیال غلط ثابت کر دیا تھا۔ کچھ نے اس کو نظرانداز کر دیا، کچھ نے سیٹ اپ میں غلطیاں نکالیں۔ اور ریڈی کے نتائج پر شک کرنے کی سائنسی وجوہات تھیں۔ کیا ان سے وہی ثابت ہوتا تھا جو ریڈی دعوٰی کر رہے تھے یا پھریہ صرف مکھیوں کی حد تک درست تھا؟

ریڈی نے کشادہ ذہنی کا مظاہرہ کیا۔ تجربات کرتے رہے۔ کچھ میں انہیں شک بھی رہا کہ شاید وہ غلط ہیں۔ اس مسئلے پر مزید دو سو برس تک بحث چلتی رہی جب تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں لوئی پاسچر نے بہت احتیاط سے کئے گئے تجربات سے ثابت کر دیا کہ مائیکروآرگنزم میں بھی کبھی اچانک پیدائش نہیں ہوتی۔ اگرچہ ریڈی کا کام حتمی نہیں تھا لیکن بہت خوبصورت تھا۔ ایسا ٹیسٹ کوئی بھی کر سکتا تھا لیکن کسی نے پہلے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔

لوگ کئی بار خیال کرتے ہیں کہ عظیم سائنسدانوں کے پاس شاید غیرمعمولی ذہانت ہوتی ہے۔ عام معاشرے میں ہم ان لوگوں کو کئی بار قبول نہیں کرتے جو باقی سب جیسے نہیں ہوتے لیکن جو دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں، وہی تو وہ دیکھ لیتے ہیں جو باقی نہیں دیکھ پاتے۔ ریڈی ایسے ہی پیچیدہ شخص تھے۔ ایک سائنسدان لیکن توہم پرست جو خود کو تیل لگا کر رکھتے تھے کہ بیماریوں سے بچ سکیں۔ ایک نیچرلسٹ اور ساتھ ہی ایک شاعر جس نے ٹوسکان کی بیلوں کی تعریف میں کلاسک نظم لکھی ہے۔ اور وہی ایسا تجربہ کر سکے جو روایات سے ہٹ کر تھا۔ اور ایسے وقت میں جب سائنسی ریزننگ عام نہیں تھی۔ اور ایسے کر کے نہ صرف انہوں نے غلط تھیوری پر شک کا سایہ ڈال دیا، بلکہ ارسطو کی بائیولوجی کو زخم پہنچایا۔ اور بائیولوجی کے جواب ڈھونڈنے کے نئے طریقے کی طرف راہنمائی کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ کام اس سے پہلے ہزاروں برس میں کیوں نہیں ہو سکا تھا؟ اس کی ایک اور وجہ تھی۔ اور وہ وجہ ٹیکنالوجی تھی۔ مائیکروسکوپ کی ٹیکنالوجی نے یہ تصور ختم کر دیا تھا کہ سادہ جاندار سادہ ہیں۔ یہ مکمل جاندار تھے جن کے جنسی اعضا بھی تھے۔ “سادہ جاندار اس قدر سادہ ہے کہ ان کی پیدائش کا طریقہ سوائے اچانک پیدائش کے کچھ اور نہیں ہو سکتا”۔ ایک بار یہ تصور ختم ہوا تو پھر نئے خیالات کا زیرِ غور آنا ممکن ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply