دوجی واری ماں نہیں مِلدی۔۔شاہین کمال

“امی”! یہ تین حرفی لفظ اپنی وسعت میں پوری کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ ماں کا وجود ایک شجر سائہ دار کی مانند۔ امی کی جس خوبی نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی بہادری اور صاف گوئی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد امی نے جس حوصلے اور ہمت سے ان حالات کا سامنا کیا اور جس طرح پاپا کو سنبھالا اور ہم تینوں کی حفاظت کی وہ بےمثال ہے۔

مشرقی پاکستان تک امی پہنے اوڑھنے کی بہت شوقین تھیں مگر سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کراچی آ کر انہوں نے اپنے سارے شوق تج دئیے۔ ان کی ترجیحات میں صرف ہم تینوں بہنیں رہ گئیں تھیں، ان کی اپنی ذات اور شوق کہیں بہت ہی پیچھے رہ گئے تھے۔ امی کی ایک اور خصوصیت مردم شناسی تھی۔ لوگوں کے معاملے میں ان کی پرکھ سولہ آنے درست ہوتی۔

ان کا غریب نواز مزاج اور انکسار پسند طبیعت ہر آنے والے کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتا۔ ہمارے گھر کا دسترخوان بلا تفریق امیر و غریب سب کے لیے یکساں تھا۔ امی بہت غریب پرور اور مہمان نواز تھیں۔ امی کی پہلی یاد! ہاں امی فلموں کی بہت شوقین تھیں۔ جب ہم لوگ جناح ایونیو میں رہتے تھے تو گلستان سنیما ہال، گھر سےکوئی پانچ منٹ کی دوری پر ہو گا۔

امی میٹنی شو دیکھا کرتی تھیں۔ اب ظاہر ہے فلم دیکھنے کو پارٹنر بھی چاہیے کہ اکیلا بندہ نہ روتا بھلا نہ ہنستا بھلا۔ سو ہم امی کے فلم بڈی تھے۔ ہم اتنے چھوٹے تھے کہ میرا دھیان فلم پر خاک نہ ہوتا سارا وقت انٹرول کی لائٹس اون ہونے اور اس کے ساتھ ہی چپس والے کی آواز اور بوتل والے کی جھنکار کا انتظار رہتا اور کھانے پینے کے بعد بقیہ آدھی فلم سو کر گزر جاتی۔

امی نے مغربی پاکستان آکر فلمیں دیکھنی ترک دیں تھیں۔ ندیم اور شابانہ کی ایک فلم بنی تھی جس کی خاصی عکس بندی ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ ڈھاکہ کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ہم امی کو ذبردستی وہ فلم دکھانے لے گے تھے۔ فلم غالباً عرشی سنیما ہال میں لگی تھی۔ اس فلم نے ہم دونوں کو بیک وقت خوش اور اداس کر دیا تھا۔ فلم کا نام تو یاد نہیں البتہ ایک گانا یاد ہے۔

ہم کو کس کے غم نے مارا، یہ کہانی پھر سہی

کون ہے اپنا کون پرایا، یہ کہانی پھر سہی۔

امی پڑھنے کی شوقین تھیں، رسائل حور اور زیب النساء شوق سے پڑھا کرتی تھیں اور ہم کو بچوں کی دنیا اور تعلیم و تربیت سے کہانی پڑھ کر سنایا کرتیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ جب ان کو چشمہ لگا تو امی کا پڑھنا تقریباً چھوٹ ہی گیا کہ ان کو چشمے سے الجھن ہوتی تھی۔ پھر ان کو افسانے سنانے کا فریضہ میرا تھا۔

شعر و شاعری کا اچھا ذوق تھا، ٹی۔ وی اور ریڈیو پر مشاعرہ شوق سے سنتی۔ ان دنوں غالباً نو بجے رات ہر جمعرات کو ریڈیو کراچی سے ڈرامہ نشر ہوتا تھا۔ ایس۔ ایم سلیم امی کے پسندیدہ صداکار تھے۔ اس کے علاوہ ٹی۔ وی پر اسرا احمد کو بہت شوق سے سنتی تھیں اور اس زمانے میں مولانا طاہر القادری جوان اور شعلہ بیان ہوا کرتے تھے، ان کی بھی مداح تھیں۔ کراچی پہنچنے کے بعد شروع کے زمانوں میں ایک ریڈیو تھا ہمارے گھر۔

وہ بھی اللہ صلاالدین چچا کو غریق رحمت کرے انہوں نے تحفہ دیا تھا۔ اب اس ایک ریڈیو کی مصبیت یہ تھی کہ امی خبروں کی شائق اور ہم گانوں کے رسیا۔ آخر طے یہ پایا کہ دن کے دو بجے کے بعد ریڈیو میرا اس پر ہم تین بجے والی آل انڈیا ریڈیو کی نشریات سنتے اور چار بجے کے بعد ریڈیو پھر امی کا اور پھر رات دس بجے سے بارہ بجے تک ریڈیو پر میرا قبضہ ہوتا۔

اللہ پاپا کے درجے بلند کرے انہوں نے جلدی ہی ریڈیو کی اس رسہ کشی سے میری جان چھڑا دی اور پشاور سے میرے لیے ریڈیو کوم ٹیپ رکارڈر لا دیا۔ پھر تو میرے عیش ہی ہو گیے تھے۔ امی کھانے بہترین بناتی تھیں۔ پکاتی بھی شوق سے تھیں اور کھلانے کی تو از حد شوقین تھیں۔ مہمان جب تک کھا کھا کر بےدم نہ ہو جائے امی کا اصرار جاری رہتا۔

امی کے ہاتھوں کے کوفتے، شامی کباب، شاہی ٹکڑے اور نئے آلو کی کالی مرچ والی بھاجی ان کے بعد کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ زرین کے ہاتھوں میں بھی امی کے ہاتھوں جیسا ہی ذائقہ تھا اور زرین تھی بھی امی کی چہیتی بیٹی۔ امی کی ایک بڑے مزے کی روایت تھی۔ سارے سال وہ نئے کپڑے نہیں پہنتی۔ جب بھی اور جو بھی خریدتی وہ جمع ہوتا رہتا اور یہ سارا خزانہ نکلتا تھا رمضان میں۔

رمضان میں ان کی سج دھج ہی اور ہوتی۔ رنگ برنگی نئی نئی ساڑھیاں۔ ساڑی میں بڑے اہتمام سے کلف لگتا اور ابرق سے آراستہ ہوتی۔ بلاوز کبھی ساڑھی سے میچ کر کے نہیں بناتیں۔ ایک ساتھ آٹھ دس بلاوز کے کپڑے اپنی پسند کے رنگوں کے خرید کے سلوا لیتی اور مزے کی بات یہ کہ جس ساڑھی کے ساتھ وہ جوں سا بھی بلاوز پہنتی وہ اس قدر جچتا گویا اسی ساڑھی کے لیے بنا ہو۔

امی پر کون سا رنگ سب سے زیادہ کھلتا تھا کہنا مشکل کیوں کہ ہر رنگ گویا بنا ہی امی کے لئے تھا۔ میرے بہت بچپن میں امی کے پاس ایک پیور سلک کی تیز گلابی بالکل گلاب کے پھول کی رنگ کی ساڑھی تھی اس پر سنہرے چاند بنے تھے، امی جب وہ پہنتی تھیں تو انہیں نظر بھر کے دیکھنا ممکن نہیں رہتا تھا۔ بہت ہی خوبصورت لگتی۔

امی کا واحد میک اپ سرمہ تھا۔ روز صبح منہ ہاتھ دھو کر سرمہ لگتا اگر سردی ہوتی تو تبت کی ویسلن بھی لازمی تھی۔ ہلکے گھنگھریالے بالوں کا سادہ سا جوڑا اور امی تیار۔ امی ایک جھمکی میں سج جاتی تھیں، چوڑیاں ان کی پسندیدہ تھی، خاص کر حیدرآبادی نگینے والا سیٹ انہیں بہت پسند تھا۔ وہ دائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی میں زرقون اور تیسری انگلی میں یاقوت کی انگوٹھی اور بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں کیٹ آئی کی انگوٹھی پہنا کرتی تھیں۔

ساری عمر سوئٹر نہیں پہنا۔ ان کو سوئٹر سے وحشت ہوتی تھی البتہ شال لے لیتی تھیں۔ ڈھاکہ میں امی محرم بہت اہتمام سے مناتی تھیں، ان دس دنوں میں بہت اداس رہتی، محرم کے ابتدائی دس دنوں میں گھر میں کھانے بھی بہت سادے پکتے اور محرم کی دسویں کو تو چولھا اوندھا ہی رہتا۔ ماسی بمشکل ہم بچوں کے لیے کچھ بنا دیتی۔

کوئی کتاب تھی ان کے پاس جس میں کربلا کے واقعات درج تھے وہ پڑھتی جاتی اور روتی جاتی۔ ہم انکے واحد سامع ہوتے اور ان کو روتا دیکھ کر ہم بھی بغیر کچھ سمجھے بوجھے روتے رہتے۔ اکثر امی اور ہم محرم کی نو دس کو محمد پور کے امام بارگاہ بھی جاتے۔

کراچی آنے کے بعد امی ریڈیو اور ٹی۔ وی پر شام غریباں بہت شوق سے سنتی تھیں، خاص کر کرار حیدر صاحب کو، پھر علامہ طالب جوہری کے بیان میں امی کی دلچسپی برقرار نہیں رہی اور رفتہ رفتہ شام غریباں سننا چھوڑ دیا لیکن ناصر جہاں کا ” سلام آخر ” امی نے اپنے آخری محرم تک سنا۔ امی پاپا کی آپس میں بہت محبت تھی، پاپا ہر شام دفتر سے وآپسی پر امی کے لئے بیلے کے گجرے لاتے۔ شام کی چائے پر ان دونوں کی بڑی اچھی گپ شپ رہتی۔

امی کی پاپا سے محبت کی وسعت و گہرائی کا احساس جب تک پاپا حیات تھے ہمیں کبھی نہیں ہوا۔ اس کا اندازہ ہمیں امی کی وفات کے بعد ہوا۔ امی کے گزرنے بعد ایک دن ہم ان کا بکس دیکھ رہے تھے تو ہم حیرت سے تقریباً سکتے میں چلے گئے تھےکہ امی نے پاپا کا جوتے کا برش اور وہ کپڑا جس سے جوتے پر پالش لگائی جاتی تھی وہ تک حفاظت سے سنبھال کر رکھا تھا۔ امی اپنے سرھانے ایک چھوٹی سی تکیہ رکھا کرتی تھیں، اس تکیہ میں پتہ ہے کیا تھا؟

اس میں پاپا کا وہ آخری لباس تھا جو نہلانے والوں نے پاپا کے جسم سے کاٹ کر اتارا تھا۔ وہ سوتے ہوئے اس پر ہاتھ رکھ کر سوتی تھیں۔

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بےفیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے۔

نماز سے انہیں والہانہ عشق تھا۔ چاروں وقت کی نماز ہمیشہ اول وقت میں البتہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھتی۔ عصر کی نماز سے پہلے شام کی چائے پینا ان کا معمول تھا۔ چائے ہمیشہ کپ میں پیتی، مگ میں چائے پینا انہیں سخت ناپسند تھا۔

میرے شعور میں ان کی صرف ایک نماز قضا ہوئی تھی، وہ بھی پاپا کے انتقال کے دن، اس دن ان کی ظہر کی نماز بھی فوت ہوئی تھی۔ امی نے اپنی حیات کے آخری دن تک اپنی پانچوں نماز پڑھی۔ اس رات بہت گرمی تھی اور امی نے چھت پر عشاء کی نماز پڑھی تھی۔ پھر اس رات کی صبح نہیں ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالیٰ امی کو اور سارے مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے آمین ثمہ آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply