• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (4)۔۔محمد جمیل آصف

سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (4)۔۔محمد جمیل آصف

حقوق نسواں میں حضرت خدیجہ کا روشن پہلو (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا بطور ایک کاروباری شخصیت اپنی معاملہ فہمی، دور اندیشی، مردم شناسی اور اپنے کاروبار میں بہترین ٹیم ورک کی صلاحیتوں کو اپنے پختہ کردار سے اہل مکہ کو گرویدہ تو کر چکی تھیں لیکن جو انکا کردار بطور ایک  شریک حیات سامنے آیا اس پرلکھتے ہوئے الفاظ کم پڑجاتے ہیں ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی سیرت کا یہ ایسا پہلو ہے جس میں خواتین اور مردوں کے لیے ایک مینارہ نور نظر آتا ہے۔ جس کی روشنی میں ہر شادی شدہ جوڑا اپنی ازدواجی زندگی کو جنت بنا سکتا ہے ۔
سیماب اکبر آبادی نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
“حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حسین بھی تھیں، دولت مند بھی تھیں، شریف الخیال بھی تھیں اور سب سے زیادہ جو فضیلت ان میں تھی وہ یہ ہے کہ اپنے شوہر کی بے حد  اطاعت گزار تھیں”
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے خواتین کے حقوق کی زندہ اور روشن مثالیں قائم کیں۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا خواتین کے حقوق کے لئے بطور معاشی تحفظ ایک کامیاب  بزنس ویمن نظر آتی ہیں ۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا  شریک حیات کے چناؤ میں خاوند کے معیار اور فراست سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتی نظرِ آتی ہیں ۔ اور خواتین کو زندگی کے ساتھی کے چناؤ پر اس کا پیمانہ بھی بتاتی ہیں
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا بطور بیوی اپنے جائز خانگی حق اور بہتر ازدواجی زندگی کا اصول بھی وضع کر دیتی ہیں ۔ جس کے اثرات معاشرتی، سماجی لحاظ سے دور رس ثابت ہوتے ہیں ۔
جن سے اکثر خواتین کو محروم رکھا جاتا ہے اور وہ زندگی کا سفر گھٹن ذدہ ماحول، نفسیاتی تناؤ جس کے اثرات دونوں شادی شدہ جوڑے اور انکی نسل کی پوری زندگی پر نمایاں رہتے ہیں ۔
جس کا ذکر مولانا طاہر القادری نے اپنی کتاب سیرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں ۔
“حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے چچا کے گھر لے آئے، جہاں آپ اب تک مقیم تھے ۔ آپ نے اپنی مبارک فرخندہ شادی کی پہلی رات اسی گھر میں بسر کی۔
لیکن اپنے غمگسار شفیق چچا کی مالی حالت کے پیش نظر مستقلاً رہنا پسند نہی کیا اور اگلے ہی دن حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مشورہ سے الگ گھر میں سکونت اختیار کر لی ۔ ”
یہاں علامہ طاہر القادری سیرت النبی سے ازدواجی زندگی کا ایک نقطہ اجاگر کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں ۔
” ہر چند آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے چچا کے ساتھ تعلقات حد درجہ شفقت و محبت کے آئینہ دار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کے ازدواجی حقوق کو مقدم رکھا اور شادی کے بعد ایک علیحدہ زندگی کا آغاز کیا ۔”
آگے وہ لکھتے ہیں
“حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اس پہلو سے ان  والدین کے لیے سبق ہے، جو اپنے بیٹے کی شادی کے بعد خوامخواہ یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی ان کے ہاں ہی گزار دے گا خواہ انکی بہو کی مرضی اس میں شامل ہو یا نہ  ہو ۔اس سلسلے میں ان کی بے جا ضد کے اثرات چنداں خوشگوار ثابت نہیں ہوتے اور پرسکون ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھولنے کا مؤجب بنتے ہیں ۔ اگر عورت شادی کے بعد علیحدہ زندگی گزارنے کی متمنی ہو تو والدین کو اپنی اولاد کی خوشیوں کی خاطر اسے انا اور  جھوٹی عزت وقار کا مسئلہ نہیں بنا لینا چاہیے جو بسا اوقات بگاڑ کے نتیجے میں قطع رحمی پر منتج ہو جاتے ہیں ۔ان عوامل کے سدباب کے لیے نوجوانوں کو مخلوط گھروں میں رہنے پر مجبور کرنے کے بجائے علیحدہ گھروں میں آباد کردینا عین دانش مندی کا تقاضا ہے تاکہ ازدواجی زندگی میں پیار و محبت اور باہمی اعتماد کی فضا قائم رہے ۔”
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply