مٹی کا برتن۔۔۔وہارا امباکر

ہزاروں سال پہلے کسی انسان نے پہلی بار برتن بنایا ہو گا۔ گیلی مٹی کبھی آگ میں گری ہو گی اور باہر آ کر سوکھ کر سخت ہو گئی ہو گی۔ اس سے سخت اور کھوکھلی شکل بنائی ہو گی جس میں کوئی چیز رکھی جا سکی۔ اس سے پہلے آئس ایج کے باورچی پتوں اور چمڑے کی کھال سے بنی ٹوکریوں پر کھانا پکاتے رہے تھے۔ پانی نہیں ٹھہرتا ہو گا یا گوشت جل جاتا ہو گا۔ چکنی مٹی کے سخت ہو جانے سے بننی والی اس شکل سے کھانا پکانے کی ایک نئی دنیا کھل گئی۔ سرامک کے ڈیزائن بننا شروع ہو گئے۔

اس ایجاد سے نئی ڈویلپمنٹ شروع ہوئی۔ نئی چیزیں پکانا اور نئے طریقے سے رہنا۔ مٹی کا سب سے پرانی ملنے والا برتن جاپان کا ہے اور ساڑھے سولہ ہزار سال قبل کا ہے۔ یہ پتھر کے پرانے دور کا وقت ہے، جب زراعت شروع نہیں ہوئی تھی۔

دنیا کی کسی بھی پرانی تہذیب کے نشانوں میں اس کے برتن نمایاں ہوتے ہیں اور ہر میوزیم میں ملتے ہیں۔ وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ کمہار کے پہئے پر بنے برتن ہزاروں سال باقی رہتے ہیں۔

ساتھ کی تصویر جاپان میں سات ہزار سال پہلے کے جومون برتن کی ہے جو بہت ہی اہم ہے۔ اس کے اندر مٹی کی لپائی ہے اور باہر ریشوں کا جال سا ہے جس سے اس کو اٹھایا جا سکے۔ یہ چکنی مٹی سے بنی ٹوکری ہے۔ جومون شمالی جاپان میں بسنے والی ایک قدیم تہذیب تھی۔

یہ برتن جن لوگوں نے بنایا، وہ سمندر کے قریب رہتے تھے۔ مچھلیاں پکڑتے تھے اور جنگل کے درختوں سے خوراک حاصل کرتے تھے۔ مچھلیاں وافر تھیں۔ خوراک ان کے پاس ایک طرح سے خود ہی پہنچ جاتی تھی۔ جنگل میں خوراک تک رسائی آسان تھی۔ اس لئے زراعت یا جانور سدھانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جاپان میں زراعت کی ٹیکنالوجی بہت دیر بعد آئی۔ چاول کی فصل کا پہلی بار آغاز صرف اڑھائی ہزار سال پہلے ہوا۔ لیکن برتنوں کی ٹیکنالوجی میں جاپان دنیا سے بہت آگے تھا۔

خوراک کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا، چوہوں اور دوسرے جانوروں سے بچانے کے لئے یہ برتن کام ٓاتے تھے۔ ان کی ایک اور سائیڈ ان پر نقش و نگاری ہے۔ ان چیزوں کی جن کو یہ لوگ عام دیکھا کرتے تھے۔ درخت، پودے، خول، ہڈیاں۔ پھر کئی طرح کے پیٹرن جو پودوں کے ریشوں سے بنے ہیں۔ ان کے فیشن بدلتے رہے۔ ان کے دور کو نقش و نگار کے پیٹرن کے فیشن سے پہچانا جا سکتا ہے جو پچیس سال کے عرصے میں نئی شکل اختیار کر لیتے تھے۔

ان میں سبزیاں بنائی جاتی ہوں گی اور مچھلیاں اور سمندری خوراک۔ گوشت ابالا جاتا ہو گا۔ سوپ اور دم پخت۔ ان کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور کاربن ڈیٹنگ سے ان میں پکی چیزوں کو معلوم کر لیا گیا ہے۔ چودہ ہزار سال پہلے کے برتنوں میں مچھلی کی یخنی سے لے کر بلوط کے پھل تک۔ برتن کی ٹیکنالوجی نے خوراک کے طریقے بدل دئے تھے۔ لیکن جومون کے یہ برتن یہاں سے باقی دنیا میں نہیں پھیلے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ یا شمالی افریقہ میں یہ ٹیکنالوجی ہزاروں برس بعد ایجاد ہوئی۔ اور ہر جگہ یہ پیٹرن ہے کہ برتنوں کی ایجاد کے بعد اس جگہ پر خوراک کا تنوع زیادہ ہو گیا اور اس میں تبدیلی آ گئی۔

عام طور پر دنیا بھر میں تہذیبیں اپنے ماضی کا تعلق کسی عسکری فتح یا عظیم حکمران سے جوڑتی ہیں۔ جاپان اپنا تہذیبی نشان جومون کے اس برتن سے۔ ریاستی سطح پر جاپان اپنی ثقافت اور تاریخ کے نشان کی علامت کے طور پر بڑی عالمی نمائشوں میں ان کو پروموٹ کرتا ہے۔ جو کہ سترہ ہزار سال سے یہاں رہنے والوں کی کاریگری اور کلچر کی علامت ہے۔

اس تصویر والے برتن کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس کو اندر سے دیکھیں تو اس میں ایک سونے کا ورق لگا ہے۔ کسی امیر شخص نے آج سے تقریبا دو سو سال پہلے اس کو کلکٹیبل کے طور خریدا اور یہ اضافہ اس میں کیا۔ اس کو نئی زندگی “میزوشاسی” کے طور پر ملی جو جاپان میں پانی کا مرتبان ہے جس کو ایک اور جاپانی رسم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ رسم “چائے کی تقریب” ہے۔

یخنی سے لے کر آلو گوبھی تک۔ ولیمے کی دعوت سے لے کر کسی عالمی تقریب تک، ہم کھانوں کے گرد اکٹھے ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے برتن وہ گوند ہیں جو ان میں میزبانوں اور مہمانوں کو بھی جوڑتے رہے ہیں اور پورے معاشروں کو بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ برتن بنانے والے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ سات ہزار سال بعد اس کا بنایا گیا برتن کچھ اور شکل اختیار کر لے گا، کسی اور طرح کام آنے لگے گا لیکن جومون کی مچھلی سے لے کر چائے کی تقریب تک۔ برطانیہ کے میوزیم سے لے کر انٹرنیٹ کے آرٹیکل تک اس کے ہزاروں سالہ سفر پر اسے شاید اعتراض نہ ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply