چھاتی کا سرطان،خاموش قاتل/ڈاکٹر عزیر سرویا

اٹھائیس سالہ ایم فِل سوشیالوجی کی طالبہ نازیہ نے نہاتے ہوئے محسوس کیا کہ چھاتی میں ایک اُبھار سا بنا ہوا ہے۔ ہاتھ لگانے پر کچھ گٹھلی جیسا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کوئی خاص درد تکلیف وغیرہ نہ تھی۔ اس نے سوچا والدہ سے ڈسکس کر لے گی۔ چند ہفتے یونہی بےدھیانی میں یاد نہ رہا۔ ایک دن دوبارہ نہاتے ہوئے اس طرف دھیان گیا تو ماں سے اس بارے مشورہ کر ہی لیا۔ ماں نے کہا کوئی درد یا تکلیف ہے تو دکھا لیتے ہیں ڈاکٹر کو، ساتھ مشورہ دیا کہ زیادہ مسئلہ نہیں لگ رہا تو پیاز باندھ لو اور ساتھ وظیفہ پڑھ لو یہ آپ ہی “گُھل” جائے گی۔ چند ہفتے وظیفہ پڑھا، اور پیاز بھی باندھا اور ساتھ ساتھ زیتون کے تیل سے ہلکے ہاتھ مالش بھی کی۔ گویا نازیہ نے نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو یقین دلا دیا کہ ٹوٹکوں سے ابھار کا سائز کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ ابھار اپنی جگہ موجود رہا۔ خاموش۔ کسی تکلیف یا درد کے بغیر۔ جیسے طوفان سے پہلے سمندر ہوتا ہے۔
چھے مہینے ایسے ہی گزر گئے۔ نازیہ کو بھول گیا کہ ایک چھاتی میں ابھار ہے۔ اب کے نازیہ کو عجیب سا درد دائیں بازو میں اٹھا، جیسے اس کی ہڈی میں کوئی سوراخ سا کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ درد کی دوا لی چند دن، اور درد کو آرام آ گیا۔ لیکن دوا چھوڑتے ہی درد نے پھر زور پکڑا۔ آخرکار قریبی ڈاکٹر سے مشورہ ہوا۔ اس نے کہا جوان لڑکی ہے اسے کیا ہونا ہے۔ کیلشیئم اور وٹامن ڈی تجویز کیا، ساتھ ایک تگڑا سا پین کِلر انجیکشن ٹھوکا اور گولیاں دے کر چلتا کیا۔ پھر سے عارضی آرام آ گیا۔ لیکن دوا کا کورس ختم ہوتے ہی پھر وہی تنگی شروع!
اب نازیہ کو پریشانی ہوئی کہ یہ موئی درد جان کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ اس نے اپنی ڈاکٹر دوست کو کہہ کر سرکاری ہسپتال سے ایکسرے کروایا۔ ایکسرے کروا کے ہڈی والے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس نے ایکسرے دیکھ کر کہا کہ اس میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، آپ اس کو ذرا کینسر آوٹ ڈور میں دکھا کر آئیں۔ اور یوں میری نازیہ سے پہلی ملاقات کا بندوبست ہوا۔۔۔۔
نازیہ نے مجھے سلام کر کے ایکسرے پکڑاتے ہوئے کہا کہ اسے بازو کی ہڈی میں درد کی شکایت ہے۔ میں نے ایکسرے دیکھتے ہی ہڈی کا پوچھنے کی بجائے اس سے پوچھا “آپ کو جسم میں کہیں کوئی گِلٹی محسوس ہوتی ہے”، جس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں بس چھاتی میں ابھار سا تھا لیکن وہ وظیفے اور مالش سے بہتر ہو گیا، لیکن “تھوڑا سا” ابھی بھی ہے۔ وہ “تھوڑا سا” ابھار چیک کرتے ہی الارم بجنے لگے۔ میں نے نازیہ کو بائیاپسی، ہڈیوں کا اسکین اور سی ٹی اسکین لکھ کر دیے۔ رپورٹ میں چوتھی اسٹیج کا انتہائی اگریسیو بریسٹ کینسر تھا، جس کی جڑیں ہڈیوں میں ہی نہیں بلکہ جگر، پھیپھڑوں اور ایڈرینل گلینڈ میں بھی پہنچ چکی تھیں۔۔۔۔
نازیہ کے علاج کا دورانیہ لگ بھگ اٹھارہ ماہ کا تھا۔ زندگی کے آخری چار ماہ اس نے بہت تکلیف میں گزارے۔ بستر پر معذوری کے عالم میں وہ کبھی کبھار اپنے دل کی باتیں کیاکرتی تھی۔ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ ڈگری مکمل کرنا چاہتی تھی۔ ماں بننا چاہتی تھی۔ کچھ اور جینا چاہتی تھی۔ لیکن مقدر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔۔۔
شاید ہمارے ارد گرد بہت سی نازیہ موجود ہوں۔ کیونکہ ہر نو میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں اس کا شکار ہوتی ہے۔ خواتین کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چھاتی میں تبدیلیاں ہوں تو ڈاکٹر سے مشورے میں تاخیر نہ کریں۔ پہلی اسٹیجز میں اگر ہم اس بیماری کو پکڑ لیں تو اللہ کی مہربانی سے اسے جڑ سے اکھاڑنے کے اچھے چانسز ہوتے ہیں۔ اگر آپ خاتون ہیں اور تصویر میں دکھائی گئی کوئی علامات آپ میں ہیں تو فوراً کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو اپنی خواتین کو آگہی دیں کہ جھجک، اور خواہ مخواہ کی شرم کو زندگی اور صحت سے قیمتی نہ جانیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply