دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن/ڈاکٹر تسنیم اکرام

نو دس سال کی فاطمہ جھلونگا چارپائی کی ادوائن پر بیٹھی تھی سیلاب زدگان ریلیف کیمپ خیمہ بستی میں۔۔ سوچوں میں گم ۔۔۔ایک ہاتھ سے بوڑھی دادی کے منہ سے مکھیاں ہٹاتی تھی اور ٹانگوں سے چھوٹی بہن کی جھلونگی کو ہلاتی تھی۔

چھوٹی بہن ابھی مشکل سے ایک سال کی ہوئی تھی،بھوک سے تڑپتی تھی اور اس کے قابو نہ  آتی تھی  ۔ فاطمہ نے اپنی چُنی اُتار کے چارپائی  کے ساتھ باندھ دی اور چھوٹی کو چوسنی دے کے جھلونگی میں ڈال دیا۔۔  ۔ اور زور زور سے ٹانگیں اور بازو ہلانے لگ گئی ۔۔

بھوک سے تو فاطمہ کی آنتیں بھی قل ہُواللہ پڑھ رہی تھیں اور دادی کی بھی۔ جانے کتنے دن پہلے انہوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا ۔ دادی کو تو بہت تیز بخار بھی تھا۔ تقریباً بے ہوش ہی پڑی تھی ۔دادی اتنی بے سدھ تھیں کہ مکھی مچھر تک بھی اپنے اوپر سے اُڑا نہیں سکتی تھی ۔

جب دونوں سو گئیں تو فاطمہ ریت کے ڈھیر پر کھیلنے آ گئی ۔وہ ریت میں اپنا پیر دباتی ۔ اچھی طرح ریت کو پاؤں کے اوپر جماتی ۔ آرام سے پاؤں کو ریت سے باہر نکالتی تو چھوٹا سا گھروندا بن جاتا ۔ مگر ساتھ ہی ڈھے جاتا ۔ وہ پھر پاؤں ریت میں دباتی، ریت کو احتیاط سے پاؤں پر جماتی اور بھی زیادہ دھیان سے پاؤں باہر نکالتی اور پھر۔ ۔۔ فاطمہ رونےلگی کہ اس کا اپنا گھر بھی ایسے ہی ڈھے
گیا تھا اور اب یہ گھروندا بھی ۔۔۔۔
___________ _________
فاطمہ کو لگا جیسے دادی نے اسے آواز دی ہو۔۔۔  بھاگی گئی ۔دادی آنکھیں اور منہ کھولے سوئی پڑی تھی ۔

دل میں کہنے لگی کہ ایک آخری بار گھروندا بنا لوں تو بس دادی اور بہن کے پاس ہی چلی جاؤں گی۔ ماں باپ بھی اتنی دیر تک کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے بھی لے آئیں گے اور دادی کی دوائی بھی۔۔

ریت میں پاؤں دبایا ہی تھا کہ اسے لگا جیسے بادل آ گیا ہو ۔اس کے اوپر اندھیرا سا ہو گیا۔ فٹافٹ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ ”اللہ سوہنیا اب نہ  بادل بھیجنا، نہ بارش“ ہم تو پہلے ہی تباہ ہو گئے ہیں، لیکن وہاں تو چاچا مقبول تھا ۔ خوش ہو کے اٹھی اور کپڑوں سے ریت اور مٹی جھاڑی  ۔۔

چاچا مقبول فاطمہ لوگوں کے محلے میں ہی رہتا تھا اور خاصا کھاتا پیتا تھا ۔ وہ تو اس وقت ہی محلہ چھوڑ گیاتھا جب پورا ہفتہ بارشیں برستی رہی تھیں اور سیلاب کا خطرہ بھی ہو گیا تھا، مگر فاطمہ لوگوں کا کوئی ایسا رشتہ دار نہیں تھا جہاں وہ لوگ جا کے سر چھپا سکتے ۔۔۔ آج چاچے کو دیکھ کے فاطمہ خوش ہو گئی تھی۔
_ _______ __________
”چاچا تم ہمیں ملنے آئے ہو یہاں خیمہ بستی میں؟؟“
”ہاں آں“ چاچے نے مونچھوں کو تاؤ دیا۔۔۔۔۔
”آپ تو سارے محلہ چھوڑ گئے تھے۔ اتنی بارشیں ہوئیں اتنی بارشیں ہوئیں اور ہمارا گھر جس کی چھت پہلے ہی ٹپکتی تھی اس میں سے جگہ جگہ سے اینٹیں گرنے لگ گئیں“ ۔
”اچھا“ چاچا مقبول نزدیک ہو کے بیٹھ گیا ” پھر کیا ہوا؟؟؟“۔۔

”گلیوں میں گھٹنے گٹھنے پانی اور ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ۔ ابّا مزدوری کے لیے بھی نہیں نکل سکتا تھا اوپر سے اماں کی طبیعت بھی بہت خراب تھی نا “  ۔
”ماں باپ کدھر ہیں تمہارے؟؟؟“۔
”وہ دونوں راشن لینے کےلیے گئے ہیں صبح سویرے سے“۔۔
چاچا مقبول اور بھی نزدیک ہو کے بیٹھ گیا۔
”اور بھائی کدھر ہے تیرا؟؟؟“

”عبدالرحمن ؟ ؟؟ وہ تو مر گیا۔۔۔“
“ و ہ کب کیسے؟ ؟”
” جب گھر ڈھے گیا اور سیلاب بھی آ گیا تو اماں نے سر پر دیگچہ رکھ کے اندر میری چھوٹی بہن کو بٹھا لیا۔ اک بکری ہی تھی ہمارے پاس، جسے بھائی  نے قابو کر لیا۔ ابّا نے چارپائی سر پر اٹھا لی جس پر میں اور میری بیمار دادی تھی “۔

چاچے نے فاطمہ کے سر پر پیار دیا اور اس کا ہاتھ اس کی کمر تک چلا گیا۔ ۔
“ سفر بڑا ہی مشکل تھا ۔ دریا ابھی اتنا نہیں چڑھا تھا لیکن پھر بھی پانی کی لہریں بہت تیز تھیں اور ڈبونے کے لیے زور مارتی تھیں ۔ اماں بڑی بیمار تھی ۔اس کا اکیلا چلنا مشکل تھا اور اس نے بیٹی کو بھی سر پر اٹھایا ہوا تھا ۔ اس بیچاری نے گھر میں جو آ ٹا تھا اسے جھاڑ پھونک کے روٹیاں پکا کے بھی ساتھ باندھ رکھی  تھیں تا کہ کوئی بھوک سے نہ مرے“  ۔
“ ابّا پر بھی پیار آ رہا تھا جس نے چارپائی پر ، مجھے بھی اور دادی کو بھی سر پر اٹھا رکھا تھا۔ مگر ابّا سب کو بچا لینا چاہتا تھا”

“ اور بھا ئی کو کیا ہوا  ؟ ” ۔ چاچے نے فاطمہ کی کمر پر پھر ہاتھ پھیرا۔ ۔ ۔
“ پانی کی ایک بڑی لہر آئی ۔ عبدالرحمٰن نے بکری کو کان سے پکڑا ہوا تھا۔ بکری زور مارتی تھی اور پانی بھی زور مارتا تھا۔ بکری کو بچاتے بچاتے وہ خود ہی پانی کے ساتھ بہہ گیا“۔

سب کہتے تھے کہ جانور چھوڑ دیں ۔ قسمت میں ہوئے تے مل جائیں گے پر دادی اور چھوٹی نے تو دودھ کے بغیر ویسے ہی مر جانا تھا اور میری اماں ۔ ۔۔ہمارا کاکا بھی تو آنے والا تھا  ۔ ”
“ عبدالرحمٰن کے مرنے پر اماں بہت روتی تھی اور گر گر پڑتی تھی ۔ پھر اللہ نے ہمیں کاکا دےدیا۔ ابا نےاس کا نام عبدالرحمٰن رکھ دیا”

چاچے نے تب پوچھا۔ ” تمہیں بھوک لگی ہے؟ ؟
اور ہاں تیرا بوچھن(دوپٹہ) کدھر ہے؟؟؟ “ ۔
”بھوک سے تو آنتیں لوس رہی ہیں میری ۔ اماں اَج کاکے کو بھی ساتھ لے گئی ہے ۔ اتنا چھوٹا سا کاکا دیکھ کے اسے بہت سا راشن ملے گا اور پھر ہم پیٹ بھر کے کھانا کھائیں گے“۔ ۔
“ تیری چنی کدھر ہے ؟؟؟اب تو تم بڑی ہو گئی ہو ۔ بالکل جوان۔۔”

”اماں ابّا دادی اور چھوٹی کو میرے اوپر چھوڑ گئے ہیں۔ دادی کو بڑا بخار ہے ۔ اپنے اوپر سے مکھی مچھر بھی نہیں اُڑا سکتی۔ میں چنی سے اس سے مکھیاں اڑا رہی تھی ۔ چھوٹی بہن بہت رو رہی تھی تو دوپٹے سے اس کی جھلونگی بنا دی۔ اب دونوں سوئی  مری  پڑی ہیں۔۔ ۔ہاے مجھے تو لگتا ہے کہ دادی مر گئی ہے۔ اس کی آنکھیں بھی کھلی ہوئی ہیں اور سوئی پڑی ہے“

”اچھ۔۔۔ اچھ۔۔۔اچھا “۔ ۔۔
” لگتا ہے ماں باپ تو تیرے رات تک ہی واپس آئیں گے ؟ “۔ ۔۔

”دیکھیں کیا کرتے ہیں؟؟؟ ۔ کل بھی کہتے تھے کہ بہت لوگ تھے راشن لینے والے اس لیے دیر ہو گئی تھی۔ ۔۔ اور جو روٹی لائے وہ بھی مٹیو مٹی۔۔ ۔ کھائی بھی نہیں گئی ، چاول بھی مٹی والے  ۔۔۔ راشن لیتے ہوئے گٹو پھٹ گئے اور سب مٹی میں مل گیا ۔۔سب لوگوں کے پیچھے خیمے میں ٹبر بھوکے بیٹھے ہیں ۔“

“ تمہیں بھوک لگی ہوئی ہے؟؟؟؟ ”
”ہاں آ ں ہاں۔۔۔“
“ تیری تو قمیض بھی پھٹی پڑی ہے جگہ جگہ سے  ؟”

“ مجھے ہاتھ نہ لگائیں چاچا ۔ ابّا لے کے آئے گا اَج ہمارے کپڑے لتّے۔ ۔۔ ”
”اچھا میں چھوٹی اور دادی کو دیکھوں جا کے۔  “
چاچے نے فاطمہ کی بانہہ پکڑ لی۔ ۔۔۔
“بیٹھ جاؤ ۔ کوئی اور دیکھ لے گا دادی اور چھوٹی کو۔”

”چاچا میرا بازو چھوڑ“۔ ۔۔
“ ادھر اور ہے ہی کون جو اِن کو دیکھ لے گا۔ ساری بستی والے تو راشن لینے گئے ہوئے ہیں ۔ بس ہم تین جی ہی اِدھر ہیں ۔”
”ساری بستی خالم خالی پڑی ہے؟ ؟“۔۔۔۔۔۔ چاچے نے بانہہ اور زور سے پکڑ لی۔ ۔

فاطمہ نے بازو چھڑانے کی کوشش کی۔۔ چاچے نے کہا ”میں تم لوگوں کے لیے روٹی اور چاول بھی لایا ہوں، اور ہاں تیرے لیے ٹافیاں چاکلیٹیں بھی۔ ۔ “

Advertisements
julia rana solicitors

روٹی کا نام سن کے فاطمہ کے منہ میں پانی آ گیا اور آنکھیں چمکنے لگیں۔۔ ۔
فاطمہ دوڑی کہ دادی کو بھی روٹی کا بتاؤں پر مقبول نے آگے ہو کے روک لیا۔
“ پہلے آپ تو کھا لے، پھر ان کو بھی دے لینا ،چاہے ماں باپ کے لیے بھی رکھ لینا۔ ۔”
مقبول نے رکشے میں سے دستر خوان میں باندھی ہوئی روٹیاں نکالیں ۔ نمکین روٹیوں کی خوشبو سے فاطمہ کے پیٹ میں مروڑ  اٹھنے لگے اور منہ میں پانی آ گیا۔ ۔۔
مقبول نے جیب میں سے ٹافی اور چاکلیٹ نکالی اور فاطمہ کی طرف اُچھالی۔ ۔
فاطمہ نے ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔۔۔
”روٹی“۔۔۔
”بہت بھوک لگی ہے تمہیں تو“؟
نیت تو اس کی پہلے ہی خراب تھی ۔ اب مقبول نے اس کی شدید بھوک سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
“ آ جا ؤ  ادھر رکشے کی چھاؤں میں بیٹھ کے روٹی کھا لو“۔۔
چھوٹی کے رونے کی آواز آئی۔ فاطمہ اٹھ کے بھاگی اور۔۔۔زمین پر ڈھے گئی۔۔ پھر اسے مقبول نے اٹھنے بھی نہ دیا۔۔۔
”چاچا“۔۔۔ فاطمہ کی چیخ نکل گئی۔۔۔
”نہ کر چاچا“۔۔۔۔۔۔ اُدھر چھوٹی کی چیخیں اُدھر فاطمہ کی۔۔
چھوٹی گر گئی تو اس کی چیخیں بند ہو گئیں۔۔
پوتیوں کی چیخیں بھی مری دادی کو نہ اٹھا سکیں۔
شام ماں باپ جب راشن اکٹھا کر کے لائے تو وہاں کھانے والا کوئی نہیں تھا۔۔
فاطمہ ریت کے پاس کھلی آنکھوں کے ساتھ پڑی تھی ۔ اس کے پاس روٹی پڑی تھی جسے کھانا اسے نصیب ہی نہ ہوا۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply