چتاؤنی

میں کیا ہوں میری ذات کیا ہے،
میری سوچ کیا ہے میری بات کیا ہے،
صدیوں کے سفر بعد بھی میرے ہاتھ کیا ہے،
ایک متحرک ندامت کے سوا، میری ذات کیا ہے،

ہاں ، ہوں،،،، آزاد ہوں ،،،
میں ،،،، آزاد ہوں کہ میرا دیس ہی زنداں ہے ‫‫،،،
اپنے تخیل سے، سرحدوں کے باہر کھیلتی آزادی کو محسوس کرنا چاہتا ہوں تو جانے کیوں،،، یہ دھر اس پہ پشیمان ہے،،
یہ دھر کے جس کے سارے انسان حیوانوں کا لباس اوڑھ کر، جنگلوں میں جا بسے ہیں، اور اصولوں پر جی رہے ہیں،،
اور سارے درندے آدمیوں کی کھال پہن کر ایوانوں میں آن گھسے ہیں، اور اصولوں کا لہو پی رہے ہیں،

Advertisements
julia rana solicitors london

تم. ! جو بلند مسندوں پر براجمان ہو،
گھمنڈ کرتے ہو کہ بھگوان ہو،
تو مبتلائے نسیان ہو،
بس چند گھڑی کے مہمان ہو،
گر تمہیں زغم ہے، یا وہم ہے کہ تم بھگوان ہو یا فرشتے ہو،،، تو ہوتے رہو،،
مجھے اس سے کیا،
میں نہ مانوں کہ یہ فتور کیا ہے،،،
تم جو ایسے ہو تو میرا قصور کیا ہے،،،،
بس کہ اک میں ہوں اور مجھ سے چند اور جھلے،،
کہ جن کے ساکت و منجمد کر دئیے گئے وجودوں کے تہہ خانوں میں،، کہیں کہیں، کبھی کبھی سوال کا لاوا ابلتا رہتا ہے،،،
تف یہ کمزوری کہ جبر پہ صبر بنا کوئی چارہ ہی نہیں،،
تف یہ خوف کہ خود تک کو پکارنے کا یارہ نہیں،،،
میں اور مجھ سے چند بٹے جو تمہاری خوشامد کو ریت ہوۓ سماج کے صحرا میں سریاں لشکاتے کھڑے ہیں تو معترض کیوں ہو،،،
ساکت دائروں میں گھومتے بنٹے تمہاری کونسی ہتک کر بیٹھے کہ تم سٹکے جاتے ہو،،،
تم اس سے بے خبر ہو کہ ہم اپنے انجام سے باخبر ہو چکے ہیں،،
جبر اور صبر کی جنگ میں عنقریب ہم اپنا سب کچھ ہار جائیں گے،،،
سوا کلیجے پر جمے چند آنسوؤں کے،،
ہم باخبر ہیں کہ جلد ہی تمہارا کوئی نیا ہتھیار ہماری بھربھراتی سوچ کو ٹھوکر مار کر سماج کے رواج میں گم کر دے گا،، تو انہی آنسؤوں کے تحم سے سوالوں کے سول ابھریں گے،،،،
پس اگر تم میں سمجھ لینے کی کچھ صلاحیت بچ رہی ہے تو جان رکھو کہ سوال جب بھی اٹھتے ہیں، بانس کی کونپلوں کی طرح اس رفتار سے اٹھتے ہیں کہ غفلت میں سوۓ باغبان کو کروٹ بدلنے کی فرصت بھی نہیں دیتے،،،،
سوال،، بالغ ہو کر فکر بن جاتے ہیں،، اور فکر جذبہ سے نکاح کر کے بغاوتوں کو جنم دیتی ہے،،،
بغاوتیں اگر غداری، بزدلی، اور کاہلی جیسے موذی امراض سے بچ جائیں تو آئین بن کر سانس لیتی ہیں،،،
پس یاد رکھو ہمارے سوال ابھرنے ہی کے لیے ہیں، بھلے ہم فنا ہو جائیں ، ہمارے سوال ابھریں گے،،
میرا گمان سرگوشی کرتا ہے کہ یہ سوال تب ابھریں گے جب تم اپنے وہم کے نشے میں بد مست اپنے اختیارات کے برھنہ قدموں تلے اپنی رعایا کو روندتے چہل قدمی کرتے ہو گے،،،
سو،،،، تم کو چتاؤنی ہے،، خاک ہوتی خاک کی، کوئی ایسی نعل کا چارہ کرو،،،
جو تمہارے تلووں کو شکست کا لہو چاٹنے سے بچا سکے،،،
تفہیم کو،
برداشت کو،،،
خدمت کو،،،
جوتے سمجھ کر ہی اپنا لو،

Facebook Comments

اسحاق جنجوعہ
کوئ خاص نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply