ایک نظم ایک کہانی

دوستو
مکالمہ نے کئ نئی طرزِ تحریر کی بنیاد ڈالی ہے۔ آج اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ کے ساتھ ایک نئے ادبی تجربے کا آغاز کرنے کا سوچا ہے۔
محمود فیاض صاحب کی تحریریں مجھے ہمیشہ بہت متاثر کرتی ہیں۔ درجِ ذیل ان کی لکھی گئ ایک مختصرا مگر بےحد خوبصورت تحریر ہے۔ تحریر پڑھیں تو آپ خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرتے ہیں۔ اور یہی ایک اچھے رائٹر کی صفت ہے۔
اس تحریر کو میں نے ذیل میں منظوم کرنے کی جسارت کی ہے۔آپ نے میرے اور محمود فیاض صاحب کے کالمز تو کئی بار پڑھے ہونگے۔ آج میری شاعری کا بھی لطف اٹھائیے۔ امید کرتی ہوں پسند آئے گی۔
ہمیں آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔ شکریہ

نمناک سکوت
محمود فیاض
ریستوران کی کھڑکی کے شیشوں پر خنکی بھاپ کی نم لکیروں کی صورت نیچے کو بہہ رہی تھی، اسکا کانپتا ہاتھ اسٹین لیس اسٹیل کا چمکدار چمچ کریم رنگ کے کافی کے کپ میں چینی گھولتے ہوئے ہر چکر میں ایک مترنم گھنٹی کی آواز پیدا کر رہا تھا، جو مجھے نیپال کے مندروں کے بھکشوؤں کے گلے میں پڑی منکاؤں کی یاد دلا رہے تھے۔ میری پیالی میں پڑی کافی اپنے اندر موجود چینی کے چار چمچوں کے بن گھلنے کے باوصف کسیلی سے رسیلی کے سفر میں تھی۔
کمرے کے کم خنک ماحول میں نیم تاریکی، باہر کھڑکی کے دھندلے شیشوں سے جھگڑنے والی کم ہمت روشنی کے سبب ہمارے چہرے آؤٹ آف فوکس خوبصورت بنا رہی تھی، اور میں وارفتگی کے عالم میں اسکے کپ کے اوپر جھکے چہرے پر پھیلی سوچ کو پڑھنے کے پرلطف مطالعے میں غرق تھا۔
دفعتاً اس نے چمچ ہلانے کا مشغلہ ترک کر دیا، شائد کافی سے اٹھتی بھاپ کے مرغولے اسکی آنکھوں کی نمی چھپانے سے قاصر ہو گئے تھے، یا ان آنکھوں کی نیم بازی کوبن کہے اپنا مدعا بیان کرنا آگیا تھا۔ میں اسکی نگاہوں میں ابھرے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے اپنے احساس کی کتابوں میں گرداں ہو گیا، مگر الفاظ ایسے موقعوں پر کتابوں سے پھسل جاتے ہیں، اور خالی اوراق خاموشی کو طویل، بہت طویل کر دیتے ہیں۔
(محمود فیاض)

نظم
نمناک سکوت
ثمینہ رشید

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ لمحہ خواب تھا جگنو تھا
یا اک ٹوٹا ستارہ تھا
بہت ہی کم اُجالا تھا۔۔ میرے کمرے میں اُس دن جب
ہوائیں سرد تھیں اور خنک موسم ۔۔کھڑکیوں میں مسکراتا تھا
تمہارے ہاتھ میں کپ تھا
اور چہرے پہ کافی سے اٹھتی ۔۔. بھاپ کا سایہ
بڑی خاموش ساعت تھی
تم اپنے آپ میں گم ۔۔۔ کپ پہ یوں نظریں جمائے تھیں
کہ جیسے بھاپ کے پردے میں ۔۔ کئ آنسو چھپائے ہوں
تمھارے ہاتھ کی جنبش سے گھومتے چمچے کا جو۔ سُر تھا
مجھے ان بھکشوؤں کی گھنٹیوں سا ہی لگتا تھا
جو ۔۔کہیں پہ دور مندروں میں جاپ کرتے ہوں
تمہاری سُرمگیں آنکھوں پہ
گھنی پلکوں کا سایہ تھا
میری نظریں تمہارے چہرے کی تسبیح پڑھ رہی تھیں
اور کمرے کی فضا میں اک گہری تلخ خاموشی کاسایہ ۔رقص کرتا تھا
مگر وہ کانچ سا لمحہ۔۔ بہت ہی قیمتی تھا جب
تمہاری بھیگتی آنکھیں میری جانب اٹھی تھیں
سوالوں سے اٹَی نظریں بہت کچھ پوچھتی تھیں اور بتاتی تھیں
مگر نہ جانے کیوں اس ایک ساعت میں
میرے احساس کی دنیا میں اک گہرا اندھیرا تھا
میرے الفاظ چپ کی ردا کو اوڑھ کر
ہاتھوں سے جا پھسلے
اور میں کتابوں کے صحفحوں پہ وہ لمحہ ڈھونڈتا رہتا ہوں برسوں سے
وہ لمحہ خواب تھا جگنو تھا
یا اک ٹوٹا ستارہ تھا
(ثمینہ رشید)

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply