گھٹیا افسانہ نمبر 15۔۔۔۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

جہانگیر صاحب کافی کے سِپ لے رہے ہیں، سگار بھی جَل رہا ہے، بول رہے ہیں، جب وہ بولتے ہیں تو سننے کو مَن کرتا ہے. ایک دن زراعت کی دریافت پہ گفتگو کر رہے تھے، جو روانی جو طرز جو جامعیت جہانگیر صاحب کی گفتگو میں ہے وہ مجھے کبھی میسر نہیں آتی. حالانکہ بڑے بڑے نافی ٹاٹر آتے ہیں میرے پاس، یہیں اسی بیٹھک میں بڑے بڑے موقر زاکرین سے گفتگوئیں، کمال مہا کمال شعراء کی قربت، ایسے ایسے بت تراشوں کے نمونے اور نجانے کیا کیا نہ میری اِس بیٹھک میں ہو گزرا ہے. سردیاں ہیں. حقہ میں حشیش کے تڑکے نے سردیوں میں بھی پسینے نکال دئیے ہیں. خیر جہانگیر صاحب بتا رہے ہیں کہ “فنون لطیفہ کی بربادی کے ہاتھوں شکست خوردہ انسان کی نفسیات آرٹ کو کوئی فضول شے سمجھنے لگ گئی ہیں. موجودہ نظامِ زر نے جسمانی محنت اور ذہنی محنت میں فرق ڈال دیا ہے. اس جھوٹے فرق کی بنیاد پہ انسانیت آرٹ سے دور ہو رہی ہے. ایک چھوٹی سی اقلیت کی طرف سے ثقافت پہ قائم اجارہ داری طبقاتی معاشرے کی پیداوار ہے. نجی ملکیت کے نظریے نے انسانوں کی اکثریت سے نہ صرف آرام دہ زندگی کا حق چھین لیا ہے بلکہ ان کے دماغ اور شخصیات کی آزادانہ ترقی کا حق بھی چھین لیا ہے”. میں اُن کے فقروں پہ غور کر رہا ہوں، ایک سوال میرے دماغ میں جاگا تو کہہ ہی ڈالا ہے کہ “اگر جمالیات ایسا ہی جاندار موضوع ہے تو اِس کو جامعات میں باقاعدہ پڑھایا کیوں نہیں جاتا؟ “. جہانگیر صاحب کہتے ہیں کہ “ہمیں بتایا اور پڑھایا جا رہا ہے کہ جمالیات ایک فرسودہ مضمون ہے. ثقافت اور فنونِ لطیفہ پہ تحقیقاتی کام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے. لیکن غور کرنے پہ یہ حقیقت کھل کے سامنے آتی ہے کہ عوام کے سینوں میں جاننے، تجربات کرنے، سیکھنے اور نئے نئے افق تلاش کرنے کی خواہش موجود ہے مگر اظہار کے مواقع فراہم و دستیاب نہیں ہیں. لیکن ہمیشہ سے صورتحال ایسی نہیں تھی. قدیم سماج میں موسیقی، رزمیہ شاعری اور فنِ تقریر تک تمام مرد و خواتین کو رسائی حاصل تھی. موجودہ صورتحال کا آغاز ذہنی و جسمانی مشقت کی تفریق سے ہوا اور رہی سہی کسر لبرل ازم کی آزاد منڈی کی معیشت نے پوری کر دی”. جہانگیر صاحب نے ٹھنڈی ہونے سے قبل آخری گھونٹ لینے کے لیے کافی کا کب اٹھایا ہے تو میں نے موقع جان کر ایک اور سوال داغ دیا ہے کہ”بہترین فن کے لیے سازگار ترین موسم کونسا ہوتا ہے؟”. جہانگیر صاحب تھوڑے خاموش ہونے کے بعد آہستہ آہستہ مگر آنکھوں میں مخصوص چمک کو برقرار رکھے ہوئے جواب دے رہے ہیں کہ “اس بات ہم کوئی مستحکم و محکم رائے نہیں دے سکتے. لیکن ایک اہم بات جو تاریخی طور پہ ثابت شدہ ہے کا ذکر کرتا چلوں کہ عوامی انقلابات کے دوران عوامی کی ثقافتی، فنی اور جمالیاتی حس اپنے عروج پر ہوتی ہے. ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ انقلاب کی کیفیت میں تمام مرد و زن یہ محسوس کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور اپنی زندگی کے فیصلے اُن کے اپنے ہاتھوں میں ہیں. 1931 سے لیکر 1937 کے ہسپانوی انقلاب کی مثال ہی دیکھ لیں، وہ عہد عوامی فنکارانہ ابھار کا عہد تھا. میکوڈا، البرٹی، لورژا اور میگوئل ہرنینڈس کی شاعری اُس عہد کی جدوجہد سے معمور ہے. اِن شعرا کو ملنے والی عوامی پزیرائی اور عوامی توجہ کی مثال ثقافت اور آرٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی. پس جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فن و ثقافت مر رہی ہے وہ غلط ہے، بلکہ فن و ثقافت کو قتل کیا جا رہا ہے. آخری تجزیے میں اِس قتل کے پیچھے بھی ایک معاشی وجہ ہے”. میں نے تجسس میں پوچھا ہے کہ “وہ کیا ہے؟”. جہانگیر صاحب نے بولتے بولتے قہقہہ لگایا ہے کہ”اک ہور حقہ بنڑا فیر دساں گا”.
میرے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے. کچھ بھی بعید اَز قیاس نہیں ہے. کسی کے گھر جا کر ڈیٹ مارنا تقریباً خود کو جان بوجھ کر کنواں میں گرانے کے مترادف ہے. مگر صوفی کی بیوی گھر سے بھی ایک منٹ کے لیے نہیں نکل سکتی. مگر واٹس ایپ پہ ٹوٹے بھیج بھیج کر جو حال اُس کا میں نے کیا ہوا ہے تو یہ اُس کی ہمت ہے جو اپنے گھر کی بیٹھک میں ملنے کو تیار ہو گئی ہے. لیکن گھر کا کوئی بھی بندہ جاگ گیا تو میرا محلے کی گلیوں سے زندہ نکل آنا ناممکن ہو گا. یہ تو طے ہے. مگر صوفی کی بیوی اخیر کوئی گرم ایٹم ہے. میں نے سارا معاملہ توقیرے کو بتایا ہے. توقیرا ساتھ ساتھ گاہک بھی بھگتا رہا ہے. مجھے توقیرے نے ایک پلان بتایا ہے. میں نے ڈسکس کیا تو صوفی کی بیوی فوراً پکی ہو گئی کہ یہی طریقہ ہے. توقیرے نے وہیں بیٹھے بیٹھے کسی کو کال کی تو ایک بندہ بیس پچیس منٹ کے اندر اندر گولیوں کا پتہ دے گیا ہے. توقیرے نے دو گولیاں نکال کر مجھے دے دیں ہیں. میں گولیاں ہاتھ میں لیکر صوفی کے گھر والی گلی کی طرف چل پڑا ہوں. میسج پہ مسلسل صوفی کی بیوی سے رابطے میں ہوں. عورت بہت گرم ہو رہی ہے. کہہ رہی تھی کہ آج دو سال بعد کسی مرد کو ہاتھ لگائے گی. جب سے صوفی لقوے کا بیمار ہوا ہے تب تک صوفی کا بڑا بیٹا تسلی کرواتا رہتا تھا، مگر دو سال سے وہ بھی دبئی میں ہے. میں چلتا چلتا صوفی کے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرا تو سگریٹ کی خالی ڈبی جس میں گولیاں ڈالی ہوئیں ہیں کو پھینک دیا ہے. دو منٹ بعد میسج مل گیا کہ گولیاں اٹھا لیں ہیں. اب میں بیٹھک میں داخل ہو چکا ہوں، رات کے کوئی ایک بج رہے ہوں گے. اُس نے بتایا ہے کہ وہ گولیاں دودھ میں ملا کے سب کو تسلی سے اپنے ہاتھ سے دودھ پلا کر سُلایا ہے.
“ہمیں کچھ عرصہ اپنی ذمہ داریاں ترک کر دینی چاہیے، اپنی اپنی فیملی بال بچے بہن بھائی ماں باپ ترک کر دینے چاہئیں”. میں نے ڈرتے ڈرتے بات کہی تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کیسے سب نے مجھ پہ لعن طعن کی اور ٹھٹھہ لگایا تھا.
“اچھا تو اب ہم سب کچھ چھوڑ کر جائیں گے کہاں”، اسماعیل نے پوچھا ہے. چہرے پہ مزاحیہ چالاکی عیاں ہے.
“اس کی ماں نکل گئی ہے اُس کو ڈھونڈنے جانا ہو گا اور کہاں جانا ہے”، داؤد کی جگت چبھنے والی ہے.
“ہم جب دس لوگ گھر سے نکلیں گے تو اِس شہر میں ایک ماہ بعد داخل ہوں گے، اِس کے علاوہ دنیا کے ہر کونے میں جہاں جانا چاہو جا سکتے ہیں، جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں”، میں نے آواز میں باقاعدہ وزن ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے.
“پیسے تیرا باپ دے گا یا تیری اُس موٹی ڈرم بیوی کا باپ دے گا، پچھلی مرتبہ نو دن کا ٹور تھا، واپسی پہ سب کی جیبیں خالی تھیں، بڑا آیا مہینے کا ٹور مارنے والا”، داؤد چھکے پہ چھکے مارنے کے موڈ میں ہے.
“ہم پیسوں کے بغیر جائیں گے، جیب میں نہ پیسے نہ موبائل نہ گاڑی، بس. ایسے ہی سماج سے بالکل بیگانہ ہو کر نکلیں گے، بھیک، چوری کچھ بھی کر لیں گے، مگر رہنا ایسے ہی ہے ایک ماہ”. میں نے باقاعدہ کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہے. داؤد کچھ کہنا چاہ رہا ہے مگر اسماعیل نے اُس کو ٹوک دیا ہے.
“فائدہ…؟ فائدہ کیا ہو گا؟ فائدہ بتاؤ ملک جی”. اسماعیل نے آنکھیں پھاڑ کر سوال کیا ہے.
“اِس کا فائدہ ابھی سمجھانا بھی ممکن نہ ہے، لیکن یقین کرو واپسی پہ تم کندن ہو گے، تمام رویے تمام لہجے تمام صعوبتوں کی جانچ پرکھ اور انسان کی اصل اوقات کا معلوم پڑ جائے گا. بھوک پیاس کی فکر نہ کرو، مرو گے نہیں، یہی تو سمجھانا ہے کہ زندگی کے مختلف مگر خاصے چھپے ہوئے معنی بھی کُھل کر ہمارے سامنے آ جائیں گے. سماج سے ہماری نفرت اور بیگانگی کا بھی اظہار ہو گا. ساتھ صرف ایک کیمرہ لے جانا ہو گا”. میں ایک ایک لفظ پہ زور دے رہا ہوں. جبکہ داؤد مسلسل سر نفی میں ہلا رہا ہے اور اسماعیل کو میری بات پہ توجہ دینے سے روک رہا ہے. میں نے آخری پتہ بھی پھینک دیا ہے کہ “رضوان اور قدیر کو میں راضی کر چکا ہوں جبکہ دو فیس بک فرینڈ لڑکیاں بھی ہمیں جائن کر رہی ہیں”. اسماعیل اچانک اچھلا کہ “اب یہ کون مصیبتیں ہیں؟”.
“یار ہیں، اپنی ذہنیت کی ہیں، اخیر حرامی اور باغی، کتی ترین چیز ہیں، دیسی ولائتی ملا کر پیتی ہیں، اوہ آہ بھی کمال کی ہے، ڈگی بمپر بھی آواز ہے”، میں نے داؤد کو آنکھ مار کر ساری تفصیلات بتانا شروع کر دی ہیں. مگر اسماعیل کچھ جھجھک کا مظاہرہ کر رہا ہے. داؤد نے رات کے آخری پہر اعلان کر دیا ہے کہ” اگر یہ دونوں حوریں ہمارے ساتھ ہیں تو ہم لازمی ملنگ بننے کے لیے تیار ہیں”.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply