سڑک پہ موجود بچے کس کی ذمہ داری؟- ابصار فاطمہ

آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں رہتے ہیں آپ کو ایک چیز کامن نظر آئے گی وہ ہیں سڑکوں پہ موجود لاوارث دکھنے والے بچے، یہ مزدوری کر رہے ہوتے ہیں، کچرہ چن رہے ہوتے ہیں، چھوٹی موٹی چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں یا آتے جاتے لوگوں کے ہاتھ پاؤں پکڑ کے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
مزدوری کرنے والے بچے یا چیزیں بیچنے والے بچے بھی اکثر آپ کو اس بات پہ مجبور کرتے ہیں کہ آپ ان سے مزدوری کروا لیں یا کچھ خرید لیں اور اس کے لیے کافی ایموشنل باتیں بھی کرتے ہیں مثلاً باجی صبح سے بکری نہیں ہوئی گھر میں کھانے کا سامان بالکل نہیں آپ کچھ خرید لیں تو میں آٹا لے لوں۔ یہ اور اس سے ملتی جلتی باتیں تو خیر فقیر یا ایسی چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والے اکثر کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر مسئلہ ان کا طریقہ نہیں ہے۔ وہ ایک الگ بحث ہے۔ مسئلہ ہے بچے۔۔۔۔ بالغین سے کہیں زیادہ تعداد میں مختلف جگہ مزدوری کرتے یا بھیک مانگتے بچے۔ وہ بچے جن کی عمر کھیلنے کی اور والدین کی حفاظت میں رہنے کی ہے مگر وہ سڑکوں پہ رل رہے ہوتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لاوارث نہیں ہوتے بلکہ کما کے یا بھیک مانگ کے جو جمع ہوتا ہے وہ رات میں لے جاکر اپنے گھروں پہ دیتے ہیں۔ یا پھر گھر میں تشدد سے بچنے کے لیے بھاگ نکلے ہوتے ہیں اور سڑکوں پہ رہ رہے ہوتے ہیں۔
ہر شہر میں ہر کچھ عرصے بعد چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے اور پولیس مل کر ان بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کی کوشش کرتی ہے اور وہ اقدامات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ ان بچوں کو جمع کرکے وقتی طور پہ کسی شیلٹر ہوم پہنچایا جاتا ہے ڈھونڈ ڈھونڈ کے ان کے والدین سے رابطہ کیا جاتا ہے اور والدین کو ہلکی پھلکی سرزنش کرکے بچوں کو ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
پاکستانی قانون اور چائلڈ پروٹیکشن کے اداروں کے پاس اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ کیوں کہ قانون کے مطابق بچوں کے والدین اگر موجود ہیں تو کوئی ادارہ انہیں اپنی تحویل میں نہیں رکھ سکتا چاہے والدین ان کی مکمل ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوں یا نہ ہوں۔ چاہے وہ بچوں پہ تشدد کرتے ہوں، ان سے مزدوری کرواتے ہوں، بھیک منگواتے ہوں یا ان سے جسم فروشی کرواتے ہوں۔ بچے شیلٹر ہوم میں صرف اس صورت میں رہ پاتے ہیں اگر وہ واقعی لاوارث ہوں یا ان کے والدین سے رابطہ ممکن نہ ہو۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے شیلٹر ہومز بھی کم ہیں جہاں بچے واقعی بنیادی سہولیات اور حفاظت کے ساتھ رہ سکیں۔ ایک بڑی تعداد نجی یتیم خانوں کی ایسی ہے جو صرف فنڈز لینے کے لیے یہ ادارے چلاتے ہیں اور بچوں کو اشتہار کی طرح مختلف تقاریب میں دکھا دکھا کے ہمدردی اور فنڈز حاصل کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان یتیم خانوں میں بھی سڑکوں پہ موجود بچوں کو نہیں رکھا جاتا کیوں کہ سڑکوں پہ گھومتے پھرتے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے یا بھیک مانگتے بچوں کو ایسے بچوں کے ساتھ نہیں رکھا جاسکتا جو ایسے پس منظر سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور کسی نہ کسی حد تک محفوظ خاندانوں میں رہ چکے ہوں۔
سڑکوں پہ موجود یہ بچے نہ صرف جسمانی اور جنسی تشدد کا آسان حدف ہوتے ہیں بلکہ بہت بچپن سے بہت سے شدید نوعیت کے نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جس میں پرسنیلٹی ایشوز مثلاً باغیانہ رویے، تشدد کی طرف رجحان، گالی گلوچ کی عادت، چوری کی عادت، منشیات کی عادت وغیرہ شامل ہے۔ یہ بچے بقاء کے لیے ہر وہ طریقے اختیار کرتے ہیں جو مہذب دنیا کے لوگوں کے لیے “ٹابوز” یا “شجر ممنوعہ” ہیں۔ ایسے میں یہ بچے بدتمیز، مجرم اور نہ جانے کن کن منفی ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پہ محدود وقت کے لیے بہتری کی کوششیں کرنے والے اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ بچے بہتر ہونا ہی نہیں چاہتے اور یہ اسی قابل ہیں کہ سڑکوں پہ رلیں۔ اس کی ایک وجہ ان کا وقتی یا بناوٹی فلاحی رویہ ہے۔ ان کی انٹروینشن بچوں کے مسائل اور نفسیات کی معلومات سے عاری ہوتی ہے۔ نہ ہی انہیں فلاحی کام کی ساخت اور نوعیت کا گہرائی سے اندازہ ہوتاہے۔ سوشل ورک باقاعدہ ایک سوشل سائنس کا مضمون ہے جس پہ سائنسی طریقہ کار کے ساتھ ہی کام ضروری ہے اور اس کا ایک اہم نکتہ ہے کہ اس پہ تحقیق کرکے کام شروع کیا جائے اور اسے وقت دیا جائے۔ جو کہ دہائیوں پہ محیط ہوسکتا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں یا تو نجی فلاحی ادارے پراجیکٹ بیسڈ کام کر رہے ہیں یا انفرادی سطح پہ اکثر افراد صرف دکھاوے کے لیے کچھ عرصے کام شروع کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ بچے سڑک سے لے جائے جاتے ہیں اور واپس سڑک پہ پہنچ جاتے ہیں۔
ہماری ریاست کے پاس نہ تو اتنے وسائل ہیں کہ ایسے بچوں کی حفاظت کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں نہ ریاستی ادارے اس مسئلے پہ سنجیدگی سے کام کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ جب آپ ان بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ حفاظت سے بسانا چاہیں گے یا تشدد سے حفاظت مہیا کرنا چاہیں گے تو ایک وسیع اور موثر نظام وضع کرنا پڑے گا جس میں حکومتی ادارے ایسے والدین کی تربیت کریں، گھروں میں باقاعدگی سے چیکنگ ہو، ان بچوں کی ضروریات اور رویے کو دیکھتے ہوئے کچھ عرصہ مخصوص ماحول میں تربیت ہو تاکہ یہ باقی بچوں کے ساتھ عمومی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ ساتھ ہی ریاست کو یہ حق حاصل ہو کہ اگر والدین اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہے یا تشدد کر رہے ہیں تو بچوں کو اپنی تحویل میں لیا جاسکے۔ اس سے اگلے قدم پہ جو کہ اس مسئلے کا زیادہ عملی اور دیر پا حل ہوگا وہ ہے غربت کا خاتمہ۔ بالغوں کے لیے روزگار کے بہتر مواقع تاکہ نہ کسی خاندان کی مجبوری ہو کہ وہ بچوں سے مزدوری کروائے یا بھیک منگوائے نہ جھوٹا بہانہ۔
یہ بچے ایک کثیر تعداد میں ہیں مگر ہمارے ہی معاشرے کے بچے ہیں۔ یہ ہر گھر میں محفوظ رہنے والے اور محبت پانے والے بچے کی طرح ہی تمام حقوق رکھتے ہیں۔ انہیں عادی سمجھ کے ان کے بنیادی حقوق سے لاپرواہی نہیں برتی جاسکتی۔
جب تک ریاست ان بچوں کی ذمہ داری نہیں سمجھے گی تب تک ہمارا یہ مستقبل سڑکوں پہ یوں ہی رلتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply