میں تو چلی چین/تنگ شیاؤ سے ملنا (قسط17) -سلمیٰ اعوان

کِیا کرایا تو کچھ بھی نہ تھا۔ بس بات اتنی سی تھی کہ اوپر والے کو رحم آگیا تھا ۔یقینا سوچا ہوگا ۔فقیر کی سوکھے ٹکڑے کھانے والی لڑکی میری نظر کرم کی بھینٹ چڑھ کر بادشاہ کی ملکہ کے روپ میں شاہی محل میں آتو گئی تھی ۔مگر مہینے بھر میں ہی سوکھ کر کانٹا ہوگئی کہ شاہی انواع و اقسام کے مرغن کھانے اس کے حلق میں اٹکتے تھے۔اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔آرام،آسائش اور سہولتوں کی فراوانی ڈسنے لگی تھی۔

تنگ کا ملنا خدائی تحفہ تھا جو خجل خواری کے چس کو پورا کرنے کے لیے اوپر والے نے عطا کیا تھا۔ڈی آر سی کا یہ خوبصورت علاقہ جو اپنی طویل القامت عمارتوں کے ایک مناسب جھرمٹ اور ایک چھوٹے سے کمپاؤنڈ کے ساتھ دیدہ زیب لگتا تھا۔ کہیں کہیں بچوں کے چھوٹے پارک جھولوں،ان کی سی سا اور دلچسپی کی دیگر کھیل تماشوں والی چیزوں سے سجا بڑا خوبصورت لگتا تھا۔۔یہاں چوبی شیڈوں جیسے پگوڈا نما چھجّے اپنی سنگی بینچوں کے ساتھ بوڑھوں لوگوں کے لیے بھی بڑی کشش کا باعث تھے۔ اکثر یہاں فارغ لوگ دھوپ تاپتے اور بچے بھی کھیلنے آجاتے تھے۔
ایک دن میں بھی گھومتے پھرتے وہاں جاپہنچی ۔دھوپ اتنی میٹھی، فضا میں خاموشی اور ماحول میں درختوں اور کہیں کہیں ان پر کھلے سفید اور گلابی پھولوں کا حُسن ماحول کی دلکشی کو چار چاند لگاتا تھا۔مزہ آرہا تھا۔ بینچ پر بیٹھ کر لُطف لینے لگی تھی۔

دفعتاً  تین پاکستانی خواتین نظر آئیں ۔ایک دوسری کے آگے پیچھے چلتی یہ سیدھی سادی کھلے ڈوپٹوں سے ناک منہ ڈھانپے، باتیں کرتی جب قریب پہنچیں تو جیسے ایک میٹھی سی اپنایت کا احساس اندر سے اُبھرا تھا ۔مسکرا کر میں نے حال احوال دریافت کیا تو پتہ چلا یہ پاکستانی سفارت خانے کے درجہ چہارم ملازمین کی بیویاں تھیں۔اُن کے بچے ایمبیسی ا سکول میں پڑھتے تھے۔ آج بچوں کی جلدی چھٹی ہونے کی وجہ سے گیا رہ بجے ہی وہ وہاں آگئی تھیں کہ اسکول بس بچوں کو یہیں اُتار کر آگے بڑھ جاتی تھی۔

تھوڑی سی مزید جانکاری نے بتایا کہ ایک کا تعلق پشاور ،دوسری بہاول پور اور تیسری راجن پور سے تھی۔ایک کا ڈھائی سالہ خوبصورت بچہ ایسا ذہین فطین کہ اِس عمر میں ایسی ہوشیاری اور ذہانت کم بچوں میں ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

عورتیں مزے کی تھیں ۔چین کے حوالے سے اُن کے اپنے تجربات تھے جنہیں سُننا دلچسپ تھا۔ایسی ہی باتوں میں دفعتاً سوکھینہ باجی کا ذکر آگیا۔سعدیہ کے گھر میں بھی کوئی چار پانچ بار اس نام کا  تذکرہ ہوا تھا۔ جانی تو بس اتنا سا کہ یہ ایراتاشی کی مسز ہیں۔

سوکھینہ بڑا منفرد سا نام تھا۔ مگر میری اس نام سے شناسائی ہوچکی تھی۔ کربلا میں حضرت عباسؓ علمدار کے روضہ مبارک کی زیارت کے لیے جارہی تھی۔دروازے پر رش کی صورت دیکھ سوچا کہ قیمہ بننے والی بات ہوجانی ہے اگر محبت بھرے جذبات کو لگام نہ ڈالی۔باہر کھلے میدان میں قالین بھی بچھے ہیں اور پنکھے بھی ہیں۔رنگ رنگیلی خلق خدا بھی موجود ہے۔چل رب کی دنیا دیکھ۔اُن سے باتیں شاتیں کر۔ آدھی رات کے بعد اندر جانا۔اور یہیں مشہد سے آنے والی فیملی کی بچی کا نام سوکھینہ سننے کو ملا۔پہلی بار سن رہی
تھی۔تعجب سے انہیں دیکھا۔اپنے بیگ سے کاغذ قلم نکال کر بچی کو تھمایا کہ لکھو تو ذرا۔
‘‘اوہو اسے تو ہمارے ہاں سکینہ بولا جاتا ہے۔’’
تصحیح ہوئی کہ غلط ہے۔یہ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی ادائیگی اسی طرح کی جانی چاہیے۔

خواتین کی باتوں سے ایک اور بات کا انکشاف بھی ہوا کہ سوکھینہ باجی بہت حسین ہیں۔سفارت خانے کی عورتوں میں کوئی ان کی ہم پلّا نہیں۔
میرے ہونٹوں پر صرف مدھم سی ہنسی بکھری۔لفظ میں نے بکھرنے نہیں دئیے کہ مخاطب عورتوں کو اس کی گہرائی جذب کرنی مشکل تھی۔ہاں میرا اپنا اندر ضرور محظوظ ہوا تھا۔
‘‘بھئی ایر فورس کے پائلٹ کی بیوی ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے۔یہ جنگی ہوا باز بیویوں کی خوبصورتی بارے بڑی ٹچی ہوتے ہیں۔حسن کے ساتھ دس بارہ شرائط کا کاغذ بھی ان کی جیب میں ہوتا ہے۔
ساٹھ ستّر کی دہائیوں میں ان شاہینوں کا کتنا کریز تھا۔ کوئی ہم سے پوچھے۔

باغبانپوررہ کی امیر ترین سیاسی منظر نامے پر بھی بڑی متحرک میاں فیملی کی صبیح نامی ایک لڑکی ہماری دوست اور کالج فیلو تھی۔اتنی ہی حسین تھی کہ جس کے لئے تشبیہیں، استعارے ناکافی ہوجاتے ہیں۔سیکنڈ ایر میں ہی شادی ٹھہر گئی اور وہ بھی ایرفورس کے پائلٹ سے۔لڑکا قد کا ذرا چھوٹا اور رنگت کا بھی ماٹھا تھا۔خاندان کی بزرگ خاتون نے دیکھا اور اعتراض کیا کہ ہیرے جیسی لڑکی کس کے پلے باندھ دی ہے۔بڑی بہن نے ہنستے ہوئے کہا۔
‘‘چاچی جی تہانوں پتہ اے منڈا فائٹر پائلٹ اے۔کڑی دی تے اڈی نیں لگدی پئی زمین تے۔صبیح کا شوہر یونس حسن، سرفراز رفیقی، سیسل چودھری جیسے لوگوں کا بیچ میٹ
تھا۔

تہمینہ کے بھانجے کا قصہ بھی بڑے مزے کا ہے۔میراج جیٹ فائٹر کی ٹرینیگ لے کر فرانس سے آیا تو خالہ کے ساتھ میرے ہاں بھی آگیا۔
‘‘لڑکی پھول جیسی ہونی چاہیے خالہ۔’’
اس کے سراپے پر پیار بھری نظریں ڈالتے ہوئے میں نے دل میں کہا۔
‘‘خود بھی شہزادوں جیسا ہے۔پھول مانگنے میں حق بجانب ہے۔تاہم مذاقاً کہا۔
‘‘اب یہ بتا دو کہ پھول گوبھی کا ہو یا گیندے کا۔’’
‘‘اف خالہ مذاق چھوڑیں ۔خاندان ماڈرن ہو،کھاتا پیتا بھی ضروری ہے۔لڑکی کی انگریزی آب رواں جیسی ہو۔سلیقہ مند ہو۔خود پسند ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔
تہمینہ اور میں دونوں ہنس پڑیں۔
تو بھئی اب سوکھینہ باجی کا بے مثل ہونا تو بنتا ہے نا۔

ایک تو بیچ میں کتنی ہی ادھر ادھر کی باتیں، یادیں چھلانگ مار کر کود پڑتی ہیں۔اصل کہانی جو سنانے لگی تھی وہ لٹکتی مٹکتی رہ گئی۔یہ تنگ شیاؤ سے ملنا تھا۔سوکھینہ باجی کی گلیمرس شخصیت کی دلدادہ خواتین جب اسکول بس سے اُترنے والے بچوں کے بستے پکڑ کر مجھے خدا حافظ کہہ کر چلی گئیں۔یکدم مجھے محسوس ہوا تھا جیسے ماحول میں سناٹا سا ہوگیا ہے۔اٹھی اور گھر آگئی۔سعدیہ نہیں تھی۔فاطمہ سے میں نے کہا ۔
‘‘اپنی ماں کے موبائل کی پکچر گیلری تو ذرا مجھے نکال کر دو۔’’
ڈھروں ڈھیر تصویریں تھیں۔اِن میں جو نمایاں تھی۔اندر نے کہا تھا۔یہی ہوسکتی ہے سوکھینہ۔
اور فاطمہ کی تصدیق پر میں نے خود کو شاباشی دیتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘واہ کیا بات ہے تیری۔’’

سعدیہ جب آئی تو تفصیلی رپوٹ اس کی خدمت میں پیش کی کچھ اِس انداز میں کہ صبح کا وقت میرے لیے وہاں گزارنا کتنا دلچسپ شغل تھا۔یہ بھی کچھ ڈھکے ،کچھ کھلے لفظوں میں واضح کردیا کہ بھئی اتنی سی آزادی کا ملنا تو بہت ضرری ہے نیز یہ سرگرمی میں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

چلو اُس کی بھی تسلی ہوگئی کہ اتنی آوارہ گرد اور پھراؤندو ماں کے لیے اتنی سی محفوظ تفریح نما سیر سپاٹا تو ضروری ہے۔ہاں سوکھینہ کے ذکر پر کھلکھلا کر ہنسی اور بولی۔‘‘صورت کے ساتھ دل کی بھی حسین ہے۔’’

اگلا دن بڑا بھاگوان تھا۔ سرشاری کی سی کیفیت میں باہر نکلی۔مطلوبہ جگہ پہنچی۔ کوئی نہیں تھا۔ سناٹا اور ویرانی تھی۔آج دھوپ بڑی ماٹھی اور ہواؤں میں بھی بڑی کاٹ سی تھی۔تھوڑی دیر بینچ پر بیٹھی ۔اوپر والے سے کچھ گٹ مٹ کی۔

پھر ذرا گھومنے پھرنے نکل پڑی ۔اِن عمارتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سفارت خانے بھی تھے۔اور یہیں گھومتے پھرتے میں نے اُسے دیکھا تھا۔ یہ مریم تھی۔گیمبیا کے سفارت خانے کی ملازم۔خوب گپ شپ رہی۔دفعتاً اس نے پوچھا۔
‘‘چین بارے کیا کہتی ہیں؟’’
‘‘ارے بھئی میری کیا اوقات کچھ کہنے کی۔یہاں تو دُنیا محو حیرت ہے۔’’
‘‘ٹھیک کہتی ہیں ایسا ہی ہے۔’’

اس نے سر ہلایا۔فون نمبر کا تبادلہ ہوا اور میں واپس اسی جگہ آبیٹھی کہ اب اُن میوہ جات سے کچھ شغل کروں جنہیں جیب میں بھر کر لائی تھی۔اور جب میں باداموں کو ایک پھکے کی صورت منہ میں ڈال رہی تھی میں نے اُسے دیکھا تھا جو کسی ڈرامائی کردار کی طرح نمودار
ہوئی تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ وہ مجھے کسی خدائی انعام کی طرح ہی ملی تھی۔ یہ چینی خاتون تنگ شیاؤ تھی جو کسی باد بہاری کی مانند آئی تھی۔سنگی بینچ پر بیٹھنے اور صرف چند لمحے مجھے گھورنے کے بعد اس نے خوبصورت لہجے والی انگریزی میں میرا نام اور کہاں سے ہوں پوچھا۔میرے اندر نے خوشی سے جیسے کلکاری ماری۔پاکستان کا سُنتے ہی اس نے بہت گرم جوشی سے میرا ہاتھ تھاما۔وہ پاکستان تین مرتبہ جاچکی تھی۔اجو کا اور پیرو تھیڑ سے واقف تھی بلکہ مدیحہ گوہر سے مل بھی چکی تھی۔
پھر ایک اور عجیب سی بات ہوئی۔اس نے ذرا راز داری سے پوچھا تھا۔
‘‘ آپ کا خدا پر یقین ہے۔’’ اِس بار میں نے گہری نظر سے اُسے دیکھا ۔

بیٹی اور داماد کی باتوں سے چینی لوگوں کے عقائد بارے جو کچھ بھی سُننے کو ملا تھا اس میں خدا تو کہیں نہیں تھا۔یہاں بہت گہری بات ہی اِس حوالے سے تھی۔چند لمحے اُسے خاموش مگر قدرے حیرت بھری آنکھوں سے تکتے رہنے کے بعد بولی۔
‘‘یقین کو تو پیچھے کرو۔میرا تو سب کچھ وہی ہے۔رگوں میں دوڑتے خون کی طرح۔ وہ عیسائی عقیدہ سے جڑی ہوئی تھی۔انگلینڈ کے دی چرچ اف گاڈ سے منسلک رضاکارانہ کام کرتی تھی۔ بے شمار ایوارڈ زاور انعام جیت چکی تھی۔Queen’s ایوارڈ بھی اُسے مل چکا تھا۔
لاؤ شی ٹی ہاؤس کے اوپیرا تھیڑ سے بھی وابستہ رہی تھی۔جب بقول اس کے اُسے ہدایت ملی تو زندگی کی پٹڑی بدل گئی۔ خدا سے جڑ گئی۔اس کے بندوں کی خدمت میں جت گئی۔
لاؤشی ٹی ہاؤس کے اوپیراسے تعلق کا سُن کر میں نے اُسے غور سے دیکھا تھا۔

شاید اس لیے کہ عمران کا اسی میں مجھے اوپیرا دکھانے کا پروگرام بھی تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے کہا۔ رقص و موسیقی اور آرٹ و ادب سے میری چار پیڑھیاں جڑی ہوئی ہیں۔میری نانی نے اپنی آنکھوں کا دان دیا۔اپنی جان نذرکی۔ماؤ کی بیوی اور اس کے کارندوں نے اُسے،اس کے شوہر ،اس کی دوست سبھوں کو سولی پر چڑھا دیا تھا۔
ماؤ سے بہرحال عقیدت اور شخصیت پرستی والا ایک رشتہ تو جڑا ہوا تھا۔لگا تھا جیسے اس کے لفظوں نے اس میں آناً فاناً دڑاریں ڈال دی ہیں۔اب کھوج کہ جانوں کہ جیل کیوں گئی اور اندھی کیسے ہوگئی؟
اور جب اِس خواہش کا اظہار ہوا تو بولی۔
‘‘میرے گھر آؤ گی تب تفصیل جانوگی۔’’

اس کا گھر وہیں قریب ہی تھا۔ میری بے تابانہ خواہش کے اظہار پر اس نے کہاکہ وہ کسی دن مجھے اپنے گھر لے کر جائے گی۔اس کی ایک ساڑھے چار سال کی بچی ہے جسے اس کی والدہ سنبھالتی ہے۔شوہر گذشتہ ہفتہ بھر سے کام کے سلسلے میں جنان Jinan گیا ہوا ہے۔ یہ یقینا چین کا کوئی شہر ہوگا ۔ قیاس خود ہی کرلیا تھا ۔
میں نے اُسے آئس کریم کی دعوت دی۔مارکیٹ زیادہ دور نہ تھی۔یہاں میں سعدیہ کے ساتھ دو تین بار آچکی تھی۔روسی سپر سٹور تھا۔روسی لڑکیاں انگریزی میں کچھ دال دلیہ کرہی لیتی تھیں۔آئس کریم کھاتے ہوئے میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مجھے پرانے بیجنگ اور اس کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کی جھلکیاں دکھانے میں مدد دے سکتی ہے؟ اس کے اظہار میں میری ہچکچاہٹ کے ساتھ ساتھ کچھ ڈھکے چھپے اور کچھ کھلے لفظوں میں یہ پیشکش بھی تھی کہ میں اس کی خدمات کا ایک مناسب سا معاوضہ بھی دینے کو تیار ہوں۔
اُس نے اِسے سمجھا اور اطمینان بھرے لہجے میں بولی۔

جس مذہب سے میں وابستہ ہوئی ہوں۔وہ صرف انسانوں کی خدمت کے لیے کہتا ہے۔ تم بوڑھی بھی ہو اور لکھاری بھی۔میرے ملک پر لکھنے کی خواہش مند ہو۔مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ پرانے بیجنگ میں اگر تم نے لاؤ شی ٹی ہاؤس نہ دیکھا تو پھر کچھ بھی نہ دیکھا اور لاؤشی جیسے عظیم لکھاری اور فنکار بارے کچھ نہ جانا ۔اور ہاں آپ نے میری نانی وانگ نینگ اور چین کی سدا بہار مترنم گلوکارہ چھانگ چھوان بارے بھی کچھ نہ پڑھا یا نہ سُنا تو پھر بھلا چین آنے کا فائدہ ؟اُن کی کہانیاں سُن یا پڑھ کر آپ کے دل سے درد نہ اٹھایا آپ کی آنکھ سے چند آنسو نہ ٹپکے تو پھر بھلا چین آنے کافائدہ؟
اُس کی باتوں نے مجھے دم بخود کردیا تھا۔میں ہڑبٹر اس کا چہرہ دیکھتی تھی۔اس نے میرے چہرے پر پھیلے ہونق پن اور حیرت کو دیکھا اور بولی۔
چین کی تاریخ اِن ناموں کے بغیر ادھوری ہے۔ظلم جبر آمریت کے تندوتیز اندھے بگولوں میں لپٹے یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سچ کے لیے آواز اٹھائی۔ان کے بارے پڑھنا،سننا تو بہت ضروری ہے۔اور میں اِس کام میں آپ کی جی جان سے مدد کروں گی کہ یہ تو میرا فرض ہے۔
اس کی باتوں سے میری تو روح تک سرشاری میں بھیگ گئی۔
‘‘اف اللہ۔احسان عظیم تیرا۔’’تو کیسا مسبب الاسباب ہے۔چلتے چلتے میں نے اس سے یہ بھی التجا کی کہ وہ میرے گھر آئے۔میری بیٹی اُس سے مل لے گی تو اس کی بھی تسلی ہوجائے گی۔اوکے کہتے ہوئے وہ جس خوشدلی سے مسکرائی جی اس پر قربان ہونے کو چاہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply