شاندار دور سے نازک دور تک/مظہر اقبال کھوکھر

وطن عزیز میں ہر نئی حکومت کے بعد ایک نئے اور شاندار دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد نازک دور شروع ہوجاتا ہے۔ ہر نئے آنے والے حکمران ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری حکومت آنے سے ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہی حکمران نازک دور کی گردان شروع کر کے عوام کی گردن دبوچ لیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر نازک دور عوام کے لیے ہے اور ہر شاندار دور حکمرانوں کے لیے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔ جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ حکمران جب کہتے ہیں کہ شاندار دور کا آغاز ہوچکا ہے تو در حقیقت اپنے بارے میں کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کہ ہمارے شاندار دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ جبکہ عوام کے لیے تو نازک دور ہے جس کا تاوان وہ گزشتہ 75 سال سے ادا کر رہے ہیں۔

زیادہ دور نہیں جاتے۔ یہی کوئی دس ماہ پہلے اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد 14 جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ پی ڈی ایم نے حکومت بنائی۔ تو قوم کو بتایا گیا  کہ پاکستان تحریک انصاف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا تھا۔ پی ٹی آئی کی نا تجربہ کاری نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اگر ہم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت ختم نہ کرتے تو حالات کہیں زیادہ سنگین رخ اختیار کر سکتے تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے رہنما پی ڈی ایم کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ملک انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کھربوں روپے کے قرض لے کر ایک بھی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔ ملک آج تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی خسارے سے دوچار ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں مزدور کی تنخواہ کم از کم 25 ہزار اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کرنے کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو مزید وسعت دینے اور تعلیمی وظائف کو اس کے ساتھ منسلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ہماری حکومت کے حلف اٹھاتے ہی ڈالر کی قدر میں 8 روپے کمی آئی ہے۔ جو کہ معیشت میں بہتری کی طرف مثبت اشارہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت آنے کے بعد معیشت کی بحالی ، ترقی اور خوشحالی کے نئے اور شاندار دور کا آغاز ہوا ہے۔

مگر آج دس ماہ بعد جو ڈالر 8 روپے کم ہوا تھا۔ وہ 80 روپے بڑھ چکا ہے۔ حکومت نے سستا آٹا فراہم  کرنے کے جو دعوے کیے تھے آج سستا آٹا ملنا تو درکنار، آٹا ملنا بھی محال ہو چکا ہے۔ بے چارے غریب عوام 10 کلو کے تھیلے  کیلئے دس دس گھنٹے ذلیل ہوتے ہیں۔ جس مزدور کی تنخواہ 25 ہزار کرنے کا اعلان کیا گیا تھا وہ آج روزگار سے ہی محروم ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم جس معیشت کی بحالی کے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اس کی بدحالی کا یہ عالم ہے حکومت پوری کی پوری آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن تسلیم کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 70 سے 80 روپے اضافہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ جس مہنگائی کے خاتمے کے نام پر وہ اقتدار میں آئے تھے اس مہنگائی میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ کورونا جیسے بحران کے دوران بھی اس طرح کی اذیت ناک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جس طرح کی سنگین صورتحال کا آج سامنا ہے۔ شاندار اور نئے دور کے آغاز کا دعوے کرنے والے حکمران آج کہہ رہے ہیں ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ قوم کو قربانی دینی ہوگی۔

گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات آخری مراحل میں ہیں۔ امید ہے اگلے چند روز میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا جائے گا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ عالمی ادارے نے تمام سبسڈیز کم کر دی ہیں۔ جس کا بوجھ غریب پر پڑے گا۔ غریب اور سفید پوش طبقے نے پہلے بھی بہت قربانیاں دی ہیں۔ یعنی ایک بار پھر حسب روایت غریب کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ تو حکمران اپنی عیاشیاں کم کیوں نہیں کرتے۔ قومی خزانے کی کشتی سے 85 رکنی کابینہ کا بوجھ کیوں نہیں اتار دیتے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم جب وزراء سے لگژری گاڑیاں واپس لینے ، غیر ملکی دوروں کو محدود کرنے اور بجلی گیس کے بل جیب سے دینے کے بلند بانگ دعوے کر رہے تھے ۔ اس وقت بھی انھوں نے کابینہ کو مختصر کرنے کے معاملے کو ایک ماہ کے لیے موخر کر دیا۔ یعنی ملک نازک دور سے گزر رہا ہے عوام قربانی دے مگر ہم حکمران قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

در حقیقت یہ نازک دور عوام کے جذبات سے کھیلنے کا ایک ناٹک ہے۔ جس کا رونا رو کر وہ نت نئے ٹیکسز کے ذریعے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ تاکہ ان کا شاندار دور مزید شاندار ہوجائے۔ کیونکہ یہ جب ایک بار اقتدار میں آجائیں ان کی سات نسلیں سنور جاتی ہیں اور عوام کی سات پشتیں مقروض ہوجاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نازک دور کے نام پر قربانی دینے والے عوام جب تک متحد ہوکر اشرافیہ سے قربانی نہیں لے گی اس وقت تک نہ تو حکمرانوں کا شاندار دور ختم ہوسکتا ہے اور نہ ہی عوام کو نازک دور سے نجات مل سکتی ہے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply