ذرا دھیان سے۔۔گل نوخیز اختر

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ مذاق پسند نہیں کرتے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے بس سنجیدہ بات کی جائے اور جب آپ ان سے پوری سنجیدگی سے کوئی بات کرتے ہیں تو جواباً وہ بھی پوری سنجیدگی سے ایسی بونگی مارتے ہیں کہ سامنے والے کے لیے ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

میرے ایک دوست کو مجھ سے بہت شکوہ ہے کہ میں ہر وقت کیوں قہقہے لگاتا ہوں، بندے کو کسی وقت سنجیدہ بھی ہو جانا چاہیے۔ سو پچھلے ہفتے میں نے طے کیا کہ کم از کم موصوف کے ساتھ پوری سنجیدگی سے گفتگو کرنی ہے۔ ایک کھانے پر ملاقات ہوئی تو میں نے پوری سنجیدگی سے کہا ’السلام علیکم‘۔ اُس نے گھور کر مجھے دیکھا ’پھر وہی حرکت‘۔ میں نے بوکھلا کر کہا ’حضور میں نے سلام کیا ہے‘۔ اُس نے جواب دینے کی بجائے سر ہلا دیا۔ میں نے اپنی کرسی اس کے پاس گھسیٹی’گرمی کچھ زیادہ نہیں ہو گئی؟‘۔ اس نے پوری متانت سے جواب دیا ’ہاں لیکن اس کی وجوہات وہ نہیں جو عام لوگ سمجھ رہے ہیں‘۔ میں چونکا ’کیا مطلب؟ کیا وجوہات ہیں؟‘۔ اُس نے نہایت مدبرانہ اور نپے تلے انداز میں میری طرف گردن گھمائی’1998میں پاکستان نے جو ایٹمی دھماکے کئے تھے، ان کے مالیکیول، پروٹان میں تبدیل ہوکر نیوٹران کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے سورج کی شعاؤں سے الیکٹران پیدا ہورہے ہیں‘۔

پہلے تو اس کی بات سنتے ہی میں چکرا گیا۔ پھر سوچا مجھے کون سا سائنس کا کوئی علم ہے لیکن زیادہ جھٹکا اس لیے بھی لگا کہ موصوف کا بھلا سائنس سے کیا رشتہ؟ ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ آپ کو یہ اتنی مشکل سائنس کیسے سمجھ آئی؟ قبلہ نے اپنے کف لنک ٹھیک کئے اور تھوڑا سا کھنکار کر فرمایا ’تمہیں شاید پتا نہیں میں نے میٹرک میں سائنس پڑھی تھی‘۔ یہ سنتے ہی دل کو گونا گوں اطمینان ہوا کہ بہرحال میں ایک سائنسدان سے بات کر رہا ہوں۔

میں نے اگلا سوال کیا لیکن ایٹمی دھماکے تو بیس سال پہلے ہوئے تھے اور… اُس نے میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی غصے سے میرا کندھا دبایا اور کہا ’پہلے سائنس کا کچھ علم حاصل کرو‘۔ میں سہم گیا۔ بات تو ٹھیک تھی۔ اگرچہ میں نے بھی میٹرک میں سائنس ہی پڑھی تھی لیکن نہ مجھے یہ یاد رہا تھا کہ کیمرے کا شٹر کتنی دیر میں بند ہوتا ہے، نہ مینڈک کا نظام ذہن میں تھا، نہ امیبا اور نہ کیمسٹری والا کوئی فارمولا۔ لہٰذا خاموشی اختیار کی۔

سنجیدہ طبع لوگوں کی اکثریت کا دماغی توازن ہم سے اوجھل ہوتا ہے۔ یہ چونکہ زیادہ بولتے نہیں اس لیے بظاہر دانشور ہی لگتے ہیں۔ یہ حسِ مزاح سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ انہیں اگر تھوڑی سی ہنسی آتی بھی ہے تو اُس جملے پر جس میں ہنسنے والی دور دور تک کوئی بات نہیں ہوتی۔ آپ انہیں لاکھ لطیفے سنالیں یہ نہیں ہنستے لیکن عین ممکن ہے اگر آپ ان کے سامنے کہیں کہ ’کئی دفعہ تو عین کپڑے استری کرتے وقت بجلی چلی جاتی ہے‘۔ تو اس جملے پر یہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ چونکہ ان میں حسِ مزاح نہیں ہوتی لہٰذا یہ طنز بھی سمجھ نہیں پاتے۔

بیس پچیس سال پہلے میرے ایک لیچڑ قسم کے مالک مکان ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ وہ بھی ٹپک پڑے۔ میں نے ان کا تعارف کرایا کہ یہ میرے مالک مکان ہیں اور ان کا اللہ مالک ہے۔ انہوں نے عاجزی سے ماشاء اللہ کہتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے میرا شکریہ ادا کیا۔ سنجیدہ لوگ جملے کی نزاکت کا مزا لینے سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ انہیں صرف دو جمع دو والی سیدھی بات سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی عقل سے ماورا تھوڑی سی بات بھی انہیں حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

ایک دفعہ میں نے گاڑی میں مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل لگا رکھی تھی ’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں…میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا‘۔ ساتھ میرے ایک کولیگ بیٹھے تھے۔ گہری سانس لے کر بولے ’اِس قسم کی واہیات اور جھوٹی چیزیں مت سنا کریں بھلا کوئی مرکر بھی کسی کو چاہ سکتا ہے، مرنے کے بعد تو انسان قبر میں چلا جاتا ہے اور اللہ معاف کرے وہاں کسی کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ دنیا والوں کو یاد کرے‘۔ انہی صاحب کے ساتھ مجھے ایک دفعہ مسٹر بین کی فلم دیکھنے کا بھی اتفاق ہو چکا ہے۔ ساری فلم کے دوران موصوف ہنسنا تو درکنار، تبسم کے کمزور ترین درجے پر بھی فائز نہیں ہوئے۔ الٹا میرے قہقہے بلند ہوتے دیکھ کر ناگواری سے منہ بناتے رہے۔ فلم ختم ہوئی تو میں نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کرنا چاہا لیکن ریموٹ کے سیل کمزور تھے لہٰذا مجھے ریموٹ کو ایک دو دفعہ ہاتھ سے کھٹکھٹانا پڑا۔ یہ عمل دیکھ کر قبلہ نے بے اختیار اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔اس قسم کے نمونے صرف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کوئی بھی بات کرتے ہوئے بس چہرہ بے تاثر ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، کسی دفتر میں ہوں تو ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اپنا کام پوری سنجیدگی سے سرانجام دیتے ہیں حالانکہ ان کی اکثریت مکھیاں مارنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہے لیکن کوئی انہیں اس لئے بھی کچھ نہیں کہتا کہ یہ بھی کسی کو کچھ نہیں کہتے۔عموماً ان کے گہرے دوست بھی ان جیسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے دوستوں کے ساتھ تین تین گھنٹے بھی بیٹھے رہیں تو ٹوٹل گفتگو 2MB سے بھی کم ہوتی ہے۔جو انسان ’مسکرانےکی صلاحیتوں‘ سے محروم ہیں انہیں صرف سنجیدہ کہلوانے کا شوق ہوتاہے۔ بعض اوقات ایسے لوگ اپنی بے عقلی اور لاعلمی پر سنجیدگی کا نقاب اوڑھے زندگی کا طویل عرصہ گزار دیتے ہیں لیکن کبھی نہ کبھی کوئی لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب انہیں مجبوراً کچھ بولنا پڑ جاتاہے اور جونہی یہ بولتے ہیں کھوتا کھوہ میں جاگرتاہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply