Charisma کا طلسم۔۔امر جلیل

اگر آپ میرے فاسٹ بالر کے سخت مخالف ہیں، اور اس کانام سن کر غصہ سے بے قابو ہوجاتے ہیں، پھر بھی آپ بے خوف میرا آج کاقصہ پڑھ سکتے ہیں۔ گھبرا کر آپ اپنا یا کسی اور کا سر نہیں پھوڑیں گے۔اگر آپ عمران خان کے کٹر حامی ہیں، اس کو دل وجان سے پسند کرتے ہیں، اس پر مرمٹنے کوتیار رہتے ہیں، تو پھر آپ بے دھڑک آج کا قصہ پڑھیں اور اپنیHero-worship یعنی شخصیت پرستی پرناز کریں۔ فخر سے سر اونچا کرکے دنیا کو بتاتے پھریں کہ آپ ایک لائق اور فائق شخص کی پرستش کرتے ہیں۔اس موضوع پر پچھلی ایک ڈیڑھ صدی کے دوران لاجواب ادب،قصے، کہانیاں، افسانے، ناول لکھے گئے ہیں۔ اس ادب کا مرکزی نکتہ ایک ہے۔ جب آپ اپنی پسندیدہ شخصیت کی پرستش کرتے ہیں،یعنی آپ اپنی پسندیدہ شخصیت کے لیے والہانہ عقیدت اور جنونی وابستگی سے آگے نکل جاتے ہیں تب آپ لامحالہ، انجانے میں اپنے ہیرو کی ورشپ کرنے لگتے ہیں۔ آپ اپنی پر ستش میں کسی قسم کی مخالفت قبول نہیں کرتے، اگر کوئی آپ کے ہیرو کی غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے، توآپ برداشت نہیں کرسکتے۔

آپ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ دنیا کے ہر شخص سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ہر شخص میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ مگر جب آپ ہیرو ورشپ کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، تب آپ اپنے ہیرو کو خامیوں سے پاک، صرف خوبیوں اور اعلیٰ خصلتوں کا پیکر سمجھنے لگتے ہیں۔ آپ اپنے تئیں، اپنے ہیرو کو انسانوں سے بالاتر مرتبے پر بٹھا دیتے ہیں۔ آپ طے کرلیتے ہیں کہ آپ کے ہیرو سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی۔ اس ادب میں ایسی ایسی برگزیدہ ہستیوں کے زوال کی کہانیاں پنہاں ہیں جن کو پوجا جاتا تھا۔ اس ادب میں ایسے ایسے ہیروز کے قصے ہیں جو آخر میں ولنVillianیعنی منفی کردار ثابت ہوتے ہیں۔ میں ادب کے زیادہ پنے نہیں پلٹتا ،آپ کو زیادہ پیچھے لے جانا نہیں چاہتا۔ کل کی بات کرتا ہوں۔ ایڈوولف ہٹلر کا حوالہ دیتا ہوں۔ لوگ ہٹلر کو پوجتے تھے۔ آخر میں وہ لاکھوں لوگوں کا قاتل نکلا۔

ہر شخص سپر ہیرو نہیں ہوتا۔ ہرہیرو کو بے دریغ جنونی چاہت نصیب نہیں ہوتی۔ ہیرو ورشپ کی سطح تک پہنچنے والے ہیروز میں بے پناہ خداداد کشش ہوتی ہے۔ ایسی کشش کے لیے انگریزی ادب میں ایک لفظCharismaمروج ہے۔ قطعی ضروری نہیں کہ کیرزما کے لیے آپ خوبرو ہوں، لحیم شحیم ہوں۔ لوگوں کے ہجوم میں نمایاں نظر آتے ہوں۔سب سے علیحدہ اور نمایاں لگتے ہوں۔ اپنی جداگانہ شخصیت کی وجہ سے آپ پہچانے جاتے ہوں۔ اپنے لیے الگ تھلگ مقام بنالیتے ہوں۔مگر کیرزما کا طلسم آپ کی دسترس سے دور ہوگا۔ آپ اپنا کیرزما اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔

انڈین فلم انڈسٹری میں تقسیم ہند کے آس پاس ایک ایسا غیر معمولی سنہری دور آیا تھا جس پر تین سپر ہیرو راج کرتے تھے۔ دیوآنند،دلیپ کماراور راج کپور۔تینوں ہیروز ہینڈسم تھے۔ اعلیٰ اداکاری کا بھنڈار تھے۔ کہانی اور موضوع کے لحاظ سے بہترین فلمیں راج کپور اور دیوآنند کے حصے میں آئی تھیں مگر شہرت اور ہر دلعزیزی میں دلیپ کمار اپنے ہمعصر راج کپور اور دیوآنند سے کوسوں آگے تھے۔ دلیپ میں غیر معمولی کیرزما تھا۔ پورے برصغیر کے مرد اور خواتین کے دل ودماغ پرچھائے ہوئے تھے۔ ان کو دنیا بھر میں دلیپ کمار سے بڑا اداکار دکھائی نہیں دیتا تھا۔

دلیپ کمار کا کیرزما ایسا تھا کہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لاتعداد لوگ راستے روک دیتے تھے۔ ٹریفک جام ہوجاتی تھی۔ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشنز، روڈ راستے بلاک ہوجاتے تھے۔ کیرزما کا طلسم دلیپ پر قدرت کی دین تھا۔ دلیپ نے آخری سانسوں تک قدرت کی غیر معمولی دین کی حفاظت کی تھی۔ کبھی بھی قدرت کے عطیے کوداغ لگنے نہیں دیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ برصغیر کے لوگ ان کو پوجا کی حد تک چاہتے ہیں۔ مگر دلیپ نے کبھی اپنے آپ کو بھگوان نہیں سمجھا تھا۔

عمران خان میں کیرزما ہے۔ لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کشش ہے۔ ان کے جلسہ گاہ جذبہ اور جنون سے لبریز حامیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ وہ بے قابو ہوکر نعرے لگاتے رہتے ہیں۔اچھلتے کودتے رہتے ہیں۔ متوالے حامی تصور تک نہیں کرسکتے کہ ایک انسان ہونے کے ناطے عمران خان سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ عمران خان سے کبھی کوئی بھول چوک ہوسکتی ہے۔اس کی پرستش کرنے والے نہیں مانتے کہ عمران خان کبھی کوئی غلط فیصلہ کرسکتے ہیں۔ وہ یعنی عمران خان جب بھی بولتے ہیں، سچ بولتے ہیں۔ وہ سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔ کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرتے، کبھی کوئی غلط کام نہیں کرتے۔

عمران خان کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ جہاں سے اور جس صفحہ سے آپ اسے پڑھنا چاہیں، پڑھ سکتے ہیں۔ ہیرو کی پرستش کرنے والے اپنے ہیرو کوانسانوں کے زمرے سے بلند کرکے بھگوان بنادیتے ہیں۔ یہ سب کچھ عمران خان کے ساتھ سیاست میں آنے کے بعد ہوا ہے، لوگ ایک کھلاڑی سے سیاست میں ویسی ہی کارکردگی کی امید لگا لیتے ہیں جیسی کارکردگی وہ کھیل کےمیدان میں دکھاتا تھا۔ یہیں سے کرشماتیCharismatic ہیرو کا زوال شروع ہوتا ہے۔

فضل محمود پاکستانی کرکٹ کے زبردست   کرشماتی کھلاڑی تھے۔ بطور محاورے کے لوگ ان پرمرتے تھے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اور ان کا آٹو گراف لینے والوں کے بے پناہ ہجوم میں  راستے بند ہوجاتے تھے۔ فضل محمود کی غیر معمولی شہرت دیکھ کرکسی سیانے نے ان کو سیاست میں گھسیٹ کرملک کا وزیر اعظم بننے کا چکر نہیں دیا تھا۔ وہ کھلاڑی تھے۔ اور آخری دم تک کھلاڑی رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہندوستان میں چاہنے والے سچن ٹنڈولکر کو کرکٹ کا بھگوان مانتے ہیں۔ مگر آج تک کسی سیانے سوداگر نے سچن کوسیاست کا میدان مارکر وزیراعظم بننے کا جھانسہ نہیں دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے میرے بھائیو اور بہنو۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply