سفر نامہ:بصریٰ۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط30

عباس کا شکریہ کہ اُ س نے مزریبMzcireeb جھیل دکھائی۔ شہر سے کوئی دس بارہ میل پر بڑا خوبصورت تفریحی مقام تھا۔ بڑی رونق تھی یہاں خاندان کے خاندان پکنک منانے آئے ہوئے تھے۔ ریسٹورنٹ بھی تھا۔ کچھ کھانے کو جی مچلنے لگا تھا۔ آئس کریم لی۔
شُھبShihabمزریب سے کوئی چارکلو میٹر پر ہوگا۔ زرخیز ہموار اور خوبصورت نظاروں سے مالا مال۔ گئے وقتوں کے ٹوٹے پھوٹے محل کی دیواریں، ستون کہیں کمرے کوٹھڑیاں موجود تھیں۔ پتہ چلا تھا کہ مقامی حکومت نے آغا خان فاؤنڈیشن کے تعاون سے اِن اثاثوں کو محفوظ کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ چلو اِن کی حکومتوں نے کچھ تو کیا۔ ہماری کو تو توفیق ہی نہیں کہ کبھی اپنی یادگاروں پر بھی نظر ڈال لیں۔ کبھی آل اولادوں کو دکھانے اور خود دیکھنے   آئیں تو پتہ چلے کہ گُجر ہمسائیوں نے تاریخی در ودیواروں کو پاتھیوں کے ہار پہنا رکھے ہیں۔

عباس کی ایک بات نے مجھے بیتاب کر دیا تھا۔ بے چین کر دیاتھا۔یہاں کچھ آبشاریں، خوبصورت مناظر ہیں۔ فاصلہ بھی زیادہ نہیں اور وہیں قریب ہی وہ جگہ ہے جہاں جنگ یرموک لڑی گئی۔ اُن عظیم اور فیصلہ کُن جنگوں میں سے ایک جنہوں نے مسلمانوں کو اِن خطوں کے نئے حکمران بنانے کے لئے مہریں ثبت کیں۔

اب کہیں ممکن تھا کہ جوش واضطراب میں اضافہ نہ ہواور اس مقام کو دیکھنے کی خواہش بپھر کر سر پر سوار نہ ہوجہاں اُس عظیم سپہ سالار خالد بن ولید نے تاریخ رقم کی تھی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے عرب کا صحرا شروع ہوتا ہے۔آنکھوں کے سامنے تصویریں تھیں اُن شہہ سواروں، اُن جیالوں کی جو آندھی اور طوفان کی طرح اِن صحراؤں سے اُٹھے تھے اور اِن جہانوں پر چھا گئے تھے۔ سچی بات ہے دل رقیق سا جذبات کی پھوار میں بھیگ رہا تھا۔ یو ں بازنطینی بھی کچھ کم سورما نہ تھے مگر فطرت کے عروج وزوال کی حکمتیں ہمیشہ نئے انداز، نئے رنگ وآہنگ، نئے سُر وساز کے ساتھ دنیا کو ایک نئی صورت دینے کے لئے میدا ن میں اُتر رہی تھیں۔

شُھب میں نظارے ہی نظارے ہیں۔ آبشاریں ایک د و کیا کئی تھیں۔ کہیں ان کے دامنوں میں رومن واٹر ملز تھیں۔ قریب ہی زی زونZeizoun بھی۔عباس زور دے کر لے گیا کہ چل کر دیکھو تو سہی۔ واقعی مزہ آیا۔ کافی پینے اورفوا بینزFawa Beansکھانے کا۔ چٹنی بھی مزے کی تھی۔ پتہ چلا تھا کہ کجھوروں سے بنتی ہے اور اسے دیبیسDibis کہتے ہیں۔

Jebel el-Druze and Hauran. Basra Eski Sham. General view of the city from the Citadel – Date Created/Published: 1938 April. – Library of Congress, Prints & Photographs Division, Matson (G. Eric and Edith) Photograph Collection – Reproduction number: LC-DIG-matpc-03728 (digital file from original photo) – Rights Advisory: No known restrictions on publication.

بصریٰBosra کے لئے اضطراب ہی نہ تھا۔انتہائے شوق تھا کہ یہ بصریٰ ہی تو تھا سرسبز ہرا بھرا، پانی کے چشموں اور کنوؤں والا کہ جہاں عرب کے تپتے صحراؤں کی بادِ سموم سے جلتی لوگوں کی آنکھیں،ان کے ہونٹ اور اندر یہاں آکر سیراب ہوتے تھے۔تاہم عباس نے بُصریٰ بار ے وہ کہانی سنا دی تھی کہ جس نے بچپن سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ اب کانوں کا سائیں سائیں اور دل کا دھڑ دھڑ دھڑکنا تو بنتا تھا نا۔اور وہ تھا کہ گائیڈوں کی طرح اِدھر اُدھرکی باتوں سے یاؤ بھر لسی کورِڑک رِڑک کر اُ س کا کجا بنا نا چاہتا تھا۔

کیا کروں؟ سن لیا نا بھئی کہ بُصریٰ تاریخی لحاظ سے شام کے مشہور ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اب اِسے چھوڑیں۔یہاں رومیوں اور یونانیوں کی یادگاریں ہیں اسے بھی ایک طرف رکھیں۔اس کا رومن ایمفی تھیڑ دنیا کے بہترین شاہکار تھیڑوں میں سے ایک ہے۔ٹھیک ہے بھئی ہوگا۔ دیکھیں گے اُسے بھی۔
اِن سب تاریخی حقائق سے قطعی انکار نہیں۔مگر میں کیا کروں؟ مجھے تو سب سے پہلے مبارک مسجد جانا ہے۔جہاں میرے اُس جان جگر شہزادے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی شام کے سفر کے دوران بیٹھی تھی۔تب وہ میرا شہزادہ صرف بارہ تیرہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ آیاتھا۔اُس خانقاہ کو بھی دیکھنے کے لئے میں مری جارہی تھی۔
”تو بھئی لے چلو وہاں جہاں دلبر کی مہر نبوت کی تصدیق نستوری عیسائی پادری بحیریٰ نے کی تھی۔“

علی ظہر کی نماز پہلے ادا کرنے کا خواہش مند تھا۔وہ قریب کی فاطمہ مسجد میں چلا گیا۔ مسجد کوئی بارہویں صدی کی تعمیر ہے۔باہر سے مینار کی خوبصورتی نظروں کو لبھاتی ہے۔ کھیتڈرل اور مسجد قریب قریب ہی ہیں۔
مسجد اور کھیتڈرل دونوں بعد میں۔پہلے وہاں جہاں میرا دل۔بحیریٰ کی مناسٹری تک جانے کے لئے جتنے بھی قدم اُٹھائے اُن میں گنگناہٹ تھی۔میری آنکھیں ہیں وہاں میرا دل ہے جہاں۔دائیں ہاتھ بلند و بالا پتھروں کی بنی کہیں کہیں سے شکستہ سی مشرقی تعمیری نمونے کی حامل عمارت۔بظاہر کچھ خاص خصوصیت، کچھ انفرادیت نظرنہیں آئی تھی۔مگر یہ بصرٰی کیا،شام کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے بے حد تقد س والی جگہ تھی۔بادی النظر میں عام سی مگر بے حد خاص سی۔ میرے تصور کی اڑانیں دور کہیں راستے کی لو برساتی دوپہر میں بادل کے ایک ٹکڑے کو اس بچے کے سر پر تنا دیکھتی تھیں۔کہیں اُس درخت کی شاخوں میں پھنسی تھیں جس کی چھاؤں میں وہ سرخ و سفید بارہ سالہ لڑکا آکر بیٹھا تھا۔ جس کے لئے شاخیں جھک گئیں اور بادل کا ٹکڑا اس پر ٹھہر گیا تھا یوں چھاؤں گھنی ہو گئی تھی۔سارے منظر ایک کے بعد ایک نگاہوں کے سامنے جیسے رقص کرتے تھے۔
یہ خانقاہ نسل در نسل راہبوں کے لیے مخصوص تھی۔یہاں بے حدقدیم تحریری مخطوطات جن میں پرانی دستاویزات،تورات اور زبور کے انتہائی قدیم نسخے موجود تھے۔ یہ انتہائی قیمتی مذہبی اثاثہ خود بخود ایک راہب کے مرنے کے بعد اس کے جانشین کی نگرانی میں چلا جاتا تھا۔انہی قلمی نسخوں میں سے ایک میں عربوں میں ایک بنی کے معبوث ہونے کا ذکر تھا۔بحیریٰ اِس مخطوطے کا مطالعہ کرچکا تھا اور ورقہ بن نوفل کی طرح اُسے بھی یقین تھا کہ اُس نبی کی پیدائش اس کی زندگی میں ہی ہوگی۔

Jebel el-Druze & Hauran. Basra Eski Sham. The Roman theatre within the castle, looking S. 1938, Syria, Bu?rá al-Sham

اور اُس دن جب عرب کا وہ ماہ کامل سفر میں تھا اور خانقاہ کا موجودہ راہب بحیریٰ اپنی خانقاہ سے باہر کھڑا دورسے آنے والے قافلے کو دیکھتا تھا جو بس کسی لمحے میں خانقاہ کے پاس ہی پڑاؤکیلئے رکنے والا تھا۔اُ س نے تعجب سے بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو مسلسل ایک بچے اور ساتھ ایک معمر مرد پر سایہ فگن دیکھا۔درخت کے نیچے بیٹھنے پر بادل کے ٹکڑے کا درخت پر ٹھہر جاناسب بحیریٰ کے لئے اُس کہانی کا عنوان بن رہا تھا جو اُس نے پڑھ رکھی تھی۔

”تو کیا اُس کا ظہور ہو چکا ہے اور وہ قافلے میں موجود ہے۔“ بحیریٰ نے خود سے سوال کیا تھا۔
یہ بھی محض اتفاق ہی تھا کہ چند دن پہلے خانقاہ میں کھانے پینے کا بہت سا سامان آیا تھا۔ اُس نے قافلے کو پیغام بھیجا۔
”قریش کے لوگوں میں نے تمہارے لئے کھانے کا اہتمام کیا ہے۔میری خواہش ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس دعوت میں شامل ہو۔“
قافلے والے دعوت میں آئے مگر اس بچے کو اونٹوں اور سامان کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑ دیا۔
بحیریٰ نے آنے والے ہر شخص کو بہ نظر غائر دیکھا۔مگر کسی چہرے پر، کسی وجود میں اُسے وہ خاص خصوصیت نظر نہ آئی جو کِسی معجزے کی اہل ٹھہرتی۔
اُس نے بلند آواز میں استفسار کیا۔
”اے اہل قریش میں نے تم سب لوگوں کو مدعو کیا تھا۔کیا سب لوگ آئے ہیں یا کوئی رہ گیا ہے؟“
”ہاں ایک بچہ جسے نگرانی کے لئیے چھوڑ کر آئے ہیں۔“مجمع میں سے کسی نے کہا۔
بحیریٰ فوراً بولا۔”یہ تو قطعی مناسب نہیں۔اُسے بھی لے کر آؤ۔ہمارے ساتھ کھانے میں وہ بھی شامل ہو۔“
ایک آدمی گیا اور بچے کو لے کر آیا۔
بحیریٰ کی صرف ایک ہی نظر اُسے یہ یقین دلانے کو کافی تھی کہ جس معجزے کا اس نے مشاہدہ کیا تھا وہ سو فی صد درست تھا۔بچے کے چہرے پر نور کی لَو دمکتی تھی۔کھانے کے دوران اس کی آنکھیں بچے کا توجہ سے جائزہ لیتی رہیں۔
اُس نے محسوس کیا تھا کہ بچے کے خدوخال اور اس کا جسم کتاب میں دئیے گئے حلیے کے عین مطابق ہیں۔جب کھانے  کا مرحلہ ختم ہوا تو راہب اٹھ کر اپنے سب سے کم عمر مہمان کے پاس جابیٹھا اور چند سوال کیے۔بچے کے جواب دینے کا انداز دل نشین تھا۔شائستگی کے حُسن کا رچاؤ تھااس میں۔بولتے ہوئے لہجے میں متانت کا بھرپور تاثر نمایاں ہوتا تھا۔
دفعتاً راہب نے بچے کی عبا کاندھے سے اُتار کر پیٹھ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔بچے نے کِسی جھجھک کا اظہار نہیں کیا کہ راہب ایک معزز اور برگزیدہ انسان تھا۔گو راہب کو یقین ہوگیا تھا مگر وہ اپنے یقین کو محکم کرنا چاہتا تھا۔


شانے ننگے ہوگئے تھے اور دونوں کاندھوں کے عین بیچ وہ نشان موجود تھا جسے وہ دیکھنے کا متمنّی تھا۔مہر نبوت چمک رہی تھی۔کتاب کے مطابق اور عین اس مقام پر جس کا ذکر درج تھا۔راہب ابوطالب کی طرف متوجہ ہوا۔
یہ بچہ آپ کا کیا لگتا ہے؟
”میرا بیٹا ہے“ ابوطالب کا جواب تھا۔
”یہ تمہارا بیٹا نہیں ہے۔راہب نے بات کاٹ دی۔اس بچے کا باپ زندہ ہوہی نہیں سکتا۔“
”یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔“ ابوطالب بولے۔
”اور باپ کب فوت ہوا؟“ راہب نے سوال کیا۔
”بچہ تو ابھی رحم مادر میں تھا۔“
بحیریٰ نے کہا۔
”یہ بالکل سچ ہے۔دیکھو میری تم سے درخواست ہے کہ اِس بچے کو اپنے ملک واپس لے جاؤ۔اسے یہودیوں سے بچا کر رکھنا۔خدائے عظیم و برتر کی قسم اگر وہ اسے دیکھ لیں اور یہ جان لیں جو میں نے جانا ہے تو اِسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔اِس کے لیے قدرت نے اپنے خزانے میں بڑی عظمتیں سنبھال کر رکھی ہیں۔“
آسمان کو میری نظروں نے کِس قدر محبوبیت سے دیکھا تھا۔اندر سے شکر گزاری کا چھلکاؤ ہر ہرمو سے باہر آرہا تھا میں اِس قابل کہ یہاں آتی؟اِسی ٹرانس میں وقت گزرا۔
تو اب مبارک مسجد کی زیارت ہوجائے۔ اس کے ساتھ بھی خوبصورت دلکش کہانیاں اور روایتیں جڑی ہوئی ہیں۔پہلی تو یہی ہے کہ اُونٹنی یہیں تو بیٹھی تھی۔دوسری قرآن پاک کی پہلی تحریری کاپی سب سے پہلے یہاں بُصریٰ لائی گئی۔
میرے لئے دونوں اہم۔ بڑے بڑے پتھروں والی خوبصورت مسجد تھی اُ س کے طاق پر جو تحریر ہے اِسی بنا پر اِسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کہا جاتا ہے، نماز پڑھی، نفل پڑھے، مشکور ہوئی۔ دعا مانگی۔

تو پھر طے ہوا کہ کھانا رومن تھیڑ دیکھنے کے بعد کھایا جائے۔سچی بات ہے بھئی یہ رومن تھیڑ بھی دیکھنے کی چیز تھی۔تھیڑ کے عین سامنے جامع مسجد ابوبکر ہے۔عباس نے بتایا تھا کہ اِس علاقے کے لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد ابوبکر آتے ہیں۔خواہ وہ مسلکی اعتبار سے کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
”ارے کتنی اچھی بات ہے۔کاش ہماری مسجدوں میں بھی یہ چلن رواج پائے۔“ داخلہ بذریعہ ٹکٹ پندرہ لیرا فی کس تھا۔گائیڈ بھی دائیں بائیں اپنی خدمات پیش کررہے تھے مگر ہمارے ساتھ عباس تھا۔

تیسری صدی کا یہ تھیڑ دنیا کی واحد ایسی عمارت ہے جو مکمل طور پر محفوظ بھی ہے اور اپنی شان بان سے قائم بھی ہے۔بڑی بات ہے بھئی۔سچ تو یہ تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی اس کی ہیبت اور عظمت کا احساس رگ وپے میں دوڑنے لگتا ہے۔پندرہ ہزار لوگوں کی دل پشوری اور تفریح کا مرکز جس کی نشستیں تین چوتھائی سرکل میں کتنی کہانیاں سناتی،کتنی تصویریں دکھاتی ہیں۔انسان کھیل تماشوں کا ازلی شوقین۔اپنے شوق کی تکمیل کے لئے کیا کیا عجوبے بنا ڈالتا ہے؟

 

ڈھلانی عمودی رخ پر پھیلی یہ نشستیں جن پر بیٹھے لوگ اس سٹیج پر کیا کیا منظر دیکھتے ہوں گے۔ہائے ہنسانے، رلانے والے۔نمایاں تعمیری خوبی کہ صرف دس منٹ میں پندرہ ہزار لوگوں سے بھرا  تھیڑ خالی ہوجائے کہ بے شمار داخلی اور خارجی دروازے مختلف لیول پر یوں بنائے گئے ہیں کہ نہ رش نہ کہیں بھگڈر مچنے کا خوف۔یوں ہوا کی طرح داخل ہوں اور بگولے کی مانند نکل جائیں۔

اس کے مختلف حصّے ایک ترتیب اور موزوینت سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اداکاروں کی پرفارمینس، مکالموں کی ادائیگی، آوازوں کا اُتار چڑھاؤ گلوکاروں،موسیقاروں اور سازندوں کی آوازیں، اور دھنیں ان سبھوں سے ہر جگہ اوپر، نیچے،قریب، دور بیٹھے ہوئے لوگوں کا دیکھنا سننا اور اُس سے محظوظ ہوناسب اِس طرز تعمیر کی فنکارانہ کاریگری کا مرہون تھا۔اس کے ذہین اور قابل معماروں نے تھیڑ کو ان زاویوں کے پیش نظر وہ شکل اورآرکسٹرا کی جگہ کو وہ خاص گہرائی دی کہ آج کے جدید دور کے ماہرین فن حیرت زدہ یقینا سوچتے اور خود سے کہتے ہوں گے کہ انسان وقت کے ہر دور میں بہترین ذہانت اور فطانت کے جوہروں سے ہمیشہ لبریز رہا ہے۔
بغیر دروازوں کے خالی کمرے آواز کو گونج دار بنانے کے لئے تعمیر ہوئے۔تاکہ ہر جگہ پر بیٹھے لوگوں کو آواز سنائی دے۔عباس نے سکے گرا کر اور تالی بجا کر یہ تماشا ہمیں دکھایا۔
سٹیج کے اطراف میں بالکونیاں معززین کے لئے کہہ لیجیے شاہی خاندان کے لئے کہہ لیں درجہ بدرجہ تھیں۔انسان کی ذات ہمیشہ حدبندیوں کی گھمن گھیریوں میں الجھتی رہی۔موت اور مقبروں میں بھی تخصیص کرتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ مٹی کبھی فرق نہیں کرتی۔
صحن کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے اس کے صحن سے نہر کو گزارا گیا۔یہ گویا اُس وقت کا بہترین ایر کنڈیشنگ سٹم تھا۔
روایت اور چلن کے مطابق زمانے کے مدّوجزر نے اسے بھی متاثر کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے جب شہر فتح کیا تو اس میں تبدیلیاں ہوئیں۔ اونچی اونچی مدافعتی دیواروں اور خوبصورت میناروں نے اِسے سیٹیڈل کی سی صورت دے دی۔ یوں یہ مشترکہ ثقافتی ورثہ بن گیا۔ میوزیم بھی یہاں تھا۔ تاہم بھوک ستا رہی تھی۔

مسجد عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھا۔ بُصریٰ کی پہلی مسجد کہ بُصریٰ کے لوگ اِسے نئی دلہن کی مسجد کہتے ہیں۔ جو بھی وہ کہیں بجا کہ بُصریٰ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہد میں ہی تو فتح ہواتھا۔
سچ تو یہ ہے کہ تھکے ہونے کے باوجود بصریٰ کی گلیوں میں پھرنا پر لُطف کام تھا۔قدامتوں کو سینے سے لگائے وہ بتاتی تھیں کہ اُن پرانے بوڑھے دنوں میں یہاں زندگی گزرانا کیسا خوبصورت تجربہ تھا۔ میرے لیے بھی اِن دنوں کے تصور میں چند لمحے گزارنا مزے کا کام تھاگو تھیٹر کے اونچے نیچے راستوں نے ہڈی جوڑ ہلا کر رکھ دئیے تھے۔
شہر بھی اُن سب حکمرانوں کی فتوحات اور شہر پر اُن کے کہیں خستہ حال اور کہیں بہتر نشانوں کے ساتھ ترجمانی کرتا تھا۔ نباطینNabatean آرچ کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔ آسمان کو چھوتی گول میناروں پر ٹکی بڑے بڑے پتھروں سے بُصریٰ کے اولڈ کواٹر میں گھومتے پھرتے ہوئے احساس ہوا تھا کہ زندگی کے ہنگامے اور مسرتوں کا حصول اُن زمانوں میں جیسے شہریوں دروازوں پر تھا۔ گلیاں، بازار اورشہر جس منظم انداز کی تصویر پیش کر تا تھاوہ بتاتا تھا کہ ضرور یات زندگی کی فراہمی غالباً حکمرانوں کی پہلی اہم ترجیح تھی۔ صدیوں قبل کے حکمران اور اِس جدید دور کے ہمارے حکمران۔ ذہن موازنے کرتا تھا۔دل جلاتا اور بندہ اپنی کم مائیگی پر کڑھتا تھا اور وہ کڑھ رہی تھی۔
تھیڑکے احاطے میں موجود ریسٹورنٹ کے اندر خود کو مُردوں کی طرح گرانے والے بات تھی۔ کافی پینی ہے۔ تھکن دور کرنے کا اور کوئی نسخہ کارگر نہیں ہوسکتا۔ بلڈ پریشر کی ڈبل ڈوز لے لو۔ عقل نے سمجھایا۔
مزید کچھ دیکھنے پر اب طبیعت مائل نہ تھی۔ دراصل عباس نے چھوٹی چھوٹی جگہوں کو دکھانے میں تھکا ڈالا تھا۔ اب سویداSuweidaدیکھنے پر اصرار تھا۔
”ہمت کریں۔ انگوروں کا گھر ہے۔ بیلوں کا حُسن ہر سو پھیلا ہوا ملے گا۔“اور ہماری واپسی اِسی راستے سے ہونی ہے۔ یہ نسبتاً چھوٹا راستہ ہے۔ بُصریٰ اور سویدا کے درمیان کوئی تیس کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ بس آدھ گھنٹے میں وہاں پہنچ جائیں گے۔

جوان لوگوں کے ساتھ چلنا بھی بسا اوقات مسئلہ بن جاتا ہے۔جتنا بھی انکار کرتی ہوں علی کا اصرار اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔تھوڑا سا جھلّا بھی لگتا ہے۔عباس ڈرائیور ہونے کے باوجودنیک نیت بچہ تھا۔سچی بات ہے عباس جیتا رہے۔ایسے ڈرائیور کہاں ہوتے ہیں جنہیں نہ اپنے وقت کی پرواہ ہے نہ پٹرول کی۔اپنے دیس کی ہر شے خواہ وہ چھوٹی ہے یا بڑی دکھانے پر تلا ہوا ہے۔مگر میں بہت تھک گئی ہوں۔آپ جانتی ہی نہیں ال سویدا کیا ہے۔یہ بڑا منفرد شہر ہے۔یہ دروز شہر ہے۔آرتھوڈوکس عیسائیوں کا شہر ہے۔ویسے یہاں سُنی مسلمان بھی ہیں مگر اُن کی تعداد کم ہے۔

اب جب اتنا محبت بھرا اصرار ہو تو بات ماننی پڑتی ہے۔سرجھکانا پڑتا ہے خواہ آپ کی ہڈیوں کے پائے ہی کیوں نہ پکے ہوئے ہوں۔اب سچ تو یہی تھا کہ ایک بات بہت کِھلی تھی۔لوگوں کے ذاتی گھر حددرجہ شاندار نظرآئے۔اندر کا حال رب جانتا ہے مگرظاہراً ان کے چہروں مہروں کا حُسن و جمال صدیوں پُرانے شکستہ دم محل باڑیوں کے کالموں اور منقش پتھروں سے سجے لشکارے مارتے جاتے تھے۔کہیں ان کی بالکونیوں میں کھڑی کوئی دلکش سی عورت کوئی جوان،کوئی بوڑھی،کوئی مرد نظرآتا تو منظر جیسے قلب و روح کو تازہ دم کردیتا تھا۔یہ کہیں مال غنیمت سے تو نہیں آراستہ پراستہ ہیں۔اور پھر جہاں قہوہ پینے کے لئیے رُکے۔اس کی تصدیق اِس کافی شاپ کے مالک نے بھی کردی۔

علی اور فاطمہ کو میوزیم دیکھنے کی آخر آئی ہوئی تھی۔میری طرح نسرین بھی انکاری تھی۔چلو ہم یہاں کیفے میں بیٹھتے ہیں۔تم لوگ جاؤ مگر عباس انہیں وہاں اُتار کر ہمارے پاس آگیا تھا۔اور اب ہم گاڑی میں بیٹھے بیٹھے شہر کے ہوائی بوسے لے رہے تھے۔بازار دیکھا۔آرٹ کی دکانوں میں گئے۔کیا شاہکار دیواروں پر آویزاں تھے۔پورا شہر تو یہیں نظرآتا تھا۔شہر کا کلّچر بھی سجا ہواتھا۔رقص و موسیقی کے منظر پینٹ تھے۔دولہا دلہن بھی نظرآگئے تھے۔شادی کے چند منظروں نے بھی شادکیا۔

چھٹی صدی کے لیسرLesser چرچ کے پاس ہی وہ شہرہ آفاق محراب تھی کہ جس کے بغیر شہر ادھورا ہے۔دردناک سی کہانی بھی سُننے کو ملی کہ پندرھویں صدی کے شہنشاہ تمیرین نے شہر کے معززین کو اِس محراب کو پھانسی گھاٹ بنا کر پرچڑھایا تھا۔سو تب سے یہ پھانسی گھاٹ کے نام سے مشہور ہے۔
شہر کے مرکز میں سلطان پاشا ال عطرش کا مجسمہ دیکھا۔فرانسیسی غلبے کے خلاف جدوجہد کا ہیرہ پاشا ال عطرش۔جی ٹھنڈا ہوا۔سیلوٹ مارا۔
کوئی دو گھنٹے بعد ہم لوگوں نے جوڑے کو میوزیم سے پک کیا۔علی سے میوزیم کا احوال سنتے ہوئے میں نے عباس سے کہا۔
”میاں سیدھے سیدھے چلو۔ جی چاہتا ہے یہیں کہیں لم لیٹ ہو جائیں۔ تمہاری محبتوں نے چور چور کر دیا ہے۔
سیاہ،سبز اور سُرخ انگوروں کے چھابے بھرے ہوئے دکانوں میں سجے دعوت دیتے تھے۔ایک کلوخریدے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تو باتیں امن والے دنوں کی تھیں۔ہاں جب میں نے عبداللہ ال جازر سے ای میل رابطہ کیا۔انہوں نے جو شہر کی تصویر کشی کی اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لیجیے۔
بصریٰ پر فری سیرئین آرمی کا بڑا سخت کنڑول تھا۔ پُر امن سا شہر اسے تو ایسے ہی حکومت نے رگیدنے کی کوشش کی۔ بات کچھ بھی نہ تھی۔ درعا ہمسائے میں تھا۔ اس کی گڑ بڑ کا لا محالہ اثر تو ہونا تھا۔ایک فطری امر ہے کہ یہاں وہاں کھڑے لوگوں نے ہمسایہ شہر میں ہونے والے حادثے پر دکھ اور افسوس کا اظہار تو کرنا ہی تھا۔ تشویش اور دکھ بھرے جذبات کا ردّعمل بھی فطر ی تھا۔ چور کی داڑھی میں تنکا جیسی بات ہوئی۔ سکیورٹی فورسز نے گولی چلا دی اور چار لوگ مر گئے۔ صورت کشیدہ ہوگئی۔ چھوٹی موٹی جھڑپوں نے بتدریج حالات کو بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔
مارچ2015ء جیسے طوفان کی سی صورت میں اِس تاریخی شہر پر نازل ہوا۔ پرانے شہر میں باغیوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ مگر حکومتی فوج ائیر فورس کے ہوائی حملے اور بیر ل بموں کی یلغار برسائی گئی۔ Maarabaاسپتال پر راکٹ فائر ہوئے۔ یہاں زخمی باغیوں کا علا ج ہو رہا تھا۔ ہسپتال تو ملبے کا ڈھیر بن گیا اور زخمی بیمار، بچے، بوڑھے سب قیمہ بن گئے تھے۔
29مارچ کو مقامی سطح پر بڑی جھڑپیں دو بڑے گروپوں میں ہوہیں، یہ اسلامی muthunna اور ال سُنٰی Al Sunnah Lions Brigade کے درمیان تھیں جو ان ہتھیاروں اور ایموشین ammunition کی تقسیم بارے تھیں جو بصریٰ سے انہیں ملاتھا۔ ایک کارکن قتل ہوگیا۔دوسری طرف کے بھی لوگ مارے گئے۔
شہر ایسے لڑائی جھگڑوں کا عادی نہیں تھا۔بہت افسردگی طاری ہے اس پر۔بہرحال خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔

سفر نامہ:درعا شام کا وہ شہر جہاں اِس خانہ جنگی کی چنگاریاں پھوٹیں۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط29

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply