میرے میاں بڑے جانے مانے انٹلکچول ہیں۔ ایک دنیا ان کی گرویدہ و شیدا، خاص کر خواتین میں تو وہ بے حد مقبول و پسندیدہ ۔ ہمارے تین بچے ہیں اور میں سر تا پا گھریلو ذمہ داریوں میں غرق۔
میرے گمان میں شادی ایک ایسا بندھن ، جس سے ذات کی تکمیل مقصود ہے۔ ایک ایسا ساتھ جس میں دونوں ساتھی، ایک دوسرے کی خوبیوں سے استفادہ کرتے اور ایک دوجے کی خامیوں، کوتاہیوں کو ڈھانپتے ہوئے شاہراہِ حیات طے کرتے ہیں۔ جیسے سورہ بقرہ میں ، میاں، بیوی کے خوب صورت رشتے کو لباس سے تشبیہ دے کر بڑے احسن طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔ سو شادی سے میرے بڑے خواب منسلک تھے کہ یہ تو چاہ کا ایسا سفر ہوگا ، جس میں دل و دماغ دونوں ہی ہمنوا و یکجا ہوں گے۔
شادی کے دوسرے برس، میں نے بڑے مان اور چاہ سے سرتاج سے گلا کیا کہ آپ مجھ سے اپنے اور دوسرے مصنفین کے لکھے گئے آرٹیکلز پر آراء و تبادلہ خیال کیوں نہیں کرتے؟
جبکہ اپنے فالورز کے ساتھ تو آپ کی بڑی طویل اور پُر مغز گفتگو رہتی ہے ۔
بھئ میں نے تن و گھر کے سکھ کے لیے شادی کی تھی۔ بھلا بیویاں انٹلکچول سطح پر کب پوری اُترتی ہیں؟ ویسے بھی مجھے ذہین اور دانشور بیوی زہر لگتی ہے کہ بیوی کا مصرف تن کا سُکھ اور گھر کی دیکھ رکھ ہی تو ہے ۔
ان کا استہزائیہ لہجہ آج بھی سماعت میں زہر گھولتا ہے اور میں صدمے سے گنگ اپنی ڈ گریوں اور مختلف اسناد کو دیکھتے ہوئے سوچتی ہوں کہ جانے وقت کے کس ظالم پہر میں بیویاں اپنے عہدے سے معزول کر دی گئیں اور وہ ذات کی تکمیل کے بجائے نکیل ڈالی جانے لگی ، رشتے سے گھٹ کر محض مصرف ٹھہری ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں