افسانوی مجموعہ “بانجھ موسموں کا سفر”/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

کائنات کی وسعتوں میں ایک وسیع عمل تخلیق ہے جس کی سعادت اور مقصدیت ادب کے ان فرزندوں کو حاصل ہوتی ہے جو رنگِ  کائنات کو رشک و تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر الفاظ کی مدد سے اپنے تخلیقی جوہر کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں۔پھر ان کی تحریر اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی ملکیت بن جاتی ہے۔ اگر مشاہدہ کی آنکھ سے دیکھا جائے تو تخلیق قلم کی سیاہی سے انسانیت کے پرچار کا وہ عمل ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے چراغ بن کر جلتا ہے۔ تخلیق کا اظہار خواہ کسی بھی صِنف میں ہو اس کی قدر و منزلت اور تاثیر و کرشمات روح و قلب میں جگہ ضرور پاتے ہیں ۔

اگر ایک قلم کار کا طرز ِ تحریر قوت اور حقیقت سے لبریز نہ ہو تو وہ شعور کی حسی قوتوں کو بیدار نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ انسانی جبلت جذبات کی آبیاری کرنے کے لئے خدا کا خوبصورت تحفہ ہے جو شعور کو پختہ اور ضمیر کو روشن خیال بناتا ہے۔

بے شک زمانے کے تغیر سے ہر چیز میں خوبصورتی اور شگفتگی کے رنگ نظر آتے ہیں جس کی روشنی اور سائے میں ادب کے چشمے پھوٹ کر اسے احساسات کے دائرے میں داخل کر کے ایک مکاشفائی ماحول پیدا کر دیتے ہیں ، جس کے جلوے آب و ہَوا کی معطر فضاؤں میں رقص کرتے ہیں۔ اسی طرح ادیب کے اندر خزانوں کا سناٹا ہوتا ہے جس کا شور اس وقت سنائی دیتا ہے جب وہ اپنی نگارشات کو ادب کے رچاؤ میں بسا کر اسے شعری و نثری زبان دیتا ہے ۔ ادب کی رومانیت صرف شاعری تک محدود نہیں ہے بلکہ نثر بھی اسی شدّت سے فضیلت و کرامات کے ساتھ اپنا دامن پھیلا تی ہے۔ بلاشبہ ادب کا دامن اور گہرائی سمندر کی طرح گہرا ہے۔کیونکہ نہ کوئی اس کا کنارہ اور نہ کوئی سِمت ہے بلکہ ایک بہاؤ ہے جو کبھی نہیں رُکتا۔ کیوں کہ ادب روح و قلب کو سیراب کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو سوچ کے زاویوں سے خارج ہوکر قلم کی طاقت بن جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ادب زندگی کا دوسرا نام ہے جس کی پرتیں ، کونپلیں ، پتّے ، اور جڑیں اس حد تک زندگی کے احساس سے پُر ہوتی ہیں کہ وہ زمین سے ضروری نمکیات حاصل کر کے زندگی  کا عہد و پیماں نبھانے کا قرض چکاتی ہیں۔

اس طرح ادب کے لیے دل کی دھرتی بہترین زمین ہے جہاں ادب کی فصل اُگائی، کاٹی اور پھر بوئی جا سکتی ہے ۔ یہ ایک الگ بحث اور اُلجھن ہے کہ لکھاری کی دلچسپی ادب کی کس صِنف میں ہے جو اس کے تجسس اور مطالعاتی ذوق کو تسکین و وفا کے زاویے میں ڈھال دیتی ہے۔

جو آنکھ مشاہدہ گیر نہ ہو وہ بصارت و بصیرت سے محروم ہوتی ہے اور جو دل درد سے نا آشنا ہو وہ تخلیق کے فن و روپ کا بھید سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور نہ وہ ان اصناف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جو اس کے اندر تخلیق کا چراغ جلاتی ہیں ۔

ہماری مشرقی و مغربی تہذیب میں افسانے کی روایت اور رجحانات بہت قدیم ہیں ، کیونکہ افسانوی ادب بلاواسطہ اور بالواسطہ دل میں گھر بنانے   کی قوت رکھتا ہے۔ یہ ایک اساسی نوعیت کا پرچار اور بھرم ہے جو فنی، موضوعاتی، تکنیکی   اسلوب کی بدولت اپنی ساکھ برقرار رکھتا ہے ۔

ہمیں افسانے کی روایت کی بدولت اس بات کا اقرار کرنا زیادہ معتبر اور درست ہوگا کہ ایک ادیب کی شخصیت اس کے سماج اور ادوار کی مظہر ہوتی ہے۔ادیب کا اسلوب اس کے فن کو اس وقت چاشنی کا تڑکا لگاتا ہے جب قاری کی دلچسپی اور تاثیر میں اضافہ ہو۔زندگی ایک حقیقت ہے جس کے وسیع تقاضے اور سماجی مسائل ہیں جو قلب و ذہن پر اضافی بوجھ ڈالتے ہیں۔ اسی طرح آج کا انسان اشرف المخلوقات  ہونے کا دعویٰ  تو ضرور کر رہا ہے لیکن فلسفہ زندگی اور اس کی اقدار و روایات محض رسمی اور لمحاتی لبادے میں بُنتا جا رہا ہے۔

ایسے  ماحول اور معاشرے میں افسانہ نگاری نقاب کشائی کا وہ خوبصورت گوشہ ہے جسے سمجھنے کے لئے کہانی، داستان ، ناول اور مضمون نگاری سے سفر کرکے اپنی ذہنی سوچ کو افسانوی ادب پر مرکوز کرنا پڑتا ہے۔

آج کل ہمارے نفسیاتی اور سماجی نظریات نے زندگی کو ایسے دباؤ کے ماحول میں داخل کیا ہے۔ جہاں انسان دولت کا پیروکار بن کر رہ گیا ہے۔اس کی فطرت سے وہ چیزیں گم ہوگئی ہیں جو انسانیت ، بشریات اور آدمیت کو کامل رفتار بناتی ہیں۔ ویسے اگر اس بات پر دل جمی سے غور و خوص کیا جائےتو افسانوی ادب کا پرچار زندگی کی جانچ اور پرکھ کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے اور افسانہ نگاری ادب کا وہ دیدہ زیب نگینہ ہے۔ جس کے حجم اور پنپنے میں اتنی طاقت پوشیدہ ہے جو قلب و ذہن کو ادبی پہاڑا پڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔

اگر افسانہ نگاری ہم آہنگی اور ماضی سے ربط نہ جوڑے تو وہ اپنی کمزوری اور کھوکھلے پن کا اظہار کر دے گا۔ افسانہ اپنے عبارتی حصوں میں احساس، کرب، شعور، روحانی ارتقاء، تہذیبی نکھار اور تخلیق سے مزین ہوتا ہے۔

بانجھ موسموں کا سفر 23 گوشواروں پر مشتمل ہے۔جسے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے منظور راہی نے اس سفر کو 23 سالوں میں طے کیا ہے ۔ ان کے ایک ایک افسانے میں ندرت، اسلوب کی گہرائی اور آمادگی کے اثرات نظر آتے ہیں جو روح بدن میں اترنے کی استعداد قبولیت رکھتے ہیں۔

مذکورہ افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے افسانے اساطیری ادب سے مزین ہیں۔ میرے نزدیک اگر پاکستان کے معتبر لکھاریوں خصوصا افسانہ نگاروں میں منظور راہی کو کھڑا نہ کیا جائے تو ان کا افسانوی طرز تحریر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اگر ان کے فن اور شخصیت کو ذہن کی تخریب کاری سے چھپا لیا جائے تو یہ ہماری ذہنی معذوری کا وہ تصور ہے جو بہت جلد زوال کی داستان لکھے گا۔ میں فاضل دوست کے افسانوں کو ادبی معیار کے عروج پر دیکھتا ہوں جس کا اقرار ذکاءالرحمن ،غلام حسین ساجد، امجد طفیل اور ڈاکٹر کنول فیروز جیسے دانشور اپنے اپنے پیش لفظ میں کر چکے ہیں۔ان کے افسانے بلاشبہ حقائق کے قد اور سائے میں بڑے پھلے ہیں۔ ان کی گہرائی اور دامن میں وہی اتر سکتا ہے جو اپنے اندر تجسس کی آگ رکھتا ہوں۔ منظور راہی کے افسانے فکری اور فنی محاسن کے ساتھ شروع سے آخر تک الہاتی فلسفہ سے معمور ہیں۔

ان کا افسانہ “فصیلیں اور رشتے” اس ادراک سے بازو پھیلاتا ہے اور ان دیواروں کو ایسے مسمار کرتا ہے جیسے ایک سورما اپنی قوت سے دوسروں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ اسی طرح یہ افسانہ انسانوں کے درمیان ایسی دراڑیں اور کھڈے پر کرتا ہے جہاں عقل و شعور کی گریں خود بخود کھل جاتی ہیں۔وہ کیا خوب لکھتے ہیں۔
” تمام لوگوں کے جسموں پر فصیلیں ہیں اور میں ہر شخص کو دیکھ رہا ہوں لیکن مجھے اپنے آپ کو دیکھنا ہوگا کہ میرے جسم پر کوئی فصیل ہے یا میں ان فصیلیوں سے مبرا ہو ں”
اسی طرح وہ” دریا پرندہ اور شہر” افسانہ میں بے بسی اور بے حسی کے کھنڈرات ایسے زاویے پر دیکھاتے ہیں جہاں حقیقت کے پس منظر میں کچھ ایسا نظر آتا ہے۔

” اب میرے سامنے بڑے بڑے کھنڈرات ہیں جو شہر اور دریا سے کافی فاصلے پر موجود ہیں ۔ جن میں خرگوش اور سانپ رہتے ہیں رات کی تاریکی میں جب سانپ پھنکار تے ہیں تو جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور جب شکاری اپنے کتوں سے معصوم خرگوشوں کا شکار کرتے ہیں تو ان میں جو بل خالی ہو جاتا ہے تو میں اس بل کو اپنا گھونسلہ سمجھتا ہوں کیونکہ میں سانپ اور خرگوشوں کے بلوں میں رہنے والا پرندہ نہیں ہوں”

منظور راہی صاحب اپنے افسانوں میں احساس کی کوکھ کا دروازہ اس طرح کھولتے ہیں کہ آپ شور کئے بغیر اس میں داخل ہو سکتے ہیں ۔کیونکہ احساس کا دروازہ بند تھا اور جب دروازہ بند ہوتا ہے تو احساس کی کوکھ بانجھ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ان کا افسانہ” لمبے سائے اور قد ” معاشرے کو شبنم کے قطروں سے غسل دیتا ہے اور ان حدود و قیود کا تعین کرتا ہے جس سے انسانیت کا شیرازہ بکھرتا ہے جو لوگ نقلی اور بہروپیہ قد اونچا رکھنے کےعادی ہوتے ہیں وہ عموما حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔

میری نظر میں منظور راہی نے “بانجھ موسموں کا سفر ” تخلیق کر کے افسانوی مجموعہ کو تاریخ کے جھروکوں میں افسانوی ادب کو محفوظ کیا ہے۔
اگر آنکھ میں مشاہدہ نہ ہو ،ضمیر با آواز نہ ہو ،زبان ذائقہ و تاثیر چاٹنے کی عادی نہ ہو تو ادب کی تخلیق مشکل ہوتی ہے۔ میرے نزدیک” بانجھ موسموں کا سفر” افسانوی ادب سے معمور داستانوں کا رواں دواں سمندر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری دلی دعا اور تمنا ہے کہ افسانہ نگاری تراشے کا جو فن منظور راہی کی شخصیت میں پوشیدہ ہے اس کے سائے اور قد سے ادب کے کئی درخشاں ستارے نمودار ہو ں جو افسانوی ادب میں طبع آزمائی کر سکیں ۔اپنی مشرقی اقدار و روایات کے مطابق دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply