اُمِّ فیصل (6)-مرزا مدثر نواز

ہاجرہ کا ماموں عبد الرحمٰن کسی کام کی غرض سے گاؤں آیا تو اپنی بھانجی کی دکھ بھری کہانی سُن کر بہت غمگین ہُوا۔ اس نے دونوں میاں بیوی کو تسلّی دی اور پریشان نہ ہونے کی تلقین کی کہ اللہ ہی مشکلات کو دور کرنے والا ہے پس اسی پر توکل کرو۔ کچھ دن گاؤں میں گزارنے کے بعد عبدالرّحمٰن نے جب لاہور واپسی کی راہ لی تو ساتھ میں اپنی بھانجی اور اس کے شوہر کو بھی ساتھ لے آیا تا کہ شہر میں وہ کوئی محنت مزدوری کر سکے۔ کچھ دن ساتھ رہنے کے بعد ہاجرہ نے اپنے ماموں سے تقاضا کیا کہ اب انہیں قریب ہی کوئی گھر کرائے پر لے دیں کیونکہ وہ لوگ مزید اپنے ماموں پر بوجھ   نہیں بننا  چاہتے۔ بڑی تگ و دو کے بعد مسجد اقصیٰ کے قریب ہی ایک گھر کرائے پر مل گیا اور ہاجرہ و ابراہیم وہاں شفٹ ہو گئے۔ لاہور آنے کے بعد ابراہیم ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرنے لگاجس سے زندگی دوبارہ اپنے ٹریک پر واپس آنے لگی۔ اسی اثناء میں خالقِ کائنات نے انہیں ایک بیٹی سے نوازالیکن دو سال بعد ہی اپنے پاس واپس بلا لیا۔ یحییٰ قریب ہی ایک سرکاری سکول میں داخل ہو کر پڑھنے لگا۔ وہاں رہتے ہوئے ہاجرہ کو اگر کسی بھی چیز کی ضرورت پیش آئی تو اپنے ماموں کو ہمیشہ اپنا مددگار پایا۔
؎ کسی دردمند کے کام آ‘ کسی ڈوبتے کو اچھال دے
یہ نگاہِ مست کی مستیاں‘ کسی بد نصیب پہ ڈال دے

یحییٰ کا سن 10کو پہنچا تو ابراہیم کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی۔ اپنوں کے ستم‘ بڑھاپے میں گاؤں سے شہر کو ہجرت اور شہر میں زندگی کی تگ و دو کے مسائل اور اس عمر میں قلی کا کام‘ ان سب عوامل نے ابراہیم کی صحت کو بری طرح متاثر کیا اور کچھ دن بیمار رہنے کے بعد ایک دن خاموشی سے دکھوں بھری اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ گیا۔
؎ دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے‘ کوئی ہم سا ہو گا

ابراہیم کی وفات کا سُن کر اس کے بھائی اور دوسرے رشتہ دار بھی لاہور آئے اور کسی نے بھی یہ تقاضا نہ کیا کہ ابراہیم کو گاؤں میں اس کے ماں باپ کے پہلو میں دفن کرتے ہیں۔ ابراہیم کے بھائیوں اور بھتیجوں کا اس کی وفات پر آنا‘ شاید خون کی کشش کی وجہ سے تھایا پھر گاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد کے طعنوں کے ڈر کی وجہ سے۔ ابراہیم کے کفن دفن اور مہمانوں کے کھانے پینے کا تمام تر انتظام ہاجرہ کے ماموں نے کیا۔ تمام رشتہ دار کچھ دن قیام کر کے اور سوکھی تسلیاں دے کر اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔
؎ حرفِ تسلّی ایک تکلّف
جس کا درد‘ اسی کا درد

ایک ماہ کے بعد ہاجرہ کا بھائی یعقوب دوبارہ اپنی بہن کی دلجوئی کے لیے لاہور آیا۔ ہاجرہ کے تمام بھائی ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے، اور انہیں روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ یعقوب بھی ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور اور بہت بڑی جائیداد کا مالک تھا۔ آفرین ہے ہاجرہ کے صبر کی کہ ان تمام مشکلات کے باوجود اس نے کبھی بھی اپنے بھائیوں سے یہ گلہ نہ کیا کہ اسے ایک بوڑھے آدمی کے پلے باندھ دیا گیا۔ یعقوب جب واپس اپنے گاؤں جانے لگا تو اس نے ہاجرہ کو دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ وہ بھائیوں سے کوئی امید نہ لگائے اور نہ وہ اس کا اور اس کے بچے کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں لہٰذا لاہور ہی رہنا اور لوگوں کے برتن دھو لینا لیکن واپس میکے کی راہ نہ لینا‘ اپنے بیٹے کو سکول سے اٹھواؤ اور کسی ہوٹل پر ڈالو تا کہ اپنا اور تمہارا بوجھ اٹھائے۔
؎ ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ (حمایت علی)

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply