فکر استشراق پر برصغیر میں ہونے والے کام کا مختصر جائزہ۔۔محمد اکمل جمال

اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں برصغیر پاک وہند میں استشراقی افکار ، ان پر تنقید ، اور ان کی سنجیدہ تحقیق کے حوالے سے جو کام ہوا ہے وہ اس تحریک کے منفی اثرات اور اس کے دیرپا خطرناک نتائج کے مقابلے میں نہایت محدود ہے۔
عرب دنیا میں اس موضوع پر بجا طور پر کام ہوا ہے اور اچھا کام ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ استشراقی حملے کے سب سے پہلے شکار ہوئے، کچھ تو ان کے اپنے مغرب کے استشراقی اداروں سے پڑھ کر آئے اور کچھ وہاں سے مستشرق مبعوثین درسیات پڑھانے کے سلسلے میں آئے۔ علمائے عرب خاص طور علامہ سباعی، انور الجندی ، دکتور قاسم السامرائی اور ان جیسے دیگر مصنفین کی تحریرات اس موضوع پر بہترین مواد پیش کرتی ہیں۔

علامہ سباعی کی “الاستشراق والمستشرقون ما لهم وما عليهم”مختصر ہونے کے باوجود نہایت جامع ہے، یہ در اصل ان کی شہرہ آفاق کتاب “السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي” کا کچھ حصہ ہے، جس میں انہوں نے مستشرقین اور عرب دنیا خصوصا مصر میں ان سے متاثر شدہ شخصیات جن میں “فجر الإسلام ” “ضحى الإسلام” جیسی کتابوں کے مصنف اور مشہور ادیب احمد امین خاص طور پر قابل ذکر ہے، کی اس نوعیت کے پھیلائے گئے شبہات کے ازالے کی بھر پور کوشش کی ہے۔

علامہ سباعی کی اس نوعیت کی خدمات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ انہوں نے مستشرقین کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے ، بلکہ ان کے ساتھ مباحثات کے ادوار بھی چلے ہیں، جب کہ مستشرقین کے تلامذہ اور ان سے براہ راست متاثر شدہ حضرات سے انہوں نے استفادہ بھی کیا ہے۔ اس لیے ان کی کوششوں کو اس حوالے سے ایک استنادی حیثیت حاصل ہے۔

انور الجندی کی “سموم الاستشراق والمستشرقين” اور دکتور قاسم السامرانی کی “الاستشراق بين الموضوعية والافتعالية” جیسی مدلل علمی تصنیف کے علاوہ عربی زبان میں اس کے تقریبا ً ہر پہلو پر کام ہوا ہے۔ کچھ تین سال قبل عربی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل ایسی “معجم” بھی نظر سے گزری تھی، جس میں استشراقی تحریک کا حصہ بننے والے معروف مستشرقین کے ناموں کو ہجائی ترتیب سے ذکر کرکے ان کا بعض کاموں کا تعارف کرایا گیا تھا۔

برصغیر میں علامہ شبلی نعمانی ، سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کے مقالات وتحریرات کے علاوہ اس موضوع پر جاندار کام سید صباح الدین عبد الرحمن کی مرتب کردہ ۵ جلدوں پر مشتمل “اسلام اور مستشرقین”ہے ، جو دراصل ۱۹۸۲ میں دار المصنفین شبلی اکیڈمی میں منعقدہ سیمینار کی مکمل روادا ہے، لیکن کتاب کو صرف سیمینارکی روداد اور اس میں پڑھے گئے مقالات کی جمع وتریب تک محدود نہیں رکھا گیا ہے ، بلکہ اس کی چوتھی اور پانچویں جلد کو علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کے اس نوع کی تحریرات کےلیے مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر ڈاکٹر حافظ محمد زبیرصاحب کی “اسلام اور مستشرقین” بھی محدود ہونے کے باوصف جامع ہے، سید حبیب الحق ندوی کی “اسلام اور مستشرقین” عبد الحئی عابد کی “استشراق اور مستشرقین”اور حسیب احمد حسیب کی “برصغیر میں علم حدیث پر تحریک استشراق کے اثرات” عمدہ کاوشیں ہیں، ڈاکٹر محمد شہباز منج صاحب کی “فکر استشراق اور عالم اسلام میں اس کا اثر ونفوذ” بھی اس موضوع پر تازہ شائع ہوئی ہے۔

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں پروفیسر محمد اکرم چوہدری نے بھی اس کی اچھی تفصیل لکھی ہے۔
دراصل استشراقی کام کے جو مختلف پہلوہیں ، مثلا : قرانیات اور استشراق، علوم حدیث اور استشراق، فقہ ، قانون اسلامی اور استشراق، علم الکلام ، عقائد اور استشراق، سیرت اور استشراق، تاریخ اور استشراق، اسلامی ادب اور استشراق، لغت اور استشراق، اور ان کے ذیلی ایسے ڈھیر موضوعات ہیں ، جن پر مستشرقین نے فتنہ انگیزی اور تشکیک کے مقاصد کے پیش نظر کام کیا ہے۔اس حوالے سے دو طرح کے کام کیے جاتے ہیں: ایک ہے جدید استشراقی فکر یا استشراقی تحریک جو کم ازکم دو سو سال پر محیط ہے، اس کا تعارف اور اسکی حقیقت سے امت کو واقف کرنا، دوسرا ہے ان کے پیدا کردہ شکوک وشبہات اور ان کے اعتراضات کے جواب دینا، یہ دونوں موضوعات برصغیر میں کسی موسوعی کام کے متقاضی ہیں۔ سیرت کے کچھ حصے کے تو علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی صاحب نےاپنی سیرت میں، قرآنیات کے متعلق کچھ سید سلیمان ندوی نے “ارض القرآن” اور استاد محترم مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے “علوم القرآن”میں جوابات دئیے ہیں، لیکن دیگر موضوعات اب تک اس اعتبار سے تشنہ طلب ہیں، کہ ان پر ماہرین فن نے قلم نہیں اٹھایا ہے۔

گزشتہ دنوں جب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم جامعہ دار العلوم کراچی تشریف لائے، اور ان کے ساتھ مہمان خانے میں استفادے کی نشست ہوئی، تو عالم اسلام کی مجموعی صورتحال، ملکی سیاست سمیت دیگر موضوعات پر آپ کی پر مغز گفتگو کے علاوہ استشراق پر بھی آپ کی باتیں سنی۔
مولانا نے فرمایا: ہمارے ہاں اس موضوع پر کوئی جاندار کام نہیں ہوا ہے، یہاں کے لوگ اب تک اس سے ناواقف ہیں کہ مغرب استشراق کے کیپسول میں کیا دے رہا ہے؟
فرمایا: لاہور میں میرے شاگرد رہتےہیں، سمیع فراز صاحب، رات میرا ان کے ہاں قیام تھا، انہوں نے اس موضوع پر تازہ تحقیق کی ہے، چونکہ وہ آپ کے کام سے متعلق ہے، اور میرے پاس اس کے دوہی نسخے ہیں، جن میں سے ایک مفتی تقی صاحب کو دینا ہے، اور ایک میرا ہے، (مسکراتے ہوئے فرمایا) آپ کو صرف دکھا دیتا ہوں، مگر پھر شفقت فرماتے ہوئے اپنا نسخہ ہی عنایت کیا، اور فرمایا آپ کو اپنا نسخہ دے رہا ہوں، میں دوسرا لے لوں گا، یہ نسخہ آپ اور آپ کے رفقائے شعبہ کاہے، اسے پڑھیے۔
مزید فرمایا:” استشراق کے موضوع پر ہمارے ہاں جتنا کام ہوا ہے، یہ ان کی نسبت میں نے بہتر پایا ہے”.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر سمیع اللہ فراز صاحب کی مذکورہ بالا کتاب ” ہالینڈ میں استشراقی مطالعات اسلام ( وینسنک کی فکر وتحقیق کا نقد وجائزہ)” سے موسوم ہے۔ جو استشراقی تحریک کی رد میں ہونے والی کوششوں کے تسلسل میں ایک بہت ہی اچھا اضافہ ہے۔ کتاب میں انہوں نے  ہالینڈ میں استشراقی مطالعات اسلام کو اپنا موضوع بنایا ہے، اور اس ضمن میں ہالینڈ کے مشہور مستشرق اے ۔جے۔ وینسنک کی فکر کااس کی عقائد اسلامیہ پر لکھی ہوئی مشہور کتاب the muslim creed:its genesis and historical development کی روشنی میں تحقیقی جائزہ لیا ہے۔
اے۔جے۔وینسنک(arent jan wensinck) کی شہرت کی اصل وجہ جیسے فاضل محقق نے لکھا ہے “المعجم المفہرس”طرز کی عظیم حدیثی اشاریہ ہے، جس میں انہوں نے وقت دیگر مشہور مستشرقین کے ساتھ مل کر امت کے حدیثی ذخیرے میں سے نو مصادر حدیث جن میں کتب ستۃ ، سنن دارمی، موطا امام مالک اور مسند امام احمد بن حنبل شامل ہے، کا انتخاب کرکے لفظی ہجائی ترتیب پر مذکورہ مصادر میں درج احادیث کو کتاب، رقم الباب، رقم الحدیث اور رقم الجزء والصفحۃ کے اعتبار سے مرتب کرکے ایک جامع اشاریہ تشکیل دیا ہے۔

ڈاکٹر محمد سمیع اللہ فراز صاحب کی اس کتاب میں کل تین ابواب ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors london

۱-پہلا باب: ولندیزی استشراق اور اے۔جے۔ وینسنک : تعارف وپس منظر ہے۔ جس میں فاضل محقق نے سرزمین ہالینڈ کا جغرافیائی اور فکری مطالعہ، وہاں کے استشراقی تحریک کےاختصاصی کام اور نمایاں سرگرمیاں ، دس کے قریب معروف ولندیزی مستشرقین کا تعارف اور مشرقی علوم پر ان کے کیے گئے کام کا تعارف ، اے۔جے۔ وینسنک کی حیات وخدمات اور اس کے افکار وخیالات کاتفصیلی تجزیہ وتعارف پیش کیا ہے۔
۲-دوسرا باب : معاجم: تعارف ونشوونما ہے، جس میں محقق نے معاجم کے اصول ومفاہیم، کتب معاجم کا ارتقاء اور معاجم میں اطراف الحدیث کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے۔
۳-تیسرا باب ” المعجم المفہرس لالفاظ النبوی” سے موسوم ہے، جس میں فاضل محقق نے “المعجم المفہرس” کا اختصاصی مطالعہ پیش کرکے اس میں مذکوہ معجم کا تعارف ومنہج اور اس میں موجود تسامحات کو نمایاں کرتے ہوئے اصلاحات تجویز کی ہیں۔
کتاب ۲۲۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ عکس پبلی کیشنر لاہور نے اسے شائع کیا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply