• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نسل کشی، جمہوریت، اور اکثریت پسندی۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

نسل کشی، جمہوریت، اور اکثریت پسندی۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

 نسل کشی، جمہوریت، اور اکثریت پسندی۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد/وسعت اللہ خان ہمارے ملک کے ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو انتہائی اہم اور نازک موضوعات پر انتہائی مہارت اور بھرپور معلومات کے ساتھ سادہ پیرائے میں بات کہنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے کالم نہ صرف معلومات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں بلکہ پڑھنے والوں کے لیے سوچنے اور سمجھنے کے نئے دریچے بھی کھولتے چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے نسل کشی پر دو قسطوں میں لکھا اور کیا خوب لکھا۔ وسعت صاحب نے نسل کشی کے موضوع پر پروفیسر گریگوری سٹینٹن Gregory Stanton کے کام کو نہایت عمدگی سے دو مختصر کالمز میں سمو دیا ہے۔ پروفیسر سٹینٹن نے مختلف تعلیمی اور حکومتی اداروں کے لیے کام کیا ہے اور 1980 کی دہائی سے   نسل کشی کے واقعات پر کام کر رہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق وہ دنیا کو جینوسائڈ (نسل کشی) کی اصطلاح دینے والے رالف لیمکن Ralph Lemkin کے بعد اس موضوع پر کام کرنے والے ماہرین میں ایک اہم ترین محقق ہیں۔ پروفیسر سٹینٹن 1980 کی دہائی سے نسل کشی کے واقعات پر کام کر رہے ہیں اور اہم ترین پہلو جو انہوں نے دریافت کیا ہے وہ یہ ہے کہ نسل کشی صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک معاشرتی روش اور رجحان کا اظہار ہے۔ یہ معاشرتی روش اور چلن جس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھ کر حقیقی معنوں میں انسانی جانوں کے ضیاع پر منتج ہوتا ہے یہ سارا عمل سائنسی طور پر قابل شناخت اور قابل پیش گوئی ہے۔ انہوں نے اپنے کام میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس معاشرتی چلن کو درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر سٹینٹن نے 1996 میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سامنے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں روانڈا کے 1994 میں ہونے والے نسل کشی کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بتایا گیا تھا کہ ایک سماجی روش کس طرح جنم لیتی ہے اور اس کے بعد وہ درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہوئے نسل کشی کے واقعات تک کس طرح پہنچتی ہے۔ 1996 میں اس سماجی رجحان کے نسل کشی تک پہنچنے کے انہوں نے آٹھ درجے بیان کئے۔ 2012 میں انہوں نے اسی سماجی رجحان کے نسل کشی تک پہنچنے کے دو اور درجے بیان کئے۔ اب آپ ان دس درجوں کو دیکھ کر کسی بھی معاشرے کے نسل کشی تک پہنچنے کو نہ صرف قبل از وقت دیکھ سکتے ہیں بلکہ پیشگوئی بھی کر سکتے ہیں۔

پروفیسر سٹینٹن آج کل دوبارہ خبروں میں ہیں۔ انہوں نے روانڈا جیسا تجزیہ ہندوستان کے بارے میں کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر ہندوستانی حکومت نے ضروری اقدامات نہ کیے تو مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کی اس وارننگ کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ان کے کام کی وقعت کا کیا جانے والا اعتراف ہے۔ اور دوسری وجہ دنیا میں سماجی علوم (سائنس) کی افادیت کا احساس ہے۔ دنیا کم از کم گزشتہ ایک صدی سے سیاسی اور سماجی امور اور واقعات کے نفسیاتی تجزیے کی افادیت دیکھتی چلی آ رہی ہے اور ایسے تجزیوں پر یقین بھی رکھتی ہے۔ پاکستان ایسے معاشروں میں جہاں معاملات صرف طاقت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، طاقتور بازوؤں سے کنٹرول کیے جاتے اور طاقت اور جارحیت کے زبان سے بیان ہوتے ہیں وہاں ایسے تجزیے کی افادیت کبھی بھی تسلیم نہیں کی گئی۔ پروفیسر سٹینٹن نے نسل کشی کے سماجی عمل کو قابل شناخت ثابت کرتے ہوئے ان اقدامات کی بہت واضح نشاندہی کی ہے جن سے گزر کر ایک سماجی روش نسل کشی کے واقعات تک پہنچتی ہے۔ تاہم جو بات ان کے کام میں واضح نہیں ہے وہ ان معاشروں کی نشاندہی ہے جن میں نسل کشی کا یہ سماجی عمل شروع ہوتا ہے، نمو پاتا ہے اور تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ یعنی وہ بنیادی عوامل کون سے ہیں جو نسل کشی کے سماجی رجحانات کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔

اگر آپ بیسویں صدی میں خاص طور پر جنگ عظیم کے بعد رونما ہونے والے نسل کشی کے واقعات پر نظر ڈالیں (جن میں تازہ ترین میانمار میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات ہیں) تو ان واقعات کی ایک واضح تقسیم ممکن ہے۔ جنگ عظیم دوم تک رونما ہونے والے نسل کشی کے واقعات کی ذمہ دار حکومتیں اور ان کی ماتحت افواج ہوا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر ہولوکاسٹ کی تمام تر ذمہ داری ہٹلر اور اس کی افواج پر عائد کی گئی۔ نرمبرگ ٹرائل کی تفصیلات اس ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد رونما ہونے والے نسل کشی کے واقعات میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ اب ان واقعات میں حکومتوں اور افواج کے ساتھ ساتھ لشکر بھی شامل اور شریک ہونا شروع ہوگئے۔ اس کی ایک مثال کمبوڈیا میں 1970 کی دہائی میں ہونے والے نسل کشی کے واقعات ہیں جن میں سے پندرہ لاکھ سے زائد افراد قتل کر دیے گئے۔ یہ غارت گری کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں انجام پائی جو اس وقت حکومت میں تھی مگر اس پارٹی کے   غارت گری کے یہ منصوبے 1975 میں حکومت میں آنے سے قبل 1965 میں ہی شروع ہوچکے تھے۔

اسی طرح سوڈان میں جنجوید عرب ملیشیا غیر عرب سوڈانی افراد کو قتل کرتے ہوئے فوج کے شانہ بشانہ لڑتے رہے اور تقریباً پانچ لاکھ افراد نسل کشی کے ان واقعات میں قتل ہوئے۔ روانڈا کی نسل کشی میں وہاں کے ہوتو قبائل کے لشکروں نے تتسی قبائل کے تقریباً  آٹھ لاکھ افراد چند دنوں میں قتل کر دیئے۔ 2017 کے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی گو وہاں کی فوج نے کی مگر ان سارے واقعات کی بدھ مذہب کے مذہبی قائدین نے نہ صرف تائید کی بلکہ معاملات کو قتل و غارت گری کے اس مرحلے تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار بھی انہوں نے ہی ادا کیا۔ پروفیسر سٹینٹن اب اسی نوعیت کی پیشگوئی ہندوستان کے بارے میں کر رہے ہیں۔ خدا نخواستہ معاملات اگر ان کی پیشگوئی کے مطابق رونما ہوئے تو کیا ہندوستانی حکومت اسی طرح خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گی جیسا اس نے گجرات کے قتل عام اور بابری مسجد کے انہدام کے وقت ادا کیا تھا۔؟ اس سوال کا واضح جواب دینا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ ہندوستان میں وہ لشکر جو ممکنہ طور پر نسل کشی کی تیاری میں مصروف ہیں ان کو براہ راست بی جے پی کی حکومت کی تائید، سرپرستی اور مدد حاصل ہے۔

نسل کشی کی وارداتوں میں حکومتوں کے ساتھ لشکروں یا ملیشیا کی شرکت اس وقت اور بھی معنی خیز ہو جاتی ہے جب نسل کشی کی وارداتیں بظاہر حکومتوں کی شمولیت کے بغیر صرف لشکر انجام دیتے ہیں۔ داعش کے ہاتھوں جان سے ہاتھ ہونے والے عراق کے یزیدی فرقے کے افراد کی تعداد نسل کشی کے دیگر واقعات کی نسبت زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ یہ افراد تعداد میں پہلے ہی کم تھے اور دوسرے یہ کہ اس قضیے میں اغواء  اور فروخت کی جانے والی عورتوں اور بچیوں کی تعداد، اور بے گھر کر دیے جانے والے خاندانوں کی تعداد کُل ہلاکتوں سے کہیں زیادہ رہی۔ اس لشکر کو گو مبینہ طور پر مختلف حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی مگر بظاہر انہوں نے یہ ساری کارروائی آزادانہ طور پر انجام دی۔

اگر نسل کشی کے ماضی کے واقعات کو ذرا دیر کے لیے ایک طرف رکھیں اور دنیا بھر میں لشکروں کی تیاری اور عزائم کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ پروفیسر سٹینٹن کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے صرف ہندوستان ہی میں نہیں ،دنیا بھر میں انتہائی واضح امکانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسے رجحانات صرف ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ یہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اب ابھرتے ہوئے معاشرتی اشارے ہیں۔ ۔ ۔ یورپ اور امریکہ کے دائیں بازو کے گروہ اب بتدریج مسلح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ گروہ کسی مظلوم اقلیت پر مشتمل نہیں ہیں جو ظالم اکثریت کے مظالم کے خلاف اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جہاد پر آمادہ ہوں۔ یہ اپنے اپنے علاقوں کی اکثریت سے تعلق رکھنے والے گروہ ہیں اور انہیں کہیں تارکین وطن سے خطرہ ہے اور کہیں اقلیتی آبادیوں سے۔ یہ اکثریتی گروہ خود کو ان اقلیتوں کے سامنے غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اور اس بات کو انتہائی وضاحت کے ساتھ مغرب میں بیٹھ کر بیان کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے ان اقلیتوں کی تعداد اور اثر و نفوذ پر ابھی سے کنٹرول کرنا شروع نہ کیا تو مستقبل قریب میں اس وقت کی یہ طاقت ور اکثریت مالی، ثقافتی اور مذہبی حوالوں سے سے غیر محفوظ ہوتی چلی جائے گی۔ اس رجحان کو اکثریت پسندی Majoritarianism کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو جمہوریت بھی اکثریت کی رائے پر قائم ایک نظام ہے مگر یہ اکثریت منتخب افراد پر مشتمل پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلے کرتی ہے۔ جبکہ اکثریت پسندی کسی بھی معاشرے میں کسی مذہب کے ماننے والوں، کسی زبان کے بولنے والوں، یا کسی خاص نسل اور ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت دھونس، زور اور زبردستی کے ذریعے اپنے فیصلے تعداد اور استعداد میں کم اور کمزور اقلیتوں پر مسلط کرنے کے رجحان کا نام ہے۔ یہ اکثریت پسند اپنے فیصلوں کو منوانے کے لیے کسی جمہوری راستے کی بجائے مسلح جدوجہد پر نہ صرف قائل اور آمادہ ہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسے اکثریت پسند لشکر مسلح جدوجہد کی پوری تیاریاں کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ گو ہمارے پاس حتمی معلومات نہیں ہیں لیکن امریکہ کے سفید فام اکثریت پسندوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکی فوجی جیسے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ تاہم مغرب کے کچھ ملکوں میں ایسے اکثریت پسند تعداد میں کم ہیں لیکن پھر بھی وہ انفرادی کاروائیاں کر گزرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہونے والا واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔

اقلیت کا اکثریت سے خوف کھانا تو سب کی سمجھ میں آتا ہے مگر اکثریت کا اقلیت کے سامنے غیر محفوظ ہونا قابل غور ہے۔ اکثریت پسندی کا یہ نیا رجحان شاید ہمیں بہتر سمجھ میں آ سکے اگر ہم مغرب میں کم از کم گزشتہ چار دہائیوں سے موجود جوہریت پسندی Essentialism کو دیکھ اور سمجھ سکیں۔ جوہریت پسندی کی ایک سادہ اور عام فہم تعریف ثقافتوں کا مطالعہ کرنے والوں نے یہ کی ہے کہ اس سے مراد ثقافتوں کا وہ رجحان ہے جس میں وہ اپنی ثقافتی جوہر Essence کی جانب واپسی کا سفر شروع کر دیتی ہیں۔ ثقافت کی نشوونما اپنے جوہر سے بتدریج دور جانے، پھیلنے اور دوسری ثقافتوں کو اپنے اندر سمونے، ان کا اثر فراخدلی سے قبول کرنے، اور دوسری ثقافتوں کو متاثر کرنے میں مضمر ہوتی ہے۔ ایک درخت کی نشوونما کا اندازہ اس کے پھل اور پھیلاؤ کی وسعت دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔ درخت کا یہ پھیلاؤ جڑوں کے ساتھ اس کے تعلق کو مگر منقطع نہیں کرتا۔ اسی طرح جڑوں یا جوہر کے ساتھ ثقافتوں کا تعلق ان کی نشوونما اور پھیلاؤ کو یقینی بناتا ہے۔ لیکن جوہر کی جانب واپسی کا سفر ثقافتوں کو تنہا اور متشدد ہی نہیں بناتا بلکہ دوسری ثقافتوں کی جانب معاندانہ رویے اور ان کی جانب شکوک وشبہات کو بھی فروغ دیتا ہے۔ ثقافتی اور مذہبی گروہ دوسرے چھوٹے گروہوں کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بڑے گروہوں کو یہ محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ چھوٹے گروہ گو ان کو عملاً تو ختم نہیں کر سکتے تاہم ان کی شناخت کو زک ضرور پہنچا سکتے ہیں۔ اکثریت پسندی کا یہ رجحان چونکہ ان طاقت ور گروہوں میں پروان چڑھ رہا ہے جنہیں کسی مالی اور عددی کمزوری کا سامنا نہیں ہے اس لیے اب ان کا متشدد اور مسلح ہونا با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان سارے ابھرتے ہوئے رجحانات میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

وسعت صاحب نے پروفیسر سٹینٹن کی نسل کشی کی جس درجہ بندی کا ذکر کیا ہے اس کو دیکھیے یا پھر پروفیسر گریگوری سٹینٹن کے کام کو براہ راست دیکھیے۔ نسل کشی پر لکھنے اور تحقیق کرنے والے ماہرین کے کام کا خود مطالعہ فرمائیے اور فیصلہ کیجیے کہ  ہمارا معاشرہ نسل کشی کی طرف لے جانے والے رجحانات کے کس درجے پر کھڑا ہے۔کیا ہم نے مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کو نشان زدہ  نہیں کیا؟ ہم نے مذہبی علامتوں کو بنیاد بنا کر قانون سازی نہیں کی؟ اقلیتوں کے بے دریغ قتل پر ہم نے لشکروں کو آمادہ نہیں کیا؟ نام پوچھ کر اور جسم دیکھ کر ہم نے لوگوں کو شناخت کر کے  قتل نہیں کیا؟ کیا ہمارے معاشرے میں ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں کیا گیا جس میں اقلیتوں سے وہ نظریات منسوب کئے گئے جو اصل میں ان کے نظریات نہیں تھے؟ کیا ہمارے معاشرے میں اقلیتی گروہوں کے ساتھ عام افراد نے میل جول اور لین دین بند نہیں کردیا؟ مختلف گروہوں کے افراد نے ایک دوسرے کی خوشیوں اور غم کے مواقع پر شرکت کو ممنوع قرار نہیں دیا؟ سب سے بڑی بات، کیا ہماری اکثریت کو یہ نہیں بتلایا گیا اور اس کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اقلیتی گروہوں کے عقائد اور ان پر یقین رکھنے والے افراد کی موجودگی معاشرے میں موجود اکثریت کے ایمان پر اٹھنے والا ایک سوال ہے؟ کیا مخصوص اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک سے ہجرت شروع نہیں کر دی؟ اور ان تمام رجحانات کو فروغ دینے والے راہنماؤں اور گروہوں کی متشدد کارروائیوں پر ریاست اور ریاستی اداروں نے خاموش تماشائی جیسا رویہ نہیں اختیار کیا؟ اگر یہ سب کچھ حقیقت ہے تو پروفیسر گریگوری سٹینٹن کی درجہ بندی دوبارہ دیکھیے۔ اکثریت پسندی اور جوہریت پسندی کے رجحانات کو اپنے معاشرے میں گو گھٹنوں کے بل ہی سہی مگر چلتا پھرتا آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply