یہاں مجھے علما ء سے پھر شکایت ہے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ قرآ ن اور اسلام کی تعلیمات کو دیانتدارانہ طریقے پر ہم تک پہنچائیں،کیاوہ اپنے اس فرض کو ا دا کرنے میں دیانتدار رہتے ہیں؟یا انہوں نے خود کو “دینی و مذہبی حکمران”سمجھ کر مسلمانوں کی چرب زبانی کو لاٹھی سے پِیٹ پِیٹ کر سیدھا کرنے کی قسم اٹھا لی ہے۔وہ صرف اسلام اسلام کے ورق کوٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور صحیح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔
میرے حساب میں جب سے یہ تبلیغ ِ اسلام کی ذمہ داری،اناڑی،کم علم اور جاہل لوگوں کے کندھو ں پر ڈالی گئی ہے تب سے تعلیم یافتہ اور دانشور افراد کے ذہنوں میں سوالات کی ایک قطار لگ گئی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان اناڑی،ان پڑ ھ،کم علم،اور ابوجہل حضرات نے ایسے ایسے من گھڑت قصے ایجاد و اختراع کرکے دہرانے شروع کردیے ہیں،جو حلق سے نیچے نہیں اترتے۔دارافتاء کی مسندوں پر ایسے ایسے افراد قابض ہوگئے ہیں جو یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ وہ مذہب یا دین سے متعلق کسی سوال کا تشفی و تسلی بخش جواب دے سکیں۔میرے ساتھ خود ایسا واقعہ پیش آیا ہے۔
میں نے ایمسٹر ڈیم میں ایک جید عالم جو ڈاکٹر،پروفیسر اور شیخ الاسلام بھی ہیں کو ایک اجتماع میں ایک تحریری سوال نامہ پیش کیا،جو ان کے نائیبین نے وصول کرکے ان کے سامنے پیش کیا۔
میرا پہلا سوال تھا کہ حج بدل کا حکم قرآن کی کس آیت میں ہے؟
دوسرا سوال،عید الاضحیٰ کے موقع پر جو قربانی مسلما ن کرتے ہیں کیا مقامِ حج کے علاوہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے؟اگر یہ فرض ہے تو اس کا حکم غیر مقامِ حج کے لیے قرآن کریم کی کس آیت سے ثابت ہے؟مگر کوئی جواب نہ ملا۔۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے آخری خطبے تک میں یہ واضح طور پر ارشاد فرمایاہے کہ
“میں تمھارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں،ایک اللہ کی کتاب،قرآن،جس کے اندر رہنمائی اور ہدایت اور روشنی ہے اور اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو،اور دوسری چیز میرے اہلِ بیت ہیں۔میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں خدا کو یاد دلاتا ہوں “۔آخری جملے کوآپ ﷺ نے تین بار مکرر فرمایا۔یہ صحیح مسلم (مناقب حضرت علی ؓ)کی روایت ہے۔نسائی،مسند امام احمد ترمذی،طبرانی وغیرہ میں کچھ اور فقرے بھی ہیں جن میں حضرت علی ؓ کی احادیث کے کئی قدیم ایڈیشنوں میں جو 1932سے قبل طبع شدہ ہیں،یہ الفاظ موجود ہیں۔ا ن میں کہیں سنت کا ذکر نہیں ہے۔احادیث کے جدید ایڈیشنوں میں اہلِ بیت کی جگہ کسی خاص ضرورت یا سازش کے تحت لفظ سنت کردیا گیا ہے۔
حج بدل کا کوئی حکم قرآن میں میری نظرسے نہیں گزرا،یہ سلسلہ کیسے قائم ہوا،اور کس نے ایجاد کیا،اس پر میں یہاں بحث نہیں کروں گا،صرف اتنا عرض کروں گا کہ مرنے کے بعد انسان کا عمل سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی کتابِ عمل بند کردی جاتی ہے۔اور قرآن کریم کا صاف اعلان ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اٹھائے گا۔ اور ہر شخص خود ا پنے اعمال کا ذمہ دار ہوگا۔فاتحہ صرف دعا ہے جس کو قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے۔حج اور قربانی عمل ہے جس کا سلسلہ مرنے کے بعد ختم ہوجا تا ہے۔کیاکوئی مفتیان ِ دین یہ تاریخ سے ثابت کرسکتے ہیں؟کہ کسی صحابی نے حج بدل کیا ہو؟ یا حضورﷺاور خلفاء راشدین کے زمانے میں حج بدل کا رجحان قائم ہو؟۔۔۔
کچھ حضرات “ہبہ”کی نظیر پیش کریں گے،تو میں یہ عرض کروں گا کہ ہبہ زندگی اور ہوش و حواس قائم رکھنے والا ہی کر سکتا ہے،مردہ نہیں!اور اگرایک انسان دوسرے انسان کو اپنے نیک اعمال کا ثواب پہنچا سکتا ہے تو پھر عملِ بد کا کیوں نہیں؟پھر تو لوگ گناہ کریں اور مردہ افراد کے سر ڈال دیں۔۔اور خود پاک صاف ہو جائیں اور روزِ محشر اسی شخص کو سزا ملے گی جس شخص کو گناہ کا ٹرانسفر ہواور گناہ کرنے والا جنت میں مزے کرے گا۔اور حوضِ کوثر کے کنارے شرابِ طہور کے جام انڈیلے گا۔یا پھر مفتی حضرات قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیں جس کی رو سے ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے نیک اعمال کا ثواب پہنچا سکتا ہے۔
اسی طرح غیر مقام ِ حج پر جانوروں کی قربانی کیسے واجب ہے؟
میں نے خاص اس سلسلہ میں قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے،مجھے اللہ کی کتاب میں کوئی حوالہ نہیں ملا،پھر میں نے رسولِ پاک کی مقدس سوانح حیات کا مطالعہ کیا۔میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ آپ ﷺ نے ان ایام میں جب آپ ﷺ نے حج ادا نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ہو،یہی حال صحابہ کرام ؓ کا رہا ہے۔میں مانتا ہوں کہ دین کے معاملے میں مَیں ایک طالب علم ہوں یا دین کے معاملے میں “نابینا “رہا ہوں،ہوسکتا ہے قرآن کریم میں وہ نکات مجھے نظر نہ آئے ہوں جن سے یہ ثابت سو سکے کہ قربانی دنیا کے اہلِ زر ہر مسلمان پر واجب ہے، قربانی سے متعلق قرآن میں سور ہ بقرہ کی آیت 196،سورۃ الحج کی آیت 28,34,36,37ہے۔جو حج سے ہی وابستہ ہیں لیکن ان میں کہیں بھی کوئی ایسی بات درج نہیں ہے جس سے میری تشفی ہو سکے اور جو مروج ہیں،ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ہے کوئی علماء مشائخ اسلام جو حقیقت شناس ہو؟۔۔اور میری اس تشنگی کو قرآنی آیات کے حوالے سے بجھائے کہ ہر بار جب میں حقیقت کے لیے دروازہ بند کرتا ہوں تو وہ کھڑکی کے ذریعے میرے گھر میں داخل ہوجاتی ہے۔
میرے حساب سے تو موجودہ زمانے کے مسلمان حقائق پسند نہیں ہیں،جبکہ حقائق کا ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اس نے مسلمانوں کے ملی وجود کو ہر طرف سے چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔مگر مسلمانوں نے اپنے دروازوں اور کھڑکیوں کو اندر سے بند کرکے سمجھا کہ وہ طوفان کی زد سے محفوظ ہو گئے ہیں۔انہوں نے غیر جانبدارانہ طور پر سٹائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی،وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوگئے کہ ہم نے تو بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے ہیں۔اب ہم بے تیغ بھی لڑ سکتے ہیں۔ہم نے آندھیوں سے کہہ دیا ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ اپنا راستہ دوسری طرف تلاش کرلو۔پھر یہ طوفان ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
میری مانیے تو اپنے پھڑے پن کا اعتراف کرلیجئے،کہ مسلمانوں کے لیے تعمیرِ نوء کا آغاز یہی ہے اور جب تک وہ اس کا اعتراف نہ کریں وہ اپنی منزل کی طرف کوئی حقیقی سفر شروع نہیں کرسکتے۔
نہ تسلی،نہ تشفی نہ عنایت نہ کرم،
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں