بیوہ/مطلقہ کی عدت پر ایک سیکولرموقف۔۔۔(قسط2)سلیم جاوید

حضرات! عدت کے نام پرایک عورت کا بنیادی انسانی حق ایک خاص دورانیہ کیلئے معطل کردیا گیا ہے- مجھے اس کی منطقی وجہ سمجھائی جائے کیونکہ یہ کھیل کھلواڑ کی بات نہیں ہے- جب منطقی وجہ سامنے آجائے گی( جو کہ سامنے پڑی ہے) تواس بارے قرآنی ٹیکسٹ ازخود سمجھ آجائے گا-

مختلف تفاسیر میں عدت کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں، ان کا خلاصہ تین نکات ہیں( اور خاکسار تینوں سے متفق نہیں ہے)-

1- عدت برائے عورت تاکہ اس دوران نفسیاتی طور پربحال ہوجائے-
2-عدت برائے مرد تاکہ اس کو اسکا بچہ واپس مل سکے-
3-عدت برائے متوقع مولود تاکہ اس کو شناخت نسل کا ایشو نہ ہو-

ان میں سے پہلے اور تیسرے نکتہ پر آج تبصرہ کرلیتے ہیں جبکہ دوسرا پوائنٹ ذرا تفصیل چاہتا ہے تو ان شاء اللہ اگلی قسط میں اس پر بات کریں گے-

1- عدت برائے عورت:

کہتے ہیں کہ چونکہ ایک عورت کا شریک سفر، ہمیشہ کیلئے اس سے جدا ہوگیا ہے توصدمہ کے زیراثر اس عورت کو نفسیاتی طور پربحال ہونے کیلئے وقت چاہیئے-(جو کہ چارماہ ہے- کیوں؟)-

دیکھیے، تین کیس ہیں- ایک کیس یہ کہ عورت کا رفیق حیات مرگیا-ظاہرہے کہ عورت کو صدمہ ہوگا- دوسرا کیس یہ کہ خاوند نے طلاق دے دی- اب اسے زیادہ صمہ ہوگا ( کیوں کہ خاوند بھی گیا اوربے عزتی بھی ہوئی)- تیسرا کیس یہ کہ شادی کی پہلی رات، بغیرصحبت کیے ہی خاوند نے واپس کردیا- اب اور زیادہ صدمہ ہوگا (کہ خاوندبھی گیا، بے عزتی بھی ہوئ اورفطری خواہش سے بھی گئی)-

پس اگر نفیساتی بحالی والی بات مانی جائے تو پہلے کیس میں اگر چارماہ ضروری ہیں تو دوسرے میں چھ ماہ اور تیسرے میں شاید ایک سال ہونا چاہیے- مگرقرآن ہی بتاتا ہے کہ پہلے کیس میں چارماہ، دوسرے میں تین ماہ اور تیسرے میں کوئی عدت نہیں-
چنانچہ، خاکسار عدت کی اس “وجہ ” سے اتفاق نہیں کرتا-

میں نے غور کیا کہ کہ نفیساتی بحالی والی بات، احباب نے کہاں سے پکڑی ہے؟ تومیرا خیال ہے اسکی وجہ قرآن کی ایک اورآیت ہے جس میں مرد حضرات سے کہا گیا کہ دوران عدت ، عورت سے نکاح کاعزم نہ کریں- کیوں نہ کریں؟ اسکی وجہ تفاسیر میں یہ لکھی ہوئی ہے کہ عورت چونکہ صدمے میں ہوتی ہے، اس لئے اس کو یہ بات اس وقت گراں گزرے گی- (لگتا ہے اسی بات سے نفسیاتی بحالی والی بات وجود میں آئی)-

اچھا، اسی آیت کے ساتھ یہ بھی قرآن نے کہا کہ ہاں عدت کے دوران عورت کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دیا جاسکتا ہے( یعنی کوئی  گفٹ وغیرہ دے کر)- کیا یہ عجیب بات نہیں؟- کیا عورت کو اشارے کنائے سے بات سمجھ نہیں آتی؟ تو کیا اشارہ کنایہ کرنا پھر اس عورت پر اس حالت میں گراں نہیں گزرے گا؟- جب اشاروں اشاروں میں ہی بات کرنا ہے تو صاف بات کیوں نہیں؟- (بہرحال، پیغمبر اسلام نے حضرت ام سلمی کو دوران عدت ہی ایسا پیغام بھیجا تھا)-

خاکسار عرض کرتا ہے کہ دروان عدت، نکاح کے پیغامات بھیجنا تو غمزدہ اورپریشان عورت کیلئے حوصلہ افزائی کا سبب ہوتے ہیں نہ کہ حوصلہ ٹوٹنے کا- غور کیجیے گا-

3– بچے کی شناخت نسلی کا مسئلہ:

تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ عدت کے دنوں میں بچہ ہونے کا پتہ چل جائے گا تو اسکو والد کا نام دیاجاسکتا ہے مگرکسی اور سے شادی ہوگئی  تو بچے کے والد کی شناخت کا ایشو کھڑا ہوگا جوکہ اس معصوم کیلئے سماجی مسئلہ بنے گا، اس لئے چار ماہ انتظار کرنا بڑی بات نہیں ہے-

دیکھیے، بچے پر رحم کرنے والی وجہ بنانا اچھی چیز ہے مگر میرا نہیں خیال کہ قرآن نے بچے کے اس ایشو کو یہاں ایڈریس کیا ہے- اس خیال کی وجہ بھی قرآن سے ہی عرض کردیتا ہوں-

کیا آپکو قرآن میں بیان کیے  گئے قانون “لعان” کا پتہ ہے؟ -” لعان” اسکو کہتے ہیں کہ کسی خاوند نے قاضی کو آکربتایا کہ میں نے اپنی بیوی کوایک غیرمرد کے ساتھ سوتے ہوئے پایا مگرمیرے پاس چار گواہ نہیں ہیں- ظاہر ہے کہ یہ خاوند اب اس بیوی کو رکھ نہیں سکتا- قاضی دونوں فریقین سے قسما قسمی اٹھوانے کے بعد، انکی طلاق کروا دے گا- (قاضی کیوں جدائی  کروائے گا؟- کیونکہ اب یہ خاوند اس بیوی کو ضرر پہنچا سکتا ہے)-

میرا سوال یہ ہے کہ قاضی کی طرف سے جدائی  کے بعد اس عورت کے ہاں اگر بچہ پیدا ہوا تو اب اس معصوم کا والد کون ہوگا؟- کیونکہ پہلا خاوند ، اس بچے کو اپنا ماننے پہ تیار نہیں ہوگا اورکسی دوسرے مرد کا نطفہ یہ عورت ماننے کو تیار نہیں تو اس بچے کی آئندہ زندگی پرترس کھاتے ہوئے، قرآن نے بھلا کیا بتایا ہے کہ یہ کس کا بیٹا کہلائے گا؟- اس پہ بھی سوچیے گا-

چنانچہ، خاکسار عدت کی اس دوسری وجہ سے بھی اتفاق نہیں کرتا-

اب تیسری وجہ جو یہ بیان کی جاتی ہے کہ عدت میں بچہ ظاہرہوجائے گا تو اسکے اصلی مالک یعنی والد کو اسکی”امانت” لوٹا دی جائے گی- اس پرمیرا سوال تھا کہ یہ اصول کس بنیاد پروضع ہوا کہ بچے کی ملکیت صرف باپ کی ہوتی ہے؟- (اسکو آگے ڈسکس کریں گے) –

بات یہ ہے کہ اسلام بڑا ہی منطقی دین ہے- عدت بارے کسی منطقی وجہ تک پہنچ گئے تو ان شاء اللہ اس ضمن میں ساری آیات کو ایک ہی ہلہ میں سمجھنا آسان ہوجائے گا- احباب گلہ کرتے ہیں کہ آپ بہت طویل لکھتے ہو-اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ صدیوں سے ہمارے اذہان پر جو خودساختہ منطق لیپ دی گئی ہے، پہلے اسکو کھرچنا ضروری ہے جس پروقت لگتا ہے-
عدت کیوں مشروع کی گئی؟ اسکی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگرعورت کا حمل ٹھہر چکا ہو تو پچھلے خاوند کوبچہ واپس کیا جائے گا کیونکہ والد اسکا مالک ہے-

اس ضمن میں ہمارے پاس دو سوال ہیں- ایک یہ کہ کیا شادی کا مقصد بچے پیدا کرنا ہی ہے؟- (اگر نہیں توبنیادی وجہ ہی کالعدم ہوگئی)- دوسرا سوال یہ کہ شادی سے اگر بچہ پیدا ہو تو کس بنیاد پہ صرف والدہی مالک ہے؟-( اگر والد ہی مالک ہے تو اسکو بچہ واپس کرنا ضروری ہوگا- اسکے لئے ماضی میں اگرعدت لازم تھی تو اب یہ کام میڈیکل ٹسٹ سے ہوسکتا ہے-پس عدت کی ضرورت نہ رہی)-

دونوں سوالات کو ڈسکس کرتے ہیں-

سوال نمبر ایک: کیا شادی کا مقصد بچے پیدا کرنا ہی ہے؟-

خدا نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کیلئے جنسی پیاس رکھ دی ہے- سماج نے مگرایک خاص بندھن شادی کا متعارف کرایا ہے جسکا بڑا مقصد سماج میں امن کا قیام ہے- اب ہم قرآن سے یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ شادی کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟-

دیکھیے، قرآنی ٹیکسٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شادی کے عمل سے مقصود ہے نسل انسانی کا بڑھانا- ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ شادی کا یہی اصلی مقصد ہے- (نسل بڑھاننے کے اس عمل کو مہذب الفاظ یوں کہا جاتا ہے کہ شادی کا مقصد خاندان کا ادارہ کھڑا کرنا ہے)- خیر، ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر اس “عظیم” مقصد کے بغیرشادی کی جائے( جو کہ آجکل رواج پاتی جارہی ہے) توکیا شرعاً وہ شادی نہیں کہلائے گی؟-

دوپیراگراف ایسی صورت میں بنا کرپیش کررہا ہوں کہ ہرایک میں تین تین جملے ہیں- آپ ذرا ان کا آپس میں موازنہ کیجیے گا-

پہلا پیراگراف-

1- قرآن نے فرمایا کہ خدا نے جانور اس لئے پیدا کئے کہ تم انسان، ان سے سواری کا فائدہ اٹھاؤ اور انکا گوشت کھاؤ-

2- ہم یہ کہتے ہیں کہ عموماًاسی مقصد کیلئے ہی جانور پیدا کئے گئے ہیں جو قرآن نے بتایا ہے- مگراس دنیا میں، کم تعداد میں سہی، مگر ایسے جانوربھی موجود ہیں جو نہ سورای کےکام آتے ہیں اور نہ انکا گوشت انسان کی خوراک بنتا ہے؟- تو کیا ایسے جانوروں کا وجود، قرآنی ٹیکسٹ کو غلط ثابت کردیتا ہے؟- ہم کہتے ہیں ” نہیں بلکہ قرآن نے جنرل بات کی ہے مگر استثنائی  کیسز کا انکار نہیں کیا”-

3- اگلا سوال یہ ہے کہ اگر فقہیاء نے قرآنی ٹیکسٹ کی بنا پر جانوروں کے مسائل وحقوق بیان فرمائے کیا وہ ان جانوروں کیلئے بھی یکساں ہونگے جن سے سواری اور خوراک والی بات متعلق نہیں ہوتی؟- ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ ایسے جانوروں کا کیس الگ سے ڈیل کرنا ہوگا- البتہ قرآنی ہدایت کی روح سے استفداہ کیا جائے گا-

دوسرا پیراگراف:

1- قرآن نے فرمایا کہ مردو عورت کے ملاپ کا مقصد انسانی نسل کی ترویج ہے-

2- ہم کہتے ہیں کہ عموماًاسی مقصد کیلئے ہی شادی ہوتی ہے جو قرآن نے بتایا ہے-مگر دنیا میں ایسی شادیاں بھی اب رواج پا رہی ہیں جنکا مقصد بچے حاصل کرنا نہیں ہوتا- تو کیا ایسی شادیوں کا وجود، قرآنی ٹیکسٹ کو غلط ثاب کردیتا ہے- ہم کہتے ہیں” نہیں بلکہ قرآن نے جنرل بات کی ہے مگر استثائی  کیسز کا انکار نہیں کیا “–

3- اگلا سوال یہ ہے کہ اگر فقہاء نے قرآنی ٹیکسٹ کی بنا پرمسلمانوں کی شادی وطلاق وعدت کے مسائل وحقوق بیان فرمائے ہیں ، تو کیا وہ ایسے جوڑوں کیلئے بھی یکساں ویلڈ شمار ہونگے جن جوڑوں نے نسل بڑھانے کی بجائے فقط جنسی ضرورت پوری کرنے کو شادی کی ہے؟- ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ ایسی شادیوں کا کیس الگ سے ڈیل ہوگا- البتہ قرآنی روح سے استفادہ کیا جائے گا-

اگرآپ نے مندرجہ بالا نکات کا موازنہ کرلیا ہے تو آپ میرا یہ سوال سمجھ جائیں گے کہ اگرکوئی  شادی، نسل انسانی بڑھانے کی بنیاد پہ ہوئی ہی نہیں تو طلاق وبیوگی کی صورت میں پھرعدت کس لئے؟-

دراصل دنیا اسی رواں صدی میں اچانک بدلی ہے ورنہ گزشتہ ہزاروں سال سے انسان ایک ہی فلسفہ حیات پرجی رہے تھے- کھانا کھانے کامقصد بھوک مٹانا ہی ہوتا تھا- پس سبزی ، گوشت، دال سے بات آگے نہیں بڑھی (اورپکانے کا بھی ایک ہی طرز) کیونکہ خوراک ایک ضرورت تھی، مشغلہ نہیں تھا- آج کل برگر، پیزا وغیرہ جیسی چیزیں متعارف ہوگئی ہیں تو یہ پیٹ بھرنے سے زیادہ لذت کام ودہن کی خاطر ہیں- ماضی بعید کا آدمی، یہ تصور نہیں کرسکتا کہ بغیربھوک لگے فقط زبان کے چٹخارے کیلئے بھی چاول پکانے کے ایک سوطریقے متعارف ہوجائیں گے- بعینہ، پچھلی صدی تک انسانی سیکس کا بنیادی مقصد بچے پیدا کرنا ہوتا تھا- چنانچہ ماضی کےانسانوں میں اس جنسی عمل کا تقریباً  ایک ہی طریقہ کار رائج تھا- آج مگر سیکس کے نت نئے طریقے اس لئے مارکیٹ میں ہیں کہ زمانہ موجود میں یہ عمل نسل بڑھانے کی بجائے فطری پیاس کوکئی رنگوں میں بجھانے کا عمل ہے-

چنانچہ، ہمارا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ زمانہ جدیدہ میں مسلم نکاح فارم پہ سب شرائط تفصیل سے لکھی جانا چاہئیں- فی زمانہ، نہ صرف اولاد پیدا کرنے کو باہمی رضامندی سے مشروط کیا جائے بلکہ فریقین کی جدائی کی صورت میں اولاد کا حق ملکیت بھی اسی معاہدہ میں طے کیا جائے- (عدت کا مسئلہ بھی اسی شادی فارم سے حل ہوجائے گا)-

سوال نمبر دو: شادی سے اگر بچہ پیدا ہو تو کس بنیاد پہ صرف والدہی مالک ہے؟-

دنیا بھر میں یہ معروف ہے کہ باپ ہی بچے کا مالک ہوتا ہے مگردنیا میں کسی چیز کا عام ہونا، اسکے درست ہونے کی سند ہوتی تو پیغمبر کیوں آتے؟- ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سماجی قانون کیسے بنا جس میں اولاد، صرف باپ کی ملکیت ہوتی ہے اور ماں کی نہیں؟-

انسان کی معلوم تاریخ سے لے کرنزول قرآن کے زمانے تک، دنیا میں پدرسری اور قبائلی معاشرہ ہی موجود رہا جہاں عورت سے شادی کا کانٹریکٹ صرف اس بنیادی چیز پہ ہوا کرتا تھا کہ مرد کے قبیلہ کوافرادی قوت فراہم کرنا ہے- (اگرچہ عورت کے حسن کی بنا پراسکی قمیت کم وبیش لگا کرتی تھی لیکن یہ ان لکھا اصول موجود تھا کہ عورت نے قبیلے کے افراد بڑھانا ہیں)- اس بنیادی مقصد کی خاطر، خاوند کی زیادہ شادیوں میں اسکا کوئی دخل نہیں تھا-

پھرعرب کے قبائلی معاشرہ میں تو عورت کو خاص اسی مقصد کیلئے “خریدا” جاتا تھا(مہر کی قیمت اور نان ونفقہ کی ادائیگی دراصل پیمنٹ کا معاہدہ ہی ہے)- جاہلیت میں ایسا بھی ہوا کہ باپ کے مرنے کے بعد، سوتیلی ماں سے بیٹے نے شادی کرلی کیونکہ “پیمنٹ” ہوچکی تھی- چنانچہ، اس زمانے کی عورت کی شادی اس اصول پرطے ہوتی تھی کہ وہ نان نفقہ کے بدلے، نسل بڑھائے گی اور اگر خاوند مرگیا ( یا طلاق دے دی) توبھی وہ عورت اپنا پراٖکٹ، قبیلے کے حوالے کرکے جائیگی-

یعنی سماج نے ازخود یہ دستور تشکیل دیا کہ شادی میں سیکس کا مزہ/فائدہ تو دونوں پارٹنرز- برابراٹھاتے ہیں مگر اخراجات کا بارصرف مرد پرہوتا ہے تو پراڈکٹ یعنی اولاد بھی باپ کی ملکیت ہوگی-

چنانچہ، ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر فی زمانہ، عورت اپنے بچوں کابار اٹھاسکتی ہوتومزید کیا قانونی یا منطقی وجہ رہ جاتی ہے کہ بچے صرف مرد کی ملکیت قرار دیئے جائیں؟- اگر آپ میری بات سمجھ رہے ہیں تو پھر عدت کی یہ وجہ قابل قبول نہیں لگتی کہ عورت اس لئے چند دن انتظار کرے کیوںکہ “اصل مالک” کو امانت لوٹانی ہے- ( اور مزید یہ کہ ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ کی دریافت کے بعد، عورت کومحض اسی خاطر انتظار کروانا معقول نہیں لگتا)-

خاکسار ایک وضاحت کرنا چاہتا ہے- بہت سی وجوہات کی بنا پر اورسماجی انتشار سے بچنے کیلئے، میں اسی حق میں ہوں کہ والد کوہی بچے کی ملکیت سونپی جائے- مگریہ خدائی  قانون بہرحال نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی ایشو ہے- خدا نے قرآن میں بتایا کہ انسانوں کےتعارف کیلئے قبیلے بنائے گئے مگرآج کل قبیلہ کی بجائے پاسپورٹ اوردیگرشناختیں مروج ہیں تو یہ کفرنہیں ہوگیا بلکہ روح قرآن پہ ہی عمل ہوا- دنیا میں باپ کے نام سے پہچان کا ہونا اور یوم محشرمیں ماں کی نسبت سے پکارا جانا، اس کی اپنی وجوہات ہیں جو سب انتظامی ہیں نہ کہ الہی قانون کا درجہ رکھتی ہیں- ( بس اسی نکتہ کو واضح کرنے آج کی قسط لکھی گئی ہے)-

یہاں تک پہنچ کرتقریباً مضمون کی بنیاد تیار ہوگئی ہے- مگرقرآنی حکمت کو سمجھنے کیلئے اسکے اولین  مخاطب طبقہ کا کلچر سمجھنا بہت ضروری ہے- احباب کا اصرار ہے کہ عدت بارے قرآنی آیات کی ڈائریکٹ تشریح کی جائے مگرہمارا موقف ہے کہ زمانہ نزول کے کلچر کو سمجھے بغیر،ان آیات کی لفظی تشریح کرنا، آپکی زندگی اجیرن کردے گا جبکہ خدائی  دعویٰ یہ ہے کہ اس نے دین کو انسانوں کی زندگی تنگ کرنے کیلئے نہیں بلکہ آسان بنانے کیلئے نازل کیا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply