عیسیٰ ؑعلیہ السلام کی پیدائش ۲۵ دسمبر کو کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں-
عیسیٰ ؑ شرک و بت پرستی کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے پر انکے بعد چرچ نے انکی سالگرہ کے لیے ان ایام میں سے ایک دن کا انتخاب کیا، جن میں پہلے ہی کئی یونانی دیوتاؤں کا یوم پیدائش اور جشن منایا جاتا تھا۔
اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو مشرکین اور بت پرستوں کے مشابہہ کر لیا۔ اسی طرح ہماری ہدایت کے لیے اللہ نے اپنے رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو محفوظ کر رکھا ہے، پر ہمیں اس میں کہیں وہ اپنی سالگرہ مناتے نظر نہیں آتے۔ پھر انکے اصحاب، رضوان اللہ علیہم اجمعین، جو ان سے اتنی محبت کرتے کہ انکے وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے، انکی زندگیوں میں بھی ہمیں اس دن کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی۔ دو تین صدیوں بعد یہ بدعت ایجاد کر کے اپنے آپ کو نصاریٰ کے مشابہہ کر لیا۔
عیسائی ، عیسیٰ علیہ السلام ؑ کو خدا کا بیٹا، حاضر ناظر، دعاؤں کا سننے اور قبول کرنے والا سمجھتے ہیں جبکہ اللہ نے انہی کی زبان سے انہیں ایک بشر، اللہ کا بندہ اور رسول بتایا۔
عیسائی صلیب کو عظمت کا نشان اور بابرکت خیال کرتے ہیں اور گلے میں لٹکاتے ہیں اور گھروں، دوکانوں وغیرہ میں سجاتے ہیں۔۲۵ دسمبر کو عیسائیوں کے ہاں عام تعطیل ہوتی ہے اور وہ سارے کام کاج چھوڑ کر عیسیٰ ؑ کا ‘جشن میلاد’ مناتے ہیں جس میں بہت سے شرکیہ افعال اور گیت شامل ہوتے ہیں۔
اس حدیث میں بہت عقل والوں کے لیے تنبیہہ ہے جو آپ کو اتنا ضرور باور کرائے گی کہ مجھے میری کرسمس کہنا چاہیے یا نہیں ،حدیث ہے کہ “من تشبہ بقومٍ، فھو منھم۔”جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
کرسمس کی غرض و غایت!
اس تہوار کی غرض و غایت بیان کرنے کی حاجت نہیں۔ مختصر یہ کہ نصاریٰ کے نزدیک اس دن اللہ کے بیٹے (نعوذ باللہ من ذالک) کی پیدائش ہوئی ۔ یہ عقیدہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ خود قرآن کریم ً میں اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس عقیدے کا ذکر کیا ہے اور نہایت غضب کا اظہار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرنقص سے پاک ذات ہے ۔ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے (لم یلد ولم یولد – اخلاص :3) ۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے دینی شعور انتہائی کم ہے اور لوگوں میں سنی سنائی باتوں اور دوسری کی دیکھا دیکھی اعمال کرنے کی عادت ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دینی تعلیم کی کمی اور خاندان یا علاقے کے بڑوں بوڑھوں کی اندھی تقلید ہے۔ہمارے معاشرے میں بیشتر رسومات صرف اپنے بڑے بوڑھوں کے کرنے کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کئی رسمیں اور کھیل تماشے دین کے نام پر کرتے ہوئے ملیں گے۔
چونکہ بات کرسمس کے حوالے سے کرنی ہے لہذا میں اپنے موضوع پر آؤں گا۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کرسمس منانے کا بنیادی مقصد کس عقیدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عقیدہ ہر مسلمان کیلئے ناقابل قبول ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود اللہ رب العزت اپنی کتاب میں اس عقیدہ فاسدہ کی مذمت اور تردید فرماچکا ہے ۔ میں یہاں صرف سورہ مریم کی آیات 88 تا 92 پیش کروں گا جس میں اللہ رب العزت اس عقیدے پر اپنے غضب کا اظہار فرما رہا ہے ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ( 88 )
اور کہتے ہیں کہ رحمن (اللہ) بیٹا رکھتا ہے
لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ( 89 )
(ایسا کہنے والو یہ تو) تم بری بات (زبان پر) لائے ہو
تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ( 90 )
قریب ہے کہ اس (افتراء) سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں
أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا ( 91 )
کہ انہوں نے رحمٰن (اللہ) کے لئے بیٹا تجویز کیا
وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ( 92 )
اور رحمٰن کیلئے شایان شان نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے۔
ان آیات میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کیلئے بیٹے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، وہ ایسی سخت بات کرتے ہیں کہ جس سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اللہ رب العزت یکتا ہے اور اس کا کسی امر میں کوئی شریک نہیں۔
اسی تہوار کے دنوں میں ہمارے ”انٹرٹینمنٹ ” کے چینلز جن میں جیو کا اخلاق سوز ڈرامہ ” یہ زندگی ہے” (جس کا کام ہی لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنا ہے ۔ گالی گلوچ، لعن طعن اور لڑائی جھگڑوں کے مناظر سے یہ ڈرامہ بھرا ہوا ہے ) اول نمبر پر ہے، کرسمس کی خوشیاں بانٹتے نظر آئے۔ پروڈیوسر نے تو یہاں تک حد کردی کہ اپنی بیٹی کے ذریعے کرسمس کی ”خوشیوں” (نعوذ باللہ) کو عوام تک پہنچایا۔ اس ڈرامے کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی بھی خاص دن یا تہوار پر اپنی قسط میں ”ٹوئسٹ” بھرتے ہیں۔ کبھی تو شب برات مناتے نظر آتے ہیں تو کبھی قائد اعظم کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔ کبھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد شریف مناتے ہیں اور باقاعدہ میلاد شریف کی محفلیں سجا کر ہدیہ نعت پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف کرسمس کے تہوار کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ایک ”خوشی” ہے !! انا للہ وانا الیہ راجعون اوپر پیش کردہ آیات قرآنی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیجیے کہ “یہ اندازِ مسلمانی ہے”؟۔۔۔ ہم کس کی تعلیمات کی پیروی کر رہے ہیں ؟ کیا ہم واقعی طرز ِ مسلمانی اپنا رہے ہیں اور کیا واقعی یہ میڈیا اور ٹی وی چینلز ہماری تربیت کر رہے ہیں؟ یہ ہمیں کس طرف لے جارہے ہیں؟ اور عوام کیوں بے دھڑک ہر بات کو ہضم کرجاتے ہیں ؟
نصاریٰ کا باطل عقیدہ!
لقد کفرالذین۔۔ شیء قدیر
ترجمہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا ًکافر ہوگئے ہیں۔ (اے نبی جی ، ان سے) کہہ دو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور ان کی ماں کو اور زمین میں جتنے لوگ ہیں ان سب کو ہلاک کرنا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں کچھ کرنے کی ذرا بھی طاقت رکھتا ہو؟ تمام آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چیز چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔(المائدۃ:17)
مذکورہ آیت میں نصاریٰ کے اس باطل عقیدے کی نفی کی گئی ہے:
بائبل کی کتاب اعمال میں ہے: “پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔ ”
(اعمال ٢:٣٦)
تشریح : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کا کفر بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے مخلوق کو خدائی کا درجہ دے رکھا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک وہمسر نہیں ۔ تمام مخلوقات ، جن وانس چرند وپرند ، حیوان وحشرات ، شجروحجر ، زمین وآسمان ، چاند وسورج ، خشکی وتری ، آگ وہواوغیرہ سب اسی کی محکوم ومملوک ہیں اور سب فانی ہیں ۔ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور قابل فنا تھے ۔ ان میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت واختیار سے باہر نہیں تھا ۔ بھلا جو فانی اور مخلوق ہو وہ کیسے خالق ہوسکتا ہے اگر اللہ تعالیٰ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی والدہ اور روئے زمین کی تمام مخلوق کو نیست ونابود کردینا چاہے تو کسی کی مجال نہیں کہ آگے آکر اسے روک سکے اور ان کو فنا ہونے سے بچا سکے ، کوئی نہیں جو اسے کسی ارادے سے باز رکھ سکے اور کوئی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف لب کشائی کی جرات کرسکے ۔ تمام موجودات ومخلوقات کا موجد وخالق وہی ہے ۔ وہ جو چاہے کرے ۔ کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں ۔ اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ۔ اس کی سلطنت ومملکت بہت وسیع ہے ۔ اس کی عظمت وعزت بہت بلند ہے ، وہ عامل وغالب ہے جسے جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور فنا کرتا ہے ۔ وہ سابق مادے کے بغیر بھی پیدا کرتا ہے جیسے آسمان اور زمین کو محض عدم سے وجود میں لایا ۔ اور غیر جنس کے مادے سے بھی پیدا کرسکتا ہے جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور صرف نر سے بھی پیدا کرسکتا ہے جیسے حضرت حوا کو حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور صرف مادہ سے بھی پیدا کرسکتا ہے ۔ جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت مریم سے پیدا کیا اور نرومادے کے جوڑے سے بھی پیدا کرسکتا ہے جیسے اکثر جانوروں اور انسانوں کو پیدا کرتا ہے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ زندہ کرنا بھی اس کی قدرت میں ہے اور مار دینا بھی اس کی قدرت میں ہے ۔
( تفسیر احسن البیان بحوالہ، ابن کثیر 2/34، مظہری 3/68 )
بحمدللہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس عقیدہ پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان پر “انجیل “ نازل کی گئی جس میں بعد میں تحریف کردی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر لٹکانے کی ناکام کوشش کی اور اپنی انبیاء دشمنی کا ثبوت دیا لیکن اللہ رب العزت نے انھیں با حفاظت آسمان پر اٹھالیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت کے وقت دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے ۔
اقبال مرحوم کیا خوب کہہ گئے ہیں ع
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں