• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔رمشا تبسّم

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔رمشا تبسّم

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
کوئی طلب ہے مجھے زیست میں تو اتنی ہے
نبیﷺ کی چاہ ملے اور بے پناہ ملے

حضرت محمدﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ نبیﷺ کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمارے لئے دین اسلام کو نازل کیا۔جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔جس طرح دین محمدیﷺ عبادات, رہن سہن ,حسن اخلاق, عدل و انصاف, تعلیم و تربیت, انسانوں کے حقوق و فرائض کے متعلق راہنمائی فرماتا ہے۔ اسی طرح وہ سیاست اور سیاست کے قواعد و ضوابط اور آئین کے متعلق بھی راہنمائی فرماتا ہے۔ اسلام اور نبی پاکﷺ کی تعلیمات کا جتنا تعلق اللہ کی عبادات اور اطاعت سے ہے ،اتنا ہی تعلق سیاست, حکومت اور رہنما سے بھی ہے۔ نبی پاکﷺ کی ذات اقدس ایک بہترین مصلح، معلم اور رہنما کا عمدہ نمونہ ہے۔ آپﷺ نے جس معاشرے میں پرورش پائی وہ قبائلی معاشرہ تھا۔ اجتماعیت سے زیادہ قبائلی عصبیت ہر فرد کی ذات کا خاصہ تھی۔ نبی پاکﷺ نے نبوت کے مختصر عرصے میں اپنی تبلیغ، رہنمائی اور بہترین حکمت ِ عملی سے قبیلوں میں بٹی عوام کو ایک قوم بنایا۔

سیاسی اصلاحات

حلف الفضول اور ہجر اسود دو ایسے واقعات ہیں جو قبل از نبوت آپ کی سیاست اور اجتماعی شعور کی بہترین مثالیں ہیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد آپ ایک بہترین سیاسی رہنما بن کر سامنے آئے۔ میثاق مدینہ وہ معاہدہ تھا جس نے مختلف قبیلوں اور قوموں میں بٹے مسلمانوں کو ایک مسلم قوم بنایا۔ مواخات میں جہاں آپﷺ نے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنایا۔وہاں مسلمانان مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان میثاق مدینہ قائم کیا تا کہ باہمی اختلافات کو ہوا نہ ملے اور مشرقین مکہ یا دیگر قبائل مدینہ پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کریں۔ آپﷺ کے سیاسی تدبر سے مدینہ کو حفاظت و سکون کے حالات میسر آئے۔ علامہ طبری کے نزدیک نبی کریمﷺ نے مدینہ آنے کے چند ماہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی جس کا مقصد شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری مملکت ،قرار دینا اور اس کا انتظام و دستور مرتب کرنا تھا۔ اس پر محمد حسین ہیکل حیات محمدﷺ میں لکھتے ہیں کہ ”یہ تحریری معاہدہ جس کی رو سے حضرت محمدﷺ نے آج سے تیرہ سو سال قبل ایک باضابطہ انسانی معاشرہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور فرد کو ا پنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، اموال کو تحفظ کی ضمانت مل گئی، ارتکاب جرم پر گرفت ہوئی“۔

آپﷺ کی جنگی حکمت عملی ہی کی وجہ سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود مسلمانوں نے ابتدائی تین جنگوں میں مشرکین مکہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ غزوہ احد میں آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو پہاڑی درے کی حفاظت پر مامور کر کے جہاں اپنی جنگی صلاحیتوں کا ثبوت دیا وہاں غزوہ خندق میں سلمان فارسی جیسے ساتھی کے مشورے پر عمل کر کے آپ نے حکومتی فیصلوں میں اپنے ساتھیوں کے مشوروں پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ صلح حدیبیہ آپ کی سیاسی حکمت عملیوں میں ایک کامیاب سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نہ صرف مکہ فتح ہوا بلکہ آپﷺ کا پیغام عرب کے صحراؤں سے نکل کر قیصر و کسریٰ  کے محلوں میں گونجنے لگا۔ مدینہ اور قرب و جوار کے قبائل سے جہاں انہوں نے داخلی حالات پر کنٹرول کیا وہیں دیگر ممالک کے حکمرانوں کو خط لکھ کر خارجی منظر نامے پر ایک مدبر رہنما ثابت کیا۔

سماجی اصلاحات

آپﷺ تطہیر ذات اور تطہیر سماج کے لیے اس دنیا میں بھیجے گئے۔ جہاں آپ ﷺ نے ذات کی تطہیر کی وہاں مدینہ کی ریاست قائم کر کے عربوں جیسے قبائلی معاشرے میں سماجی تطہیر کا عمدہ نمونہ پیش کیا۔ نبی پاکﷺ نے ہمسایوں، والدین اور خواتین کے حقوق و فرائض سے معاشرے کو آگاہ کیا۔ خطبہ حجة الوداع آپﷺ کی سماجی اصلاحات میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ آپ ﷺ نے معاشرتی اور طبقاتی فرق مٹاتے ہوئے اسلام میں مساوات، نرم مزاجی اور خوش اخلاقی پر بہت زور دیا۔ آپﷺ نے فرمایا ”اسلام ميں تمام انسان برابر ہيں، گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر، امیر کو غریب پر یا غریب کو امیر پر، نہ عرب کو عجمی پر اور نہ عجمی کو عرب پر فوقیت حاصل ہے“ـ ہر طبقے کے معاملات سے متعلق آگاہ کیا جو معاشرے کی بنیاد ہیں اور جن میں کوتاہی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی سبب جناب بلال حبشی اور جناب زید بن حارث جیسے غلاموں کی حثیت جناب عثمان اور جناب ابوبکر کے برابر تھی۔ جناب انس دس سال تک آپﷺ کی خدمت گھر کا فرد بن کر کرتے رہے۔ آپﷺ نے خواتین کو ایک ارزاں اور بازار میں فروخت ہونے والی جنس سے اٹھا کر گھروں کی زینتیں بنایا۔ ذخیرہ اندوزی، شراب، جوئے، جھوٹ اور وعدہ خلافی جیسی لعنتوں سے لتھڑے ہوے سماج کی تطہیر کے لیے اپنے اور اپنے اصحاب کے ذریعے عملی نمونہ پیش کیا۔

اس کے علاوہ آپﷺ نے شہروں کو بسانے، صحت وصفائی کے معاملات، تعلیم حاصل کرنے، تجارتی منڈی بنانے اور راستوں کو کشادہ رکھنے جیسے سماجی معاملات پر عمل کر کے مدینہ کو اس وقت کے عرب کی ایک مثالی ریاست بنایا۔ آپﷺ نے اس زمانے میں کسی بھی شہر کی حد بندی کی زیادہ سے زیادہ حد پانچ سو ہاتھ مقرر فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’اگر شہر کی آبادی اس سے بڑھ جائے تو دوسرا شہر آباد کیا جائے‘‘۔حضرت ابوذر غفاریؓ سے رسول کریمﷺ نے ایک موقع  پر فرمایا ’’جب مدینے کی آبادی سلع تک پہنچ جائے تو تم مدینہ چھوڑ دینا اور شام چلے جانا“ـ آپﷺ نے وسط مدینہ میں ایک مرکزی مارکیٹ بنوائی، جسے سوق المدینہ کہا جاتا ہے ۔ اس وقت مدینے کی مشہور اور بڑی مارکیٹ قینقاع تھی جو یہودیوں کے علاقے میں تھی ـ رسول پاکﷺ نے اس کے مقابلے میں مدینہ میں مرکزی جگہ پر مسجد نبوی اور بقیع کے نزدیک ’’سوق المدینہ‘‘ بازار بنوایا۔ نبیﷺ نے اس مارکیٹ کی مرکزیت، وسعت اور عوامیت کو برقرار رکھنے کے لیے فرمایا:’’ یہ تمہارا بازار ہے نہ تو اس کو کم کرو اور نہ اس میں ٹیکس لگاؤ‘‘۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ مسجد نبویﷺ کے صحن میں خیمہ نصب کر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا۔ رسول پاکﷺ نے تفریح کے لیے مدینہ شہر کے باہر وادی عقیق کو منتخب فرمایا۔ وہاں آپﷺ نے سیرگاہ حمی النقیع کے نام سے بنوائی، جو گھوڑوں کی چراگاہ بھی تھی۔ وہاں پیڑ پودے اس کثرت سے لگوائے گئے کہ وہ خوب صورت تفریح گاہ بن گئی ۔ باغات، پانی اور شادابی کے سبب یہ جگہ سیرگاہِ مدینہ کہلائی۔ ابن ہشام السیرة النبویہ میں لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے قلعوں کو مسمار کرنے اور بلا ضرورت درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا۔ بلدیاتی نظام چلانے کے لیے مقامی طور پر منتظمین کا بھی تقرر فرمایا تھا۔ یہ منتظمین بے شمار تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نبی پاک ﷺ ذات اقدس رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ آپﷺ کی شخصیت کی بے شمار جہات ہیں۔ اس مضمون کا مقصد ان بے شمار صلاحیتوں میں سے صرف دو صلاحیتوں کا ذکر کر کے باقی صلاحیتوں کا انکار نہیں بلکہ موضوع کے مطابق باقی تمام صلاحیتوں کا اقرار کرتے ہوئے ان دو صلاحیتوں پر روشنی ڈالنا  ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply