جہالت بھی ہماری جہالت پر ماتم کرتی ہوگی۔۔علی انوار بنگڑ

دنیا وبا سے لڑ رہی ہے ، اور ہم جہالت سے۔۔یہی حال ہمسایہ ملک کا ہے،جس کا نتیجہ وہ بھگت رہا ہے۔ جب کہا جاتا ہے اس سال تراویح گھر میں پڑھ لو ،وبا پھیلنے کا خطرہ ہے۔ تو جواب آتا ہے فلانے فرقے نے تو اپنا جلوس نکالا ہے۔ ایک کو کہا جاتا ہے کہ اس سال  مسجد میں اعتکاف پر نہ بیٹھیں ، بلکہ گھر میں بیٹھ جائیں  ،جواب پھر وہی کسی دوسرے فرقے کو تو روکا نہیں۔ ایک کو کہا جاتا ہے جلوس مت نکالو ،جواب آتا ہے کہ باقیوں کے اجتماع کو تو روکتے نہیں ہم ہی کیوں۔ مطلب ایک فرقہ جہالت کا مظاہرہ کرے گا تو میں پیچھے کیوں رہوں ۔ تقریباً سبھی مسالک والوں کا یہی  حال ہے۔ سبھی کے  علما  کا کردار بھی اس حوالے سے اچھا نہیں۔ بلکہ لوگوں کو کہتے  ہیں دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں اور عمل  اس کے متضاد ہوتا ہے۔ ہم مسالک کو اپناتے بھی ضد کی صورت میں ہیں۔ اگر فلاں نے کچھ کیا ہے تو میرا فرقہ پیچھے کیوں رہے۔ وبائیں عقیدے نہیں دیکھتیں، اور ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اگر آپ ایک مسلک سے جڑے لوگوں کی غلطی کی نشاندہی کریں تو دوسرے والا بغلیں بجا رہا ہوتا ہے اور جب ان کے کسی مولوی کی غلط بات کو غلط کہہ دیں ، تو پہلے والا واہ واہ کرے گا۔ اور آپ کو دونوں طرف سے کفر کے فتوے  مفت میں ملیں گے۔

ہمیں سچ تب تک پسند ہے جب تک وہ دوسرے سے جڑا ہو۔ اپنے لیے نہیں۔۔ کیونکہ ہم اس چیز کے قائل ہیں کہ میری ذات، میری قوم، میرا فقہ، میرا مذہب ہی ٹھیک ہے۔ بے شک لاکھ برائیاں ہوں۔ ہم پتا نہیں کیوں یہ سمجھتے ہیں اگر کوئی ہماری غلطی کی نشاندہی کردے  گا ،تو اس سے ہمارا مذہب اور اس کی سالمیت خطرے میں پڑ جاۓ گی۔ میری قوم میں موجود کسی فرد کے غلط کاموں پر تنقید سے اس کی عزت میں کمی آجائے گی۔ اس لیے ہم آنکھیں بند کرکے غلط صحیح کا دفاع کررہے ہوتے ہیں ،کیونکہ ہم نے تو صحیح ہونے کی ریس لگائی ہے۔

ابھی تک کسی مسلک کی جانب سے عقلمندی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اصل رونا تب آتا ہے جب عقل شعور رکھنے والے بھی ان فتویٰ بازوں اور سیاسی پکھنڈوں کے پیچھے پاگل ہورہے ہوتے ہیں۔ یعنی جتنی جماعتیں پڑھی ہیں وہ سال ہی برباد کیے ہیں۔

لوگوں کو عید شاپنگ کے لیے روکا جاتا ہے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے جو رات قبر میں وہ باہر نہیں۔ سیاسی لیڈران ضمنی انتخابات میں جلسے کررہے ہیں۔ وزیر موصوف لوگوں کو کہہ رہے ہیں اس سال جلدی شاپنگ کرلیں۔ شادی ہال بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ہم نے اب قبرستان بھرنے ہیں پھر سب نے الزامات ایک دوسرے پر لگانا ہے لیکن اپنی جہالت کو کچھ نہیں کہنا۔

رہی سہی کسر ہمارے کچھ منافقانہ قوانین نے نکالی ہے۔ ایک مذہبی جماعت کی طرف سے دھرنا  ہوا۔ املاک کو جلا کر بھی ملک کا نقصان کیا۔ باقی کسر یورپی یونین والے پوری کرنے لگے ہیں۔ جن کی وجہ سے آنے والے سال ہمارے  لیے  مزید مشکل ہونے جارہے ہیں۔ یورپی یونین پارلیمنٹ نے جی ایس پی پلس نامی پاکستانی ایکسپورٹس کے لئے ترجیحی مراعات کی سکیم پر نظر ثانی کی قرارداد منظور کر لی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ یہ سکیم ختم کرتے ہیں تو ہماری بہت سی پراڈکٹس جو ہم انہیں بھیج رہے ہیں، وہ بند ہوں گی۔ کیونکہ ٹیکس کی وجہ سے ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں دوسروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہماری دوسروں کے مقابلے میں کاسٹ آف پراڈکٹ بڑھ جائے گی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کا بیڑا غرق ہوگا ،جو بڑی مشکل سے دوبارہ کھڑا ہوا ہے۔ اس صنعت کے بند ہونے سے اندازہ ہے کتنے لوگ بیروزگار ہوگئے؟ نہیں عقل سے تو ہم نے کبھی کام نہیں لیا۔ ہم تو روٹی کی جگہ جذبات کھاتے ہیں۔ جو فارغ ہوجائیں گے انہیں روٹی کون کھلاۓ گا۔ آپ اور میں جو چند دن پہلے جذباتی نعرے لگا رہے تھے۔ کیا ہم کسی کو اپنا اناج دیں  گے؟ بیس پچیس لاکھ بندے تو صرف ایک صنعت کے بند ہونے سے فارغ ہوجائیں  گے۔ باقی صنعتیں، چاول اور آم جیسی فصلیں جو متاثر ہوں گی وہ علیحدہ ہیں۔ مذہبی اور سیاسی پکھنڈوں نے بھوکا نہیں مرنا۔ مرنا میں نے اور آپ نے ہے، جو ان کے پیچھے پاگل ہو رہے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سارے رولے میں سٹیٹ کا کردار ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ سٹیٹ کو جس نے چاہا اپنی مرضی کی سمت میں ہانکا ہے۔عوام کو بیوقوف بنانے میں، حکمرانوں نے مذہب کا بے دریغ استعمال کیا۔ خان صاحب آپ مغرب کو جانتے ہیں تو وہ بھی آپ کی منافقت کو خوب پہچانتے ہیں۔ جوانی اُدھر گزاری، شادی کی اور تو اور بچے ابھی تک اس تباہ حال معاشرے میں رکھے ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں۔ ایک طرف تو وہ معاشرہ بے حیائی کا پیکر ہے۔ دوسری طرف اپنی اولاد کو اُسی بے حیا معاشرے میں پال رہے ہیں۔ یعنی کہ آپ کے بچوں کے لیے ٹھیک ہے عوام کے لئے خراب۔ ہر دوسرے دن فنڈز کی اپیلیں بھی انہی سے کررہے ہوتے ہیں۔ یہ منافقت ستر سال سے ہمارے مذہبی، سیاسی و عسکری حکمران اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کے لیے جہاد جہاد کھیلا۔ اور اپنے بچوں کو اس سے باہر رکھا۔ اور یہ ہی منافقت عام عوام میں بھی بڑی شدومد سے پنپ رہی ہے۔ بہت سے کاروباری حضرات ہر جمعہ مدینہ میں جا کر پڑھیں گے۔ لیکن اسی شہر میں آپ کو پانی کے فلٹریشن پلانٹ دوسرے ممالک کی ڈونیشن سے لگے ہوۓ ملیں گے۔ مرنے کے خواب مدینے میں دیکھیں  گے۔ لیکن ملاوٹ بھی نہیں چھوڑیں  گے۔ ہماری خواہش ہے کہ کوئی ہمارے مذہب کو برا بھلا نہ کہے، لیکن دوسروں کے مذہب پر بڑھ چڑھ کر طنز کے تیر چلا ئیں  گے۔ نظام کے خلاف شکایتیں کریں  گے۔ اور خود اسی نظام میں چور رستے ڈھونڈیں گے۔ یہی منافقت ہمیں لے کر بیٹھ رہی ہے۔ اس کا حل کریں  گے تو آگے بڑھیں  گے، نہیں تو ایسے ہی ذلیل ہوتے رہیں  گے۔
‏سر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی
لینا کی سر ٹوپی دھر کے
تسبیح پھری پر دل نہ پھریا
لینا کی تسبیح ہتھ پھڑ کے
چلّے کیتے پر رب نہ ملیا
لینا کی چلّیاں وچ وڑھ کے
بلھے شاہ جاگ بنا دودھ نئیں جمدا
پانویں لال ہووئے کڑھ کڑھ کے
( حضرت بلھے شاہؒ)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply