یہ کہکشائیں سب نجوم ماہتاب چھین لو
خدائے تیرگی سے اپنا آفتاب چھین لو
یہ گلتی پستکوں کےحرف کھوجنے سےفائدہ؟
ورق ورق جو زندگی ہے وہ کتاب چھین لو
قرن قرن جو لکھ چکے ہیں تلخیاں جہان کی
کتابِ زندگی کا ان سے انتساب چھین لو
عرق سے ہی کشید اپنے موسمِ بہار ہے
اٹھو سرود چھین لو، اٹھو رباب چھین لو
ترس گئیں کرن کرن کو تیرہ تار بستیاں
نظامِ زرگری سے اس کی آب وتاب چھین لو
“حقیر” شہر کی ” ذلالتوں” کا یہ علاج ہے
“معززین ِشہر” سے سبھی خطاب چھین لو
چُرا چکے ہیں مسخرے شعار انقلاب کے
فریبیوں سے بڑھ کے اپنا انقلاب چھین لو
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں