باعزت قاتل۔۔ثوبیہ چوہدری

وہ مجھے قتل کر دیں گے ۔نہیں چھوڑیں گے۔۔
فون سے اس کی اندیشوں بھری آواز آ رہی تھی ۔مارے خوف کے اس سے بات بھی نہیں ہو رہی تھی ۔
ایسے تھوڑی مار دیں گے ۔اتنا آسان نہیں ہوتا کسی کو مارنا ۔تم فکر نہ  کرو ،میں امی سے بات کروں گی،تم نکاح کی تیاری کرو ۔
نکاح ۔۔اس کی گھٹی ہوئی آواز آئی ۔
وہ میرا نکاح کبھی نہیں ہونے دیں گے ،وہ جان کر یہ جال بچھا رہے ہیں، کہ مجھے اس بہانے سے گاؤں لے جا سکیں ۔تم نہیں جانتی میں انہیں جانتی ہوں ۔سب ملے ہوئے ہیں ۔ اور وہ نجانے سسکیاں لیتے اور کیا کچھ کہتی رہی ۔۔۔

مجھے آج بھی یاد ہے 25 رمضان اور بدھ کا دن تھا ۔
میں اس کی کال کے بعد سوچ میں پڑ  گئی ۔یہ کیسے ممکن ہے۔ ۔اس کو وہم بھی تو ہو سکتا ہے،ڈر کی وجہ سے بے یقینی کی کیفیت سے گزر رہی ہے، اس لیے ایسے سوچ رہی ہے ۔جمعہ کو اس کا نکاح ہے،مجھے امی نے خود یقین دلایا ہے ۔۔۔

27 رمضان جمعتہ الوداع سحری سے کچھ دیر پہلے میرے فون کی گھنٹی بجتی ہے اور کہیں وہم و گمان میں بھی نہیں کیا ہوا ہے ۔

میں نے کتنی کوشش کی کہ نکاح میں شامل ہو سکوں ۔امی سے اتنا کہا، لیکن ایک ہی جواب کہ صرف بڑے شامل ہو ں گے ۔پھر یہ سوچ کر چپ ہو گئی  کہ چلو اس کو آج اس کی منزل مل جائے گی ۔۔۔

امی سے  جمعرات کی رات بات ہوئی تو پتا چلا کہ سب رات کو ہی گاؤں پہنچ گئے ہیں اور کل جمعہ کے بعد نکاح ہے تو کچھ اطمینان ہوا، لیکن اسے کیوں اتنی بے یقینی تھی کہ اسے قتل کر دیں گے ۔کیوں وہ اتنا بُرا سوچ رہی تھی ۔ کیا محبت کرنا جرم ہے؟۔ ۔اپنی مرضی سے نکاح کرنا چاہتی ہے،اور ہمارے مذہب نے, اس کے ربّ نے اسے اجازت دی تو یہ ذات پات کے بکھیڑے کس لیے ۔؟

کیا وہاں اگر وہ سید ہیں ۔۔سب ذاتیں صرف پہچان کے لیے ہیں نفرت کے لیے تھوڑی بنی ہوتی ہیں ۔

میں جو ابھی سحری کے لیے اٹھی تھی تو فون کی بیل سے اک دم گبھرا گئی ۔ دوسری طرف امی تھیں
“اسے قتل کر دیا ہے ”
آنسو کب بہہ نکلے ,دل جیسے پھٹ گیا ہو ۔۔۔
اس کے الفاظ میرے کانوں میں چیخیں مار رہے تھے ” وہ مجھے قتل کر دیں گے ”

اتنا آسان تھوڑی ہوتا ہے کسی کو مارنا ۔۔۔۔
آج تو اس کا نکاح تھا ۔

اسے دھوکے سے گاؤں  لیجایا  گیا ۔سب اس سازش میں شامل تھے یہاں تک کہ اس کی ماں جیسی بڑی بہن جو خود ایک عورت تھی ۔اپنے بھائی کا اس لیے ساتھ دیا کہ بھائی کی برادری میں بے عزتی ہو گی اگر اس کا جائز نکاح کر دیا گیا۔۔
اس کی ماں نہیں تھی ۔۔۔
ماں ہوتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتی ۔۔۔

سب کے ہاتھوں  پر  اس کے خون کے چھینٹے ہیں ۔ جب اسے گولی مارنی تھی تو سب عورتیں ایک کمرے میں تھیں اسے دوسرے کمرے میں سُلایا  گیا، جب تہجد کا وقت ہوا تو وہ باہر صحن کے غسل خانے کی طرف گئی ۔اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ایک انجانا سا خوف اس پر طاری تھا ۔اک عجیب سی چیخیں مارتی خاموشی تھی کہ اس خاموشی کو چیرتی ایک گولی کی آواز اس کے وجود کو ٹھنڈا کر گئی  ۔۔۔

اور اس کے ساکت مردہ وجود سے اس کے بھائی کا   شملہ  بھی اونچا ہو گیا ، جو اس کے محبت کرنے کے جرم سے زمین بوس ہو رہا تھا۔۔
سوچتی ہوں ۔۔۔۔
اگر ہم عورتیں نہ  ہوتیں  تو مرد کیسے باعزت ٹھہرتے ۔
کچھ عرصہ غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ چلا اور پھر وہ بَری ہو گیا ۔۔

جیل سے آنے کے بعد اس کی عزت میں چار گنا  اضافہ بھی ہوا، اب اس کی چال میں پہلے سے زیاہ اکڑ تھی کیونکہ ” اس نے غیرت کے لیے اپنی بہن کو قتل کر دیا تھا” ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک سچی کہانی
اور ایک خاموش پیغام
کاش کوئی سمجھ سکے کہ بس زندہ رہنے دو ۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply