خوشبو کی شاعرہ ،پروین شاکر کے بیٹے مراد سے ملاقات

مراد اک چاند کی صورت

کہیں بہت دور، ماضی کے دھندلکے میں سے بیتے دنوں کی ایک یاد زمان و مکان کے پردے ہٹا کر جھانکتی ہے کہ جب ایک پر شوق طالبہ کی حیثیت سے پروین شاکر کی جنونی مداحین میں شمار ہوا کرتا تھا اور اس کی نظمیں ہماری انگلیوں کی پوروں پر دھری رہتی تھیں، اور اس کے اشعار نوکِ زباں پر تھر تھرایا کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں کے بیت بازی کے مقابلوں میں صرف پروین کے اشعار کی بیت بازی جیتنا ایک اعزاز بن گیا اتھا جب “” خوشبو”” کا شمار محبتوں کے تحائف میں ہوا کرتا تھا اور جب کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی،، کی بازگشت ریڈیو کی صداؤں میں شامل ہوا کرتی تھی ۔ جب بچوں کو چالاک ہونے کا اعزاز دیا گیا اور لڑکیوں کے دکھ اور سکھ آنچل میں آنسوؤں کے ساتھ گرہ دے کر باندھے گئے تھے۔ ملک کے طول و عرض میں ایک ہی شاعرہ کے نام کی گونج ہوا کرتی تھی جسے الہڑ لڑکیاں محبت ناموں میں اور پختہ کار اس کے اشعار عمرِ دوراں کی زنجیر میں پروئے دکھوں کے روز نامچے میں لکھا کرتےتھے۔ جب اچانک ہی نسائی انداز و آواز اور نسائی جذبات کو اپنے ہونے کی سند مل گئی۔ جب عورت کے لبوں پر انکار کی تکرار اور اقرار کی جھنکار بھی گنگنانے لگی۔ جب اچانک روز مرہ کی ضرورتوں میں شامل صنفِ نازک کا بدن خواہش سے ہرا ہونے لگا ، اسے چاند ستاروں، پھولوں ، تتلیوں اور ہواؤں کے سندیسے پڑھنے کا کشف مل گیا۔ وہ قبول اور رد کی مہریں لگانا سیکھ گئی، جب وہ ٹوٹے ریزوں کی سی زندگی کو اپنے تخیل کے سہارے از سرِ نو ایک نئے سانچے میں ڈال کر شیشہ گری کے کمال دکھانے پر قادر ہو گئی اور جب ایک روز اچانک اس نے استحصال کی چکی کا آٹا بننے سے انکار کر دیا، کولہو کے بیل کی پٹی اپنی آنکھوں سے ہٹائی اور اپنی بصارت کے سب زاویوں کو تمام جہات میں سمو کر اپنا نکتہ نظر کہنے کی جرات دکھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
پروین شاکر سے شناسائی ان ہی دنوں کی یاد ہے۔۔۔۔۔۔

پروین سے محبت ان دنوں کی بھی شاہد ہے کہ جب زندگی کی ترجیحات اور مقاصد کے انتخاب نے شاعری کو طاقِ نسیان کی زینت بنا دیا اور زیست کو دیکھنے اور برتنے کا قرینہ سراسر بدل گیا۔ لیکن تب بھی اس کی کتاب سرہانے دھری رہتی اور بھاگتے دوڑتے لمحوں کو اپنی گرفت میں کرنے کی تگ و دو میں اس کتاب کی گرد جھاڑنے کی فرصت بھی نہ مل سکی۔ لیکن ذہن کے طاقچے پر یادوں کے چراغوں کی تھر تھراتی لو میں وہ اشعار اکثر جگمگایا کرتے تھے

پھر ایک دن ، برف کی سفید چادر زمیں کے سینے پر بیوہ کے آنچل کی صورت پھیلی ہوئی تھی، دسمبر کی کپکپاتی ہوئی اک شام اچانک جیسے کہیں برق گرنے کا جھماکا ہوا اور رعد و برق و صائقہ کی گڑ گراہٹ اس نغمہ بار صدا کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر گئی۔۔

اس دن بہت برسوں کے بعد میں نے اس کتاب کو بے حدحزم و احتیاط اور آہستگی کے ساتھ طاق سے اتارا۔۔۔۔۔۔ کسی ایسے گناہگار کی طرح جو زندگی کے تیز رفتار کارواں کا ساتھ دینے کے لئے اپنے عقائد کے احترام سے روگردانی کا مرتکب ہو چکا ہو اور جسے اچانک کسی محبوب ہستی کی تدفین کے بعد ایصالِ ثواب کی غرض سے جزدان کھول کر بھولے ہوئے صحیفے آنکھوں سے لگانے کی ضرورت آن پڑے۔ اس کی بھولی ہوئی نظمیں میں نے ایسے ہی عقیدت و رقت سے پڑھیں جیسے کوئی بھولا بھٹکا عابد اپنے معبد میں بیٹھ کر عفو و درگزر کے لئے تسبیح کے موتی گرائے چلا جاتا ہے

ان ہی دنوں میں نے اپنے لخت جگر کے لئے لکھی ہوئی پروین کی نظمیں پھر پڑھیں۔۔۔۔ اب کی مرتبہ ان الفاظ کی شدت کو سمجھنے میں مجھے کوئی دشواری نہ ہوئی کہ اب تک میں نے بھی زندگی جنم دے رکھی تھی اور میرے کان بھی قلقاریوں کی صدا کو ملکوتی نغموں سے برتر جانتے تھے۔۔۔

اب کے دل میں وہ درد اٹھا جو طالب علمی کے زمانے میں شاید کبھی لہر نہ اٹھا سکتا۔ ۔۔ میں ہفتوں نہیں مہینوں اس کے گیتو کا چہرہ تصور میں لا کر ، مرادوں سے مانگی اس مراد کو بے اماں ہونے کے دکھ کی اذیت اور اس کی گہرائی ماپنے کی کوشش کرتی رہی۔۔ اور نجانے ایک ماں ہوتے ہوئے بن ماں کے ایک بچے کی دنیا میں اٹھتے زلزلوں سے برپا قیامت کا اندازہ لگاتی رہی۔۔۔۔

لیکن میں نے کبھی ایک پل کے لئے بھی اپنے خواب و خیال کی طلسمی امکانات بھری دنیا میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس عظیم ماں کی یہ مراد اور اس کی حسسیں آنکھوں کا یہ جگمگاتا خواب ایک دن میرے پاس ، مجھے ملنے آئے گا اور اس کی جگمگاتی پیشانی چوم کر مجھے ایک بے تاب مامتا کی مہک بھی محسوس کرنے کا حساس اور خواب ناک لمحہ میسر آئے گا۔
اپنی ماں کی بے پناہ شباہت لئے، بلند پیشانی اور ستاروں کے غبار سے بھری آنکھیں لئے ، بے تکلفی اور محبت سے ملنے والے مراد کو دیکھ کر ساعت بھر کو بھی یہ گماں نہ گزرا کی یہ ہماری پہلی ملاقات ہے ۔ باتیں کرتے کرتے
معصوم اور میٹھے لہجے میں ننھے بچے جیسی شوخٰ سے مراد نے شریر انداز میں مجھ سے پوچھا،

“” آنٹی! آپ ڈنمارک سے آئی ہیں تو آپ کے پاس ڈینش ککیز Danish Butter Cookies تو ہوں گے۔۔؟””
اور جواب میں مجھے ایک لوک گیت کے بول یاد آ گئے
“” توں کملی جھنگ دی ونگ منگدی، تینوں جھنگ دا جھنگ منگا دیساں””
( تم پگلی جھنگ کی چوڑی کی فرمائش کرتی ہو ، میں تو تمہیں پورا جھنگ منگوا دوں “”

باوجود وقت کی کمی اور اپنے اپنے سفر کی تیاریوں میں ہمیں اتنا وقت ضرور مل گیا کہ ہم اگلی دفعہ آرام سے پروگرام بنا کر ملنے کا وعدہ کر سکیں۔ میں نے اسے چھوٹے بچوں کی طرح بہلاتے اور ورغلاتے ہوئے کہا کہ بیٹا جب آپ میرے پاس ڈنمارک آئیں گے تو آپ کو Danish Butter Cookies میں تول دیا جائے گا۔ بلکہ میں خود بیک کر کے کھلاؤں گی ( میرے اندر پروین نے آہستہ سے کہا، میرے لال، میرے چاند، تم آؤ تو سہی)

مجھے میزبانی کا شرف ملے تو تمہاری اجلی پیشانی سے وہ تمام تحریریں پڑھنے کی کوشش کروں گی جو ایک بے مثال قلم قرطاس پر بکھیرنے سے پہلے ہی خاموش ہوگیا۔ مراد کےاچانک آنے کی خوشی میں مجھے یہ بات بھی بھول گئی کہ اس دن پروین شاکر کی سالگرہ تھی۔۔۔ اس سے ملنے کے سحر پرور واقعے کو زیرِ قلم لانے کی کوشش میں پروین کی وفات کی تاریخ بھی دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ لیکن آج یہ بات طمانیت کا باعث ہے کہ بہت جلد پروین کا کلام ڈینش زبان میں بھی منتقل ہو کر اپنا سحر پھونکے گا۔ پروین کی ڈرامہ ڈاکومنٹری کے امکانات پر بات کرتے ہوئے مجھے یہ بھی کہا گیا کہ آپ پروین کی اتنی بڑی مداح ہیں، آپ اس کا کردار ادا کرنے کی سوچئے۔۔۔ میرا پہلا تاثر ہراساں ہو کر یہی تھا کہ صاحب یہ بات بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کے مترادف ہے کہ ہماری تو پہلے ہی جرائم کی فہرست کافی طویل ہے

ہمارے ہاں ابھی تک شعر و سخن اور قلم و قرطاس کی دنیا میں قدم رکھنے والی خواتین کے راستے میں حشرات بھری کھائیاں ہیں، حیوانات بھرے جنگل ہیں، مگر مچھوں بھرے سمندر اور پرواز کرتے کرگسوں کا ایک جہاں آباد ہے۔ مستزاد کہ قلمکاری کے ساتھ ادا کاری کے جرم کی سزا تو شاید کئی مرتبہ پھانسی کے برابر ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر اورسخن ور جناب مظہر الاسلام کی عنایت اور پروین ٹرسٹ کی صدر محترمہ پروین قادر آغا اور محترم افضال صاحب کے خصوصی تعاون کے بغیر اتنے مختصر وقت میں شاید یہ ملاقات کبھی ممکن نہ ہوتی۔ میں ان کی اور مراد بیٹے کی ممنون ہوں۔

Facebook Comments

صدف مرزا
صدف مرزا. شاعرہ، مصنفہ ، محقق. ڈنمارک میں مقیم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply