ادبی محبت نامہ۔۔ڈاکٹر خالد سہیل /حامد یزدانی

ادبی محبت نامہ
از :ڈاکٹر خالد سہیل
قبلہ و کعبہ و چند دیگر مقدس مقامات حامد یزدانی صاحب!
آپ ایک پارسا ہیں اور میں ایک پاپی ہوں۔
ایک ایسا پاپی جس نے نہ صرف ایک پارسا کو دوست بنایا ہے بلکہ ایک پارسا کو محبوبہ بھی بنا رکھا ہے۔
ماہ رمضان میں کسی پابند صوم و صلواۃ محبوبہ کو ڈیٹ کرنا ایک نیا رومانوی تجربہ ہے۔
میں نےمحبوبہ سے کہا کہ اب آپ دو طرح سے روزہ افطار کر سکتی ہیں
اپنی کھجور سے
یا
مجھ سے ڈیٹ سے
اور وہ مسکراتے ہوئے شرما گئیں۔
میں خود تو روزہ نہیں رکھتا لیکن میں نے کل محبوبہ کے روزے کے احترام میں آفر دی کہ میں آپ کی سحری کے لیے کچھ کھانا لے آتا ہوں لیکن وہ پانی پی کر دوبارہ سو گئیں اور ایک دن کی آٹھ بجے شام سے دوسرے دن کی آٹھ بجے شام تک کا آٹھ پہرہ روزہ رکھ لیا۔۔۔
میری محبوبہ نے جب مجھ سے پوچھا کہ “آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟” تو میں نے کہا
“زندگی ایک سفر ہے اور سفر میں روزہ معاف ہے”
میری توجیہہ سن کر بہت ہنسیں اور کہنے لگیں۔۔۔
“کوئی تاویلیں آپ سے سیکھے۔”
میں روزہ نہ بھی رکھوں لیکن پھر بھی ان کے اصرار کے باوجود کہ آپ کھانا جلد کھا لیں ’ میں شام کے کھانے میں ان کی افطاری تک انتظار کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے اس طرح تھوڑا سا ثواب مجھے بھی مل جائے۔(آپ بخوبی جانتے ہیں کہ انسان دوست دہریہ ہونے کے ناطے میں گناہ و ثواب پر ایمان نہیں رکھتا اور یہ ثواب کا لفظ میں نے عادتاََ ہی لکھ دیا ہے جیسے کچھ دہریے خدا کا نام بھی عادتاََ لے لیتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے

سمجھ نہ لینا کہ مجھ کو بہت عقیدت ہے
وہ عادتاٌََتھا جو نام خدا لیا میں نے

میں افطاری تک صرف  کھانے کا ہی انتظار نہیں کرتا بلکہ ان سے گلے ملنے کا بھی انتظار کرتا ہوں کہیں میری وجہ سے ان کے روزے میں رومانوی خلل نہ پڑ جائے۔ ان کے روزے کے احترام میں مَیں رومانوی فاصلہ رکھتا ہوں اور افطاری کا انتظار کرتا ہوں۔
لیکن انتظار کی بھی حد ہوتی ہے۔
کبھی کبھی صبر کا پیمانہ لبریز بھی ہو جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے روزہ دار کا محبوب بھی رومانوی روزہ رکھ رہا ہے۔
حامد یزدانی صاحب!
چونکہ آپ سے دوستی اور بے تکلفی بڑھ رہی ہے اس لیے آپ کو یہ مذاحیہ خط لکھ دیا ہے۔
اگر آپ ماہ رمضان کے اس محبت نامے کا مجھے جواب بھیجیں تو پھر دونوں محبت ناموں کو چھاپ سکتے ہیں۔ آپ کا ادبی دوست خالد سہیل

 ماہ رمضان ۲۰۲۳
—————————————————–
در جوابِ آں محبت نامہ

محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب،
آداب و تسلیمات،

ماہِ رمضان میں آپ کا ’’ادبی محبت نامہ‘‘ موصول ہوا اورافطار میں دودھ ملے روح افزا کی روایتی فرحت کی صورت قلب و روح کے لیے موجبِ تروتازگی ہوا۔
آپ نے اِس بندہِ ناچیز (اسے انگریزی والا چیز نہ سمجھا جائے) کے لیے قبلہ و کعبہ کے ساتھ ساتھ چند دیگر مقامات کا ذکر کرکے اِسے مخمصے میں ڈال دیا۔ ان القابات کو پڑھتے ہی ناقہِ ذہن سرزمینِ عرب سے ہوتا ہوا یروشلم اور ویٹیکن سِٹی سے بھی ’بٹوٹ‘ ہی ہو آیا مگر کسی مقام نے اسے گھاس نہیں ڈالی۔ گھاس ڈالنا تو درکنار پانی تک نہیں پیش کیا۔ وہاں بھی ’’روزہ داری‘‘ چل رہی تھی۔ ہرچند کہ  روزہ کے شعری احکام ناقہ یا اونٹ پرلاگو نہیں ہوتے۔

اس سیروتفریح سے  آپ کے ادبی محبت نامہ کی جانب لوٹنا ہوا تو نگاہ اگلے جملے سے دوچار ہوئی۔ آپ نے عاجز کو (یعنی مجھے کہیں کوئی افضال عاجز وغیرہ نہ مراد لے لیا جائے) کس دوستانہ فراخ دلی سے خِلعتِ پارسائی عطا کردی ہے۔
سچ پوچھیے تو کہاں میں ۔۔ کہاں۔۔( فریدہ خانم کی آواز میں) یہ مقام اللہ، اللہ

بہرحال ہم نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ اگر بغیر مانگے کچھ  مل رہا ہو تو اسے قبول نہ کرنا کفرانِ نعمت ہے۔کیونکہ وہ قدرت کی طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہوتا ہے۔ میں اب تک یہی سمجھتا رہا کہ اس سے مراد جمعرات کو حلوہ کی نذر نیاز یا دبئی  سے (کسی) سالے (صاحب) کی طرف سے سنہری راڈو گھڑی کا تحفہ مراد ہے مگر یہاں تو بات اوصاف پر آپڑی ہے۔ اب اس کا کیا کِیا جائے۔ قبول نہ کرنے کی صورت میں کفرانِ نعمت کی تلوار سر پر لٹکتی دکھائی دیتی  ہے اور قبول کرتا ہوں تو نفس کا موٹاپا خوف زدہ کرنے کو لپکتا ہے جسے مسلسل ’’روحانی ڈائٹنگ‘‘ سے شیپ میں لانے کی کوشش کررہا ہوں۔ لیکن پھر شاعری ہی دستگیری کو آگے بڑھتی ہے:
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔
البتہ آپ کے برملا اور تحریری ’’اعترافِ پاپیّت‘‘ سے چشم پوشی ہی کرسکتا  ہوں کہ آپ کا دوست ہوں۔ شکر کریں آپ کسی ’’پاک‘‘ نگری میں نہیں رہتے وگرنہ اس اعتراف پر شرعی حد لازم تھی۔ تو آپ بال بال بچ گئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ خطرات و خدشات آپ جیسے ’’صاحبانِ بال‘‘ ہی کے لیے ہوتے ہیں مجھ سے بے چاروں کے لیے نہیں کہ جن کے (سرپر) بال ہی نہیں بچے وہ کیا محاورتاً بچیں گے اور کیا حقیقتاً۔
اس اعترافیہ جملہ کے فوراً بعد آپ نے اپنے نئے اور منفرد رومانوی تجربے کا ذکر بھی کیا ہے یعنی ایک پابندِ صوم و صلوٰۃ محبوبہ کو ڈیٹ کرنے کا تجربہ جنھیں بوقتِ افطار آپ انسان دوست سادگی سے کھجوریا ڈیٹ سے افطار کی آپشن دیتے ہیں۔ یہ پڑھ کر میرے ذہن میں یہی مصرعہ مسکایا:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
اُن کا شرمانا تو بنتا ہے۔

آپ کی یہ توجیح کہ مسافر پر روزہ فرض نہیں اور زندگی چونکہ ایک سفر ہے اس لیے آپ کو روزہ معاف ہے۔ یہ ایک نئی اور  دل چسپ تاویل ہے۔۔۔مگر شرعی معاملہ یہ ہے کہ سفر کے اختتام پر یہ سب روزے رکھنا پڑتے ہیں۔ تاہم مجھے بعد از سفر کے چیلنجز کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس مرحلے سے کام یابی سے گزرنے کے لیے اس وقت آپ کے پاس کوئی نہ کوئی تیر بہ ہدف نسخہ ضرور ہوگا۔ڈاکٹروں کے پاس نسخوں کی کیا کمی۔
ویسے بھی کون کہتا ہے کہ آپ روزہ نہیں رکھتے؟ فرق صرف اتنا ہے کہ دوسرے جسمانی روزہ رکھتے ہیں اور آپ رومانی۔ تو اس کا اجر بھی لازماً رومانوی ہی ہوگا جو آپ کے حسبِ منشا ہے۔

آپ کی احترامِ رمضان کی انسان دوست پالیسی بھی لائقِ تحسین ہے۔ کہ آپ نہ گناہ و ثواب کے قائل ہیں اور نہ ثواب و گناہ کے مگر عادتاً نام خدا لینے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ چلیے، کسی بہانے سہی ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں:
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
تفنن برطرف، میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے اکثر صوفیائے کرام بھی نسلی یا مذہنی بھید بھاؤ کے حق میں نہیں رہے۔ان کا زور بھی انسان دوستی کے منشور پر عمل درآمد رہا۔
بلھے شاہ صاحب تو یہ ساری بات ایک نقطے ہی میں ختم کردیتے ہیں۔ فرماتے ہیں

پھڑ نقطہ، چھوڑ حِساباں نوں
چھڈ دوزخ، گور عذاباں نوں
کر بند، کُفر دیاں باباں نوں
کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں

گل ایسے گھر وِچ ڈُھکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے
ڈاکٹر صاحب، آپ کی تحریروں کا ایک قابلِ ذکر وصف یہ بھی ہے کہ ان میں پڑھنے والوں کو اکثر نت نئی لسانی ترکیبات و تشکیلات بھی ملتی ہیں۔ آپ کا یہ خط بھی اس وصف سے متصّف ہے۔ مثال کے طور پر”رومانوی خلل اور رومانوی فاصلہ” جیسی نویکلی لسانی ترکیبات اردو زبان و ادب میں ایک گراں قدراور دل نشیں اضافہ ہیں اور اس تخلیقی احسان کے لیے آپ اور آپ کی محبوبہ دونوں لائقِ تشکر ہیں۔
آپ نے یہ ذاتی اور مزاحیہ خط لکھ کر بابرکت رمضان کو پُر لطف بھی بنا دیا ہے۔ خط کا جواب دینا بھی سلام کے جواب ہی کی طرح واجب ہوجاتا ہے۔ سو، یہ تو لکھنا ہی تھا۔

ڈاکٹر صاحب، اس پُرلطف مکتوب کے لیے پھر سے شکرگزارہوں۔ مجھے یہ اتنا اچھا لگا کہ میں نے حسبِ عادت فی الفور طاہرہ بیگم کو سنا دیا۔ ۔وہ اس لیے کہ طاہرہ بیگم  ،ایک تو وہ میرے لیے   نصفِ بہتر سے کہِیں زیادہ ہیں۔ صابر اور باہمت اتنی  کہ گذشتہ ۳۳ سال، ۵ ماہ اور ۵ دن سے ایک نام نہاد شاعر کے ساتھ نباہ کیے جارہی ہیں۔ اب تو وہ میری نثر سے بھی محفوظ نہیں ہیں اور اس کی ذمہ داری جُزوی طور پر آپ پر بھی  عائد ہوتی ہے جن کی وساطت سے ’’ہم سب‘‘ اور ’’مکالمہ‘‘ جیسی معیاری ویب سائٹس کے لیے میں تواتر سے لکھ رہا ہوں۔ یہ خط طاہرہ کو سنانا اس لیے بھی ضروری جانا کہ میری بے سروپا شاعری اور طویل کالم پڑھنے سننے کی سزا بھگتنے پر انھیں کچھ انعام تو ملنا ہی چاہیے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ دنیا اور زندگی کے بارے میں میرے مثبت طرزِ فکر کا سبب شاید یہ ہے کہ میں اپنے پاپا کے ذہن سےسوچتا ہوں، اپنی امی کے دل سے محسوس کرتا ہوں اوراپنی بیگم اور بچوں کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔اس لیے زندگی میرے سامنے ایک خوب صورت منظر کی صورت  ہی اُبھرتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب،
دیکھ لیجیے، میں نے آپ کے ادبی محبت نامہ کا جواب تحریر کرنے میں دل و جاں ایک کردیئے ہیں اور چوں کہ ہر لکھاری کی طرح اپنی تحریر کو منصہِ شہود پر لانے کی علّت و جلّت کا مارا بھی ہوں اس لیے آپ کی اجازت سے دونوں خطوط’’مکالمہ‘‘ پر اشاعت کے لیے احمد رضوان صاحب کو روانہ کررہا ہوں جو خود بھی کمال مزاح نگار ہیں۔
رمضان شریف کی تکمیل اور عید کی آمد مبارک ہو۔
آپ کا ادبی دوست اور مداح
حامدیزدانی
ماہ رمضان ۲۰۲۳۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply