درد اور راحت /ڈاکٹر مختیار ملغانی

فرائیڈ کی بنیادی فکر کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ، اپنے نکتۂ آغاز سے ہی انسان اس لطفِ ساگر میں محوِ رقص رہتا ہے جس کا تجربہ اسے رحمِ مادر سے ملتا ہے، یعنی کہ ماں کے رحم میں موجود سیال مادے (Amniotic fluid) سے گھِرا جینین (Fetus)جس لطف، لذت اور حفاظت کو محسوس کرتا ہے، اگلی تمام عمر وہ اسی کیفیت میں لوٹنے کی لاشعوری تگ ودو میں گزارتا ہے، فرائیڈ لطف یا لذت کی اسی تلاش کو فرد کے تمام افعال و اعمال کا بنیادی محرک قرار دیتے ہیں ، ساگر , کی اصطلاح رحمِ مادر میں موجود سیال مادے سے تشبیہاً لی گئی ہے۔

چند سنجیدہ ماہرین (ناقدین ) فرائیڈ کی اس فکر میں بظاہر لسانوی، درحقیقت معنوی، غلطی پر توجہ دلانے کی دعوت دیتے ہیں، ان ناقدین کے نزدیک لفظ، لطف (Joy) اپنی اصل میں اس احساس کا نام ہے جو روحانی، آسمانی یا غیر مرئی ہے، لہذا زمینی جینین ، بشر بندے، کا یہ احساس درحقیقت احساسِ راحت ( Comfort) ہے ، نہ کہ احساسِ لطف۔ اس کی درستگی کا تقاضا اس لئے کیا جاتا ہے کہ لطف اور راحت دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ تمام تہذیبوں کی اساطیری کہانیاں جس سنہری دور کا پتہ دیتی ہیں وہ زوالِ آدم سے پہلے کا دور گردانا جاتا ہے، اس سنہری دور کو رحمِ مادر سے تشبیہ اس لئے دی جاتی ہے کہ فرد راحت و سکون میں جی رہا تھا، روزگار، ماحول و سماج کے مسائل سے ناواقف تھا ، یہ کہنا درست نہیں کہ سنہری دور کا انسان لطف کی کیفیت میں زندگی گزار رہا تھا ، کیونکہ زوال سے قبل والی جنت زمین پر تھی اور فرد زمینی احساسات ہی رکھتا تھا، لطف دراصل مادیت سے روحانیت کی طرف اٹھنے کا نام ہے، جیسا کسی کیمیا دان نے کہا تھا کہ
” مادہ اور روح ایک ہی وجود کی دو انتہائیں ہیں اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ مادے کو روحانی اور روح کو مادی بنایا جائے “.

درج بالا نکتے کو بلاشبہ لطف کی کیفیت کہا جا سکتا ہے، اس کے برعکس راحت کی کیفیت آپ کی مادیت یا جسمانیت کو زمین سے اکھاڑنے کی کوشش نہیں کرتی ۔

اسی بحث کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، زوالِ آدم کے بعد انسان جس احساس سے سب سے پہلے روشناس ہوا، وہ دکھ تھا، درد تھا، بالکل ایسے ہی جیسے پیدائش کے بعد بچے کو پہلا احساس درد کا ہوتا ہے جب ہوا پھیپھڑوں پر چوٹ کرتی ہے، نومولود اور جنت سے نکالے گئے آدم اس سے قبل گویا کہ درد کی متضاد کیفیت میں جی رہے تھے، ہم جانتے ہیں کہ درد کا متضاد راحت تو ہوسکتا ہے، لیکن لطف نہیں ہو سکتا، گویا کہ سنہری دور کا انسان اور رحم مادر میں پلنے والا جینین راحت کی حالت میں تھے/ہیں، اس کیفیت کو لطف کا نام دینا درست نہیں ، اس اصطلاح کا انتخاب شاید فرائیڈ کی مجبوری رہا ہو کہ آگے جا کر اسی کو جنسی جذبات سے جوڑنا تھا، لیکن یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ راحت کی نفسیات نے سطحیت کو جنم دیا، درد کو پسِ پشت ڈالنا گہرائیوں سے منہ موڑنا تھا، اس وقت انسانوں بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت اور ترقی پزیر خطوں کی نوجوان نسل راحت کو دوست اور درد کو دشمن سمجھتے ہیں، نتیجے میں سطحیت ایک اعتماد دیتی ہے اور گہرائیاں شکوک کا سبب بنتی ہیں ۔

درد کی تعریف ایک صاحبِ جنوں نے یوں کی ہے کہ، “عکس کا اپنی حقیقت سے ملاقات کا نام درد ہے “

انسان دو انتہاؤں کے درمیان جکڑا ہے، موجودیت اور حقیقت، سر آئینہ اور پس آئینہ، اسی ملاپ کو دکھ یا درد سے تعبیر کیا جاتا ہے، دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ درد اور ایمان کا بڑا گہرا تعلق ہے، شاید یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

ایک طرف درد ہے جو کسی منطقی یا عقلی دلیل کا محتاج نہیں، اور دوسری طرف یقین ہے جو غائب پر ہوتو ایمان کہلائے گا، حاضر پر یقین کو ایمان کا نام نہیں دیا جا سکتا، جو دکھائی سنائی دے وہ ثبوت ہے، ایمان و ایقان کیلئے غائب شرط لازم ہے۔ درد کا بغیر عقلی دلیل کے، صرف احساس کی بنیاد پر تجربہ، لاشعوری طور پر فرد کو غائب پر ایمان لانے کیلئے ایک بڑا محرک ہے جس طرف کم ہی توجہ کی گئی، فرد کی ذات میں درد یا دکھ باقاعدہ ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے، مذہبی یا روایتی تہذیب کے علمبردار کیلئے درد خالصتاً فطری بلکہ انسانی بیانیہ ہے، اور اسی فطری بیانیے کی اندرونی سطح سے اسے یقین و ایمان کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔

اب معاملہ یوں ہے کہ تمام قدیم تہذیبوں کا انفرادی اور اجتماعی شخصی ڈھانچہ درد کی بنیاد پر کھڑا تھا، دکھ کا ستون اسے قائم رکھے ہوئے تھا، یہیں سے ہی ایمان و یقین اور تہذیب و تخلیق کے چشمے پھوٹتے تھے اور یہ سلسلہ کم از کم اٹھارویں صدی عیسوی تک جاری رہا ، اس کے بعد سماج و فرد راحت کے اصول سے مانوس ہوئے ، وقت کے ساتھ قربت ایسی بڑھی کہ اب راحت ہی انسانی سماج کا بنیادی ڈھانچہ اور مطالبہ ہے، ایسے میں درد کو ایک غیر قانونی اور جبری وجود مانا اور سمجھا جانے لگا۔

راحت کی دو شکلیں ہیں ، ایک قانونی، جیسے کھیل کود، ٹی وی، موبائل ، فلم، گاڑی، برگر، کولا ،سیاحت اور سیکس وغیرہ، دوسری شکل غیر قانونی ہے جس میں منشیات ، جوا اور قحبہ خانے شامل ہیں، مین سٹریم عموما پہلی شکل تک ہی خود کو محدود رکھتے ہیں، البتہ کچھ “جانباز ” راحت کی گہری وادی میں کودتے ہیں، جہاں سے ان کی واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

راحت ہی اب تہذیب و تمدن کا پیمانہ ہے، راحت ہی قانون و اصول ہے، ایسے میں درد کا کوئی بھی علمبردار سامنے آئے گا تو اسے جہالت، غربت اور اندھیرے کا نمونہ سمجھا جائے گا، راحتی نمونہ اس سے خوف محسوس کرے گا، یہی وجہ ہے جب بھی کسی قدیم تہذیب ، مذہبی سوچ یا پھر کسی روایتی قومیت کا شخص یا گروہ اپنی روایات و ایقان کا پرچار کرے گا تو راحت کا علمبردار سماج اسے آگے بڑھنے سے روکے گا کہ اول الذکر نے اپنے کندھوں پر جو درد کا بھیانک بوجھ اٹھا رکھا ہے وہ ثانی الذکر کے مستقبل کو تاریک بنا سکتا ہے ، معصوم بچوں کی ہنسی ٹال سکتا ہے ، شوخ و چنچل جوانی پر بڑھاپا طاری کر سکتا ہے ، ایسے “خونخوار “کو سماج کا حصہ بننے سے روکنا ہی اب اصل زمہ داری ٹھہرا ، راحت کے آجانے سے درد ختم نہیں ہو گیا اور نہ ہی درد کبھی ختم ہوگا، بس ذرائع ابلاغ نے پوری کامیابی کے ساتھ راحت کو فطری اصول اور زندگی کیلئے ناگزیر کا درجہ دے کر درد کو ایک بیرونی حملہ آور کا رتبہ دے چھوڑا ہے، جو ہر صورت و شکل میں خوف اور وحشت کی علامت بن چکا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply