آیا کا پاسپورٹ/کبیر خان

یہ ۱۹۸۵ کی ایک سہانی صبح کا ذکر ہے ، ہم نے جب یہ دیکھا کہ اصلاح معاشرہ مہم میں ہمارے گھر والے بھی ہمیں سیریس نہیں لیتے تو بچی کھچی عزتِ سادات کی پوٹلی بنائی اور سیدھےمتحدہ عرب امارات جا اُترے۔ اور رہبری کی بجائے لگے نوکری کرنے ۔ اُس زمانہ میں جبل علی سے منہ طرف دبئی شریف کر کے دیکھتے تودُور پرے ریت کے ٹیلوں کے بیچ سے ایک سفید اسکائی اسکریپر اُبھرا ہوا نظر آتا ۔ جس کو دُبئی ٹریڈ سنٹر کہا جاتا تھا۔ دبئی کی جملہ اہم تجارتی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز و محور۔ ہم اسے دبئی کے ٹاوروں کا عالم چنّا مانتے تھے۔ چنانچہ جب بھی موقع ملتا، عالم چنّا مذکور کی زیارت کوابوظبی سے دُبئی چلے جاتے۔ محض ۳۷ سال میں دُبئی ٹریڈ سنٹر ،اپنے وقت کا عالمی شہرت یافتہ لینڈ مارک، مشہورِ عالم ٹاور اب چھوٹے چھوٹے عالم چنّوں کے بیچ کہیں گم ہو چکا ہے۔ یہی نہیں،غنتوت اور جبلِ علی سے دکھائی دینے والا لینڈ مارک اب قریبی ٹریفک سگنل سے بھی نظر نہیں آتا۔ اُس کے دامن میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو اپنے دور کا وہ عالم چنّا گلیوروں کے بیچ کوڈُو سے زیادہ نہیں لگتا۔

اسی پر کیا موقوف ‘ دور سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے پورے یو اے ای میں بالعموم اور دُبئی میں بالخصوص گلیوروں کا جنگل اُگ آیا ہے ۔ عجب نہیں کہ بُرج خلیفہ کے کئی ہمسر بھی سر اُٹھا رہے ہوں ۔ اسی طرح مستطیل فریم دبئی اور میوزیم آف دی فیوچرجیسی منفرد عمارتیں بھی بندے کو بہت کچھ دیکھنے،سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ بیٹے کے اصرار پر چند دنوں کے لئے اُس سے ملنے ابوظہبی آئےتوموصوف ہمیں قرارواقعی سرپرائز دینے کے لئے ’’آیا‘‘ (اے وائی اے)سے ملانے لے گئے۔

’’آج سے آپ’’آیا‘‘ (مرکزِ کائنات) کے شہری ہیں۔ اس دستاویز کے ذریعہ ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں کہ آپ ہماری کہکشاؤں سے جو سلوک کرنا چاہیں کرلیں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ دستاویزکھولی تو معلوم ہوا کہ’آیا ‘ کا پاسپورٹ ہے۔‘‘ ہم نے سوچا۔ ’’یقیناً آسمانی مخلوق ہمارے لچھنوں سے آگاہ ہی نہیں ، متاثر بھی ہے۔ کیا عجب کہ ہمیں خبر تک نہ ہوئی ہو اور رازدار نے ہمارے بارے میں ہی کہا ہو
لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا۔۔ ‘‘

’’مگر ہم تو مُڈھ دیہاڑے سے مقتدی ہیں ۔ وہ بھی اُس آخری صف کے،جہاں سے سجدے اور سلام پھیرنے کے دوران اپنے جوتے صاف دکھائی دیتے ہوں۔‘‘دل ہی دل میں سوچا۔ کیا عجب ،غلط بخشی بھی توخدائی صفت ہے:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ
وہ جو کچھ تھا،ہمیں قبول تھا۔

اگرچہ وہ سارا رنگ و نور کا کھیل ہے، لیکن ہے قابل ِ فکر و ستائش ۔ جب تلک کاسموس کے اندر رہتا ہے،بندہ اپنے آپ سے باہر رہتا ہے۔ ہماری ’’کاسموٹک ‘‘ لائف میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ تھک سے گئے۔ اورکہیں جگہ نہ ملی توہم ستاروں کی گنجان آبادی یا اِک کہکشاں پر دراز ہو گئے۔ یونہی بے دھیانی میں اُوپر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ وہاں سے ایک اور آسمان دکھائی دے رہا تھا۔ اُس کے کئی چاند ستارے جگمگا رہے تھے۔ ’’کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہے؟‘‘ہم نے سوچا ہی تھا کہ بادل گرجے،بجلی چمکی اور آواز آئی ’’انسان بن ۔ زیادہ لالچ اچھا نہیں ہوتا، تمہاری اوقات نسینی کے پہلے ڈنڈے سے گر کر مرنے کی ہے،ہم تو مذاق مذاق میں  تمہیں اس مقام تک اٹھا لائے ہیں ۔ کچھ حیا کر، کیا تمہارے لئے پہلی کاسموس کافی نہیں ہے۔۔ ؟‘‘ہم کپکپا کر رہ گئے۔ وہاں سے لیٹے لیٹے اک نگاہ نیچے ڈالی ۔ ساری کائنات روشن تھی سوائے ایک گولےکے ۔ پوچھا وہ چاند پورا روشن کیوں نہیں؟ ۔
’’ وہ کرّہ۔ ۔؟ وہ کرہِّ ارض ہے ، زمین۔ ۔اس کے بہت سے حصّے تاریک اس لئے ہیں کہ اُن خِطّوں پر ظلم کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں ۔ پاکستان نامی  ایک مملکتِ خدادا د اللہ اور اُس کے رسول کے نام پرحال ہی میں قائم ہوئی تھی،اُسے اللہ اور رسول کا نام لے کر لوٹا کھسوٹا گیا ۔ ایک غدر مچا ،جس کے نتیجہ میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ ابھی اس شکست و ریخت کی گرد پوری طرح بیٹھی بھی نہیں کہ اک اور ہی طرح کا سیاسی کھیل شروع ہو گیا۔ اس کھیل کوسیانے لوگ ’’سیاست دانی‘‘اوربے پڑھے ’’گوّڑ داندی ‘‘کہتے ہیں ۔

گوڑداندی ایک بے انت اور بے سمت دوڑ ہوتی ہے۔ اس کھیل میں یا تو فصلیں برباد ہوتی ہیں یا بستیاں اُجاڑ۔ گرد وغبار بھی بہت اُٹھتا ہے جس کی شدّت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ جس کے ہاتھ جو کچھ لگتا ہے، لے کر بھاگتا ہے۔  کِدھر؟ ، اُسے خود خبر نہیں ہوتی۔ آج کل اس ملک میں یہی موسم ہے،گرد و غبار اتنا ہے کہ کرہ ارضی کا وہ حصّہ آسمان سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اس غبار میں دوسو فی صد جھوٹ ، فراڈ ، دھوکہ اور بددیانتی شامل ہوتی ہے۔ وہاں اسے سیاست کہتے ہیں ، اور یہاں فلک پر خباثت۔ اور فلک کا اصول ہے کہ جہاں خباثت کا راج ہوتا ہے،وہاں کبھی رحمت کا مینہ نہیں برستا۔ مینہ تو دُوروہاں نُور کا چھینٹا تک نہیں پڑتا۔ چنانچہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ نتیجتاً اک دوجے کے ساتھ ہاتھ ہوتے رہتے ہیں ۔اسی کو اندھیر نگری کہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اندھیر نگری کہکشاؤں کی ادھارہزارہا روشنیوں سے بھی روشن نہیں ہُوا کرتی ۔ جاؤ! ایمان کے دیئے جلاؤ ،دلوں کو جگمگاؤ، تمام کائناتوں کے ربّ کے سامنے گِڑگڑاؤ ۔۔ وہی کرم فرمائے گا۔ تمہارا کرّہ ارضی بھی روشن ہو جائے گا۔ فی الحال اے۔وائی۔اے(آیا) کا یہ پاسپورٹ سرنڈر کر جاؤ۔ ربّ کو راضی کر کے آئے تو یہیں ، اسی کاؤنٹر سے لے جانا ۔۔۔۔ تمہاری امانت ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply