گوجال،جہاں سے پاکستان شروع ہوتا ہے۔۔۔سید مہدی بخاری

میں پاکستان کی سرحد پر کھڑا تھا۔ ارد گرد ویرانی تھی، دور تک خاموشی تھی، اور آسمان سے برف گر رہی تھی۔ نومبر کے دوسرے ہفتے کا آغاز تھا۔ ایسا سفید دن تھا کہ میری سرخ جیپ اور سرمئی رنگ کی جیکٹ کے علاوہ منظر میں کوئی رنگ نہ تھا۔ جو رنگ تھے، ان کو برف ڈھانپ چکی تھی یا ڈھانپے جا رہی تھی۔ کوئی سرحدی فوجی چوکی تھی آس پاس، نہ ہی کسی بشر کا نشان۔ یہ دوست ملک چین کی سرحد تھی۔ درہ خنجراب پر کھڑے ہوئے میرا رُخ چین کی طرف تھا۔

شاہراہ قراقرم کا پاکستان کی حدود میں اختتام تھا اس سے آگے یہ شاہرہ کراکل جھیل کے نیلے پانیوں کے کناروں سے ہوتی، خانہ بدوشوں اور دو کوہان والے جنگلی پہاڑی اونٹوں کی ہمسفری میں کاشغر تک چلی جاتی ہے، اور وہیں سے یارقند کو راستے نکلتے ہیں تو ایک راہ تکلمکان صحرا کو مڑتی ہے، جو ریتیلے ٹیلوں کا دنیا کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔

نیل گگن تلے پاکستان کا نیلم۔۔۔۔سید مہدی بخاری

اردگرد سرحد پر باڑھ لگی تھی۔ اچانک سفید منظر میں چند بھیڑوں کا ایک ریوڑ آس پاس کہیں سے آ نکلا، اور سڑک پر چلتے میرے قریب سے گزرتا چین کی حدود میں داخل ہو کر کناروں پر خشک گھاس کی ڈھلوانوں پر پھیلنے لگا۔ گندمی مائل گھاس کے تنکوں پر برف کے گولے پھل کی طرح سجے تھے۔ بھیڑیں انہیں سونگھتیں، منمناتیں، اور پھر آگے بڑھ جاتیں۔ شمالی علاقوں کے معمول کے مطابق چرواہا غائب تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی کوئی سرحد نہیں تھی، مگر میری سرحد یہی تھی جہاں میں برف بھرے دن میں کھڑا تھا۔

ہوکا عالم تھا۔ آسمان کی جانب دیکھا تو روئی کے گالے میری پلکوں پر آ کر ٹھہرنے لگے۔ پھر ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا، اور مجھے اٹھا کر عطا آباد جھیل کے کنارے پھینک آیا۔

کشتی بھر گئی تو ملاح نے لنگر اٹھا دیا۔ انجن کے شور میں کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے خیالوں میں گم چپ چاپ بیٹھے تھے۔ پانی کا سفر 45 منٹ پر محیط تھا۔ چلتے چلتے ایک تنگ سے موڑ سے کشتی نے موڑ کاٹا تو سامنے پَسو کونز نظر پڑیں۔ پَسو کے یہ پہاڑ ایسے نوکیلے پہاڑ ہیں، جیسے قدرت نے زمین میں کیل گاڑ رکھے ہوں۔

کشتی چلی تو دل سے کئی گمان گزر گئے۔ مجھے یاد پڑا کہ بیس سال پہلے میرے والد ہمیں لے کر جہلم کسی عزیز کے گھر گئے۔ وه رشتہ دار ہمیں دریائے جہلم کی سیر کروانے لے گئے۔ اس زمانے میں جہلم میں پانی بہتا تھا اور کشتیاں چلتی تھیں۔ کنارے پر کافی رونق رہتی۔ کشتی پر بیٹھنے لگے تو میری والدہ نے مجھے نہ بیٹھنے دیا۔ میں نے بیٹھنے کی ضد کی تو امی بولیں کہ جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔ میں کنارے پر امی کے پاس روتا رہا اور باقی سب کشتی کی سیر کرتے رہے۔

45 منٹ کا سفر سوچتے سوچتے گزر گیا۔ کشتی کنارے لگی تو ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے جھیل کا پانی آنکھوں سے بہنے لگا۔ پسو کونز کے بیک ڈراپ میں ملاح کا چہره دھندلا چکا تھا۔ مرحومہ ماں کی آواز وادی میں ایکو کرنے لگی “جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے”. حسینی کے گاؤں میں چلتے چلتے اسکول جاتے نیلی آنکھوں والے بچوں نے ہاتھ ہلا کر اشاره کیا تو جھیل، کشتی اور یادیں پیچھے ره گئیں۔ پہاڑوں پر سنہری دھوپ اترچکی تھی۔ موسم بدل چکا تھا۔ پانی کا سفر ختم ہو چکا تھا۔

ذرا آگے ایک کچی سڑک بورت جھیل کی طرف مڑ جاتی ہے۔ محض ایک کلومیٹر کی مسافت کے بعد جھیل نظر آتی ہے۔ کنارے پر ایک قدیم ہوٹل آباد ہے جس کے کھانے کا لطف مجھے آج بھی نہیں بھولتا۔ جھیل کے کناروں پر لمبی گھاس اُگ آئی تھی۔ بیک ڈراپ میں برف پوش پہاڑ کھڑے تھے جن کا عکس گدلے پانیوں میں جھلکتا تھا۔ وہیں کہیں چار مرغابیاں پانی کی سطح پر تیر رہی تھیں۔

اس جھیل کا رنگ کالا ہے لہٰذا ایسے گہرے کالے پانیوں پر مرغابیوں کا نظر آنا خوشی کی بات ہی ہو سکتی ہے، لیکن بقول تارڑ صاحب “خوشی کا چار مرغابیوں سے کیا تعلق؟” خوشی کا تعلق تو انسان کے اندر سے ہوتا ہے۔ جھیل کا چکر لگا کر دیکھا تو مناظر میں قدم قدم پر تبدیلی واقع ہوتی رہی۔ کسی زمانے میں یہ جھیل آبی حیات اور ہجرت زدہ پرندوں کی آماجگاہ ہوا کرتی تھی مگر اب پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جھیل خشک ہوتی جا رہی ہے۔

چار مرغابیوں کا غول اڑا اور دور برفپوش پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ ان کے اڑنے کے ساتھ خوشی بھی رخصت ہوئی۔ ہوٹل واپس پہنچے تک بھوک ستا رہی تھی۔ بوڑھے شخص نے بڑھ کر استقبال کیا اور بولا “حالات کے پیشِ نظر سیاحت کے متاثر ہونے کے بعد یہاں اب کبھی کبھار ہی کوئی بھولا بھٹکا آ جاتا ہے، تو میری بھی گزر اوقات کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ تم اس جھیل کی اچھی تصویریں لینا، اور دنیا کو دکھانا تا کہ سیاحت کو پھر سے فروغ مل سکے اور میرے بچوں کی روزی روٹی بھی لگی رہے، میں تمہیں مزیدار کھانا کھلاتا ہوں۔” بوڑھے کی اس رشوت پر آنکھ میں نمی اور لبوں پر مسکراہٹ  در آئی۔

وہیں ایک ڈینش لڑکی ملنے چلی آئی۔ بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ پی ایچ ڈی کی طالبعلم ہے اور پاکستان میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں پر مقالہ لکھ رہی ہے۔ کہنے لگی کہ تین ماہ سے بورت جھیل پر ہوں۔ یہ جگہ اور جھیل اتنی پسند آئیں کہ ابھی تک واپس جانے کا دل نہیں کیا، اور یہیں ایک کمرے میں پڑی اپنا گزر بسر خود کر رہی ہوں۔ پھر بولی “کیا تم نے پورے چاند کی رات میں اس جھیل کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو تم یہاں رک جاؤ آج رات دیکھ کر جانا۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں ایسی تصویر پھر نہیں ملے گی۔”

میں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ مجھے جانا ہے اور میرے پروگرام میں یہاں رکنا نہیں۔ وہ بولتی ہی چلی جا رہی تھی۔ شاید تین مہینوں کا اسے ایک ساتھ بولنا تھا۔ میں اور جیپ ڈرائیور کھانا کھاتے اس کی باتیں سنتے رہے۔ چلنے لگے تو بولی “تمہارا ملک خوبصورت ہے، پَسو گاؤں جاؤ تو بتورا گلیشیئر ضرور جانا۔ میں نے وہاں سفید برفوں پر سفید رنگ کے راج ہَنس اُترتے دیکھے ہیں۔” میں نے اثبات میں سر ہلایا اور چل دیا۔

ڈرائیور نے چلتے چلتے حیرانی سے پوچھا “صاحب گلیشیئر پر راج ہَنس اُترتے ہیں؟ ہم نے تو کبھی نہیں دیکھے، ہمارا تو بچپن ہی اِدھر گزرا ہے۔” میں نے ڈرائیور سے کہا “وہ کوئی دیوانی تھی، اور دیوانے لوگوں کی دیوانگی میں گلیشیئر پر راج ہَنس کیا، کبوتر بھی اُتر سکتے ہیں اور تتلیاں بھی۔ میں نے بھی دریائے چناب پر جگنوؤں کے قافلے دیکھے تھے۔” ڈرائیور مسکرانے لگا اور مسکراتے مسکراتے پَسو گاؤں آ گیا۔

آدھی رات کو جب سارے دن کے کاموں سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹتا ہوں تو بیتے لمحے، سفری یادیں، ہنستے روتے لوگ، گلگت بلتستان کی وادیاں، جیپوں کا شور، جنگل، نگر اور ہیسپر کے پرانے گھر یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائیٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔

نومبر کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں خنجراب پہنچا تو برف نے استقبال کیا۔ مسلسل گرتی برف پہاڑوں، راستوں، پتھروں، نالوں پر سفیدی کیے جا رہی تھی۔ وہیں کہیں پاکستان اور چین کی سرحد کے مابین کھڑے میں نے اپنا چہرہ آسمان کی  جانب اٹھایاتو پلکوں پر برف کے گولے ٹھہرنے لگے۔ دھیان ٹوٹنے تک میرے چہرے پر برف جم چکی تھی۔ سانسوں کی حرارت سے برف کے گالے پانی میں تبدیل ہوتے جا رہے تھے۔ پلکوں پر بوجھ تھا۔ رومال سے چہرہ صاف کیا تو ڈرائیور بولا “صاحب! پاکستان یہاں ختم ہو گیا ہے۔ واپس گھر کو چلیں؟” ڈرائیور نے گاڑی موڑی تو میں سیٹ پر بیٹھا اور اسے کہا “شریف! پاکستان یہاں سے شروع ہوتا ہے۔” دائیں ہاتھ ایک سائین بورڈ پر لکھا تھا “ویلکم ٹو پاکستان۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ ڈان

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply