نیل گگن تلے پاکستان کا نیلم۔۔۔۔سید مہدی بخاری

اگلی صبح اٹھا اور کشمیر کی آخری انسانی آبادی گگئی گاؤں کی طرف چل پڑا۔ یہ پیدل مسافت کا راستہ تھا۔ راستے میں جنگل تھے۔ کھیت تھے۔ چرند پرند تھے۔ ایک دو مارموٹ تھے۔ میرے ساتھ ساتھ گگئی نالہ جھاگ اڑاتا بہے جا رہا تھا۔ چلتے چلتے پہاڑوں کے دامن میں ایک کھلا سا مقام آیا جہاں درہ برزل کی طرف سے آتا گجر نالہ گگئی نالے میں مل جاتا ہے۔ یہ دونوں مل کر بہنے لگتے ہیں اور اپنے پانیوں کو تاؤبٹ کے مقام پر دریائے نیلم کے سپرد کر دیتے ہیں۔

دھوپ کھِلنے لگی۔ پہاڑی گلہری درخت سے اتری اور نالے کے کنارے پڑے ایک لکڑی کے ٹکڑے پر چڑھ کر دھوپ سینکنے لگی۔ ہوا میں سردی بھری ہوئی تھی۔ یہیں کہیں آس پاس مارموٹ تھے جن کی سیٹیاں فضا میں وقفے وقفے سے گونجنے لگتیں۔ پھر ایک جنگل آیا جس کو پار کر کے آبادی تک پہنچا۔ چار گھنٹوں کے ٹریک کے بعد میں گگئی گاؤں میں موجود تھا۔ چند نفوس پر مشتمل یہ آبادی کشمیر کی آخری آبادی ہے اس کے بعد تین دن کی پیدل مسافت پر ضلع استور واقع ہے۔ بیچ میں جنگلات ہیں یا ندی نالے۔ تنہائی ہے اور تنہائی کی ہیبت۔

سال کے سات ماہ برف میں دبا رہنے والا یہ گاؤں خوبصورت ہے۔ وہاں ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ آپ لوگ سال کے چھ سات ماہ جب برف گرتی ہے بالکل کچھ نہیں کرتے کیا؟ کچھ نہیں کرتے تو اتنا لمبا عرصہ انسان فارغ رہ کر گھر میں بند ہو کر کیسے گزار سکتا ہے؟ چچا کے لبوں پر مسکان پھیل گئی اور بولا “کرتے ہیں ناں، ہر گھر میں بارہ سے کم بچے نہیں، اور کیا کریں۔” میں نے عرض کرنا چاہا کہ چچا میرا مطلب کسی کام دھندے سے تھا مگر جواب سن کر چپ رہا۔

چلنے لگا تو گاؤں والوں میں سے ایک بندہ بولا “آگے کدھر جاتے ہو آگے تو کوئی آبادی نہیں یہاں سے واپس تاؤبٹ جاؤ۔” میں نے کہا کہ بس تھوڑا آگے تک جاتا ہوں شاید کوئی اچھا منظر مل جائے تو تصویر لے لوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ کچھ آگے بڑھا تو ایک بندہ کاندھے پر کلہاڑی اور پشت پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے چلا آ رہا تھا جو وہ جنگل سے کاٹ کر لا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا “او بھائی! آگے نہ جاؤ ایسے ہی کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گا تو مسئلہ خراب ہوگا۔” یہ سن کر میں سن ہو گیا۔ واپسی کی راہ لیتے میرے ذہن میں اس کا جملہ مسلسل گونج رہا تھا “کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گا تو مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔۔ مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔ مسئلہ خراب ہو گا۔۔۔”

واپس مڑنے سے پہلے میں نے ہاتھ ماتھے پر رکھ کر آنکھوں کو سورج کی روشنی سے بچاتے درہ برزل کی برفوں پر آخری نگاہ ڈالی۔ دور بہت دور برف پوش چوٹیاں تھیں جو برفوں سے لدی پڑی تھیں۔ یہ درہ برزل کی چوٹیاں تھیں۔ ان کے آگے گلگت بلتستان کا ضلع استور تھا۔ میرے نامہء اعمال میں کشمیر کی آخری انسانی آبادی کے سفر کے آگے تمام شد لکھا جا چکا تھا۔ پردہ افلاک کے پار قلم مقدر کے تختہ سیاہ پر ایک اور سفر لکھ رہا تھا۔ میرے پاؤں میں ایک نیا چکر تشکیل پا رہا تھا۔ میرے ہتھیلی پر سفر کی لکیر پھیلتی جا رہی تھی۔ تھکن کے مارے میں نے سر جھکا دیا۔ یہ قدرت کے آگے سر تسلیمِ خم تھا۔ آنکھیں بند کیں تو مجھے لگا جیسے تھکن سے میرا وجود ریزہ ریزہ ہو کر ڈھ جائے گا۔ پھر میرے گھٹنوں نے کشمیر کی زمین کو چھوا۔ پیشانی کشمیر کی خاک سے مَس ہوئی۔ وہی سجدہ جو ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔

کشمیر خوبصورت ہے۔ میں نے اتنا ہی دیکھا جتنا میرے بس میں تھا۔ کنٹرول لائن کے پار کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ ہزاروں لوگوں کی قبریں ہیں جو گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ ہزاروں عورتیں ہیں جن کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مائیں ہیں جن کی کوکھ اجڑ چکی۔ ہزاروں بوڑھے ہیں جن کے جوان بیٹے گولی کھا کر خاموش ہو چکے۔ ہزاروں امیدیں، آسیں دم توڑ چکیں۔ صندل کے جنگلات نذرِ آتش ہو چکے۔ جہاں جگنوؤں کے قافلے اترا کرتے تھے وہاں اب چیونٹیاں خیمہ زن ہو چکیں۔ ڈل جھیل میں چلنے والی کشتیوں کے ملاح آزادی کے گیت گاتے گاتے بوڑھے ہو چکے۔ میرا آج کا کام دکھ اٹھاتے کشمیریوں کے نام اور ادھر کی فضاؤں میں لہراتے سرخ آنچلوں کے نام۔ فیض احمد فیض کی نظم کے ساتھ کشمیر کو الوداع

آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے

ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کِھل کِھل کے
مرجھا گئے ہیں

ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو

پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈان میں پبلش کالم “نیل گگن تلے پاکستان کا نیلم” سے اقتباس

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply