“مثل برگ آوارہ”سے
ڈرانے والے درحقیقت خود بہت خائف ہوتے ہیں۔ یہ حال ان مافیا گروہوں کے اراکین کا ہوتا تھا کہ جو ان سے ڈر گیا اس پر وہ سوار ہو جایا کرتے تھے اور جن سے وہ خود ڈرتے تھے ان سے ان کی جان جاتی تھی۔ ایک بار دونوں آندرے بھتہ وصول کرنے آئے تھے، ایک بڑا آندرے تھا اور ایک چھوٹا آندرے، ان کی عمروں میں تو کوئی اتنا زیادہ فرق نہیں تھا البتہ میں نے انہیں بڑے اور چھوٹے کا لقب دیا ہوا تھا۔ عمر میں کچھ بڑا آندرے طویل قامت اور سنجیدہ تھا، جس کا جسم باڈی بلڈروں کا سا تھا مگر اس کے بقول وہ باکسر تھا جبکہ چھوٹے آندرے کا قد چھوٹا تھا، جسم گٹھا ہوا اور اس کی نگاہیں مضطرب دکھائی پڑتی تھیں۔ میرے پاس اس وقت مطلوبہ رقم نہیں تھی لیکن بڑے آندرے نے میز پر مکہ مار کر کہا تھا، “ابھی چاہیے” میں نے انہیں کہا تھا کہ وہ بیٹھیں تو میں گاڑی میں جا کر گھر سے رقم لے آتا ہے۔ وہ مان گئے تھے۔ جب میں نکلنے لگا تو دروازے سے پہلے چھوٹا آندرے کھڑا تھا جس نے کہا تھا،” دیکھنا اگر پولیس کو اطلاع دی تو تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا”۔ مجھے بہت غصہ آیا تھا اور میں نے جواب میں کہا تھا،”جب مجھ میں سکت ہوگی میں خود تم لوگوں سے نمٹ لوں گا، پولیس کی مجھے مدد نہیں چاہیے”۔ شاید میری غلط سلط روسی اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔
میری روسی زبان تب ایسی ہی تھی، نہ میں اپنا مدعا پوری طرح بیان کر سکتا تھا اور نہ ہی کسی کی بات کا درست مطلب سمجھ سکا کرتا تھا۔ ایک بار جب مظہر دفتر میں پہنچا تو میں منہ لٹکائے بیٹھا تھا۔ مظہر نے سبب پوچھا تو میں نے بتایا تھا کہ ابھی مافیا والے آندرے آئے تھے۔ جب انہیں بتایا کہ کام اچھا نہیں چل رہا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے خوانچے میں بٹھا دیں گے جس پر میں اپنی توہین محسوس کر رہا تھا۔ مظہر کو لگا کہ میں نے ان کی بات صحیح نہیں سمجھی تھی۔ اس نے پوچھا تھا کہ انہوں نے فقرہ کیا کہا تھا جب میں نے فقرہ بتایا جو مجھے یاد رہ گیا تھا تو مظہر اپنا قہقہہ نہیں روک سکا تھا۔ میں ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔ پیشتر اس کے کہ میں مظہر پر اپنا غصہ نکالتا مظہر نے بتایا تھا کہ جناب جب آپ نے کہا کہ کام اچھا نہیں چل رہا تو مافیا والے نے آپ کو تجویز دی تھی کہ ہم آپ کو خوانچے یعنی کیوسک لگوا دیتے ہیں، انہوں نے کیوسک میں آپ کو بٹھانے کی بات نہیں کی۔ درحقیقت شہر میں کیوسک مافیا کی مرضی سے لگتے ہیں اور چونکہ کیوسکوں میں نقد کا کاروبار ہوتا ہے اس لیے اس میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ یہ سن کر میرا موڈ تو بہتر ہو گیا تھا لیکن میں زبان سے متعلق اپنی نا آگاہی پر شرمسار دکھائی دے رہا تھا۔
ایک بار دونوں آندرے کے ہمراہ ایک اور شخص بھی آیا تھا جس کے گال پر گہرے زخم کا نشان تھا۔ یہ وہی شخص تھا جو چھیل چھبیلے نوجوانوں سے ملنے کے لیے غنڈوں کی ٹیم کے سربراہ کے طور پر آیا تھا اور جس نے بھتے کی رقم پانچ سو ڈالر سے بڑھا کر ایک ہزار ڈالر کر دی تھی، یہ نابکار شخص جاتے جاتے احسن اور سہیل کا کرکٹ کا بیٹ بھی اٹھا کر لے گیا تھا کہ کسی کو پیٹنے کے لیے یہ زیادہ بہتر رہے گا، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اصل میں بیٹ کا استعمال کیا ہے۔ یہ تینوں غنڈے سیدھے میرے دفتر میں آئے تھے، اس وقت منیجر سرگئی میرے کمرے میں تھا جسے اس شخص نے یہ کہہ کر وہاں سے نکال دیا تھا کہ ہمیں بات کرنی ہے۔ ان دنوں ظفر کھوسہ بھی میرے دفتر میں بلا معاوضہ کام کرنے لگا تھا۔ مجھے یاد نہیں کس بات پر مافیا کے اس شخص نے اپنی آواز بلند کی تھی جب میں نے بھی اتنی ہی بلند آواز میں جواب دیا تھا تو ظفر نے یہ دیکھنے کے لیے کہ معاملہ کیا ہے دروازہ کھولا تھا، عین اس لمحے اس شخص نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رینچ نما لوہے کا کوئی بڑا سا آلہ سر سے اوپر لے جا کر مجھے مارنے کی اداکاری تھی جسے دیکھتے ہی ظفر نے اندر آنے کی بجائے دروازہ پھر سے بند کر لیا تھا لیکن میں نے چشم زدن میں مافیا کے باس کوستیا کا نمبر ڈائل کیا تھا اور کہا تھا “کوستیا یہ کیا ہو رہا ہے”؟ کوستیا کا نام سنتے ہی غنڈے کا ہاتھ جہاں تھا تھا وہیں رک گیا تھا۔ میں نے کوستیا کو صورت حال بتائی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ بھتہ وصولی کی خاطر کسی کو نہ بھیجا جائے میں مقررہ تاریخ پر مطلوبہ رقم مقررہ مقام پر پہنچا دیا کروں گا۔ کوستیا نے کہا تھا کہ ریسیور اس شخص کو دو۔ کوستیا نے اسے کیا کہا تھا کچھ معلوم نہیں مگر بھتہ وصول کرنے والے منہ لٹکا کر بھتہ کی رقم لیے بغیر چلے گئے تھے، جس کے بعد ان کا آنا رک گیا تھا البتہ کبھی کبھار کوستیا مجھے سینیما کرغیزیا کے نزدیک طلب کر لیتا تھا اور ایک دو بار مجھے بھتہ کی رقم دیر میں دینے کے سلسلے میں اس سے ملنے کی درخواست کرنی پڑی تھی تب بھی وہ وہیں ملے تھے، طریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ کسی کار میں آتے تھے۔ مجھے ساتھ بٹھا لیتے تھے، کار گھومتی رہتی تھی، بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ بات تمام ہونے پر مجھے وہیں اتار دیتے تھے، جہاں سے لیا ہوتا تھا۔
چوری ہونے والی سگریٹوں کی بازیابی کے سوال پر کوستیا کے جواب سے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ غنڈے صرف بھتہ وصول کرتے ہیں اس لیے میں نے ان سے کبھی کام نہیں لیا تھا۔ ہاں دو بار ایسا ضرور ہوا تھا کہ کسی نے مجھ سے کہا تو میں نے مافیا سے رابطہ کیا۔ مافیا اگر کسی سے پھنسی ہوئی رقم وصول کرکے دیتی تھی اس کا نصف ان کا ہوتا تھا۔ ایک بار تو مظہر نے کسی کو مال دیا تھا جس سے وصول کرنے کے لیے اس نے مجھ سے مافیا کی مدد دلانے کی بات کی تھی۔ اس شخص سے ملنے والی آدھی رقم مل گئی تھی۔ دوسری بار نینا کے بیٹے ساشا نے کہا تھا۔ وہ میری غیر موجودگی میں ندیم سے چمڑے کی ساٹھ جیکٹیں لے گیا تھا جو بقول ساشا کے اس کے دوست پاشا نے اینٹھ لی تھیں۔ جب ساشا مافیا والوں کو ساتھ لے کر گیا تو مان گیا کہ آدھی رقم اس پر واجب الادا ہے، مافیا نے اس کے دوست سے تین ہزار ڈالر لے کر اپنی جیب میں ڈالے اور اسے کہا کہ تم اپنے ذمے واجب الادا تین ہزار ڈالر اس مد میں مرزا کو دے دینا۔ ساشا نے کہاں دینے تھے یعنی وہ چھ ہزار ڈالر بھی ہوا میں گئے تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں