مقتدیٰ صدر کا دورہ سعودی عرب، اہداف اور نتائج

مقتدیٰ صدر کا دورہ سعودی عرب، اہداف اور نتائج
فرزان شہیدی
ان دنوں عراق اور خطے کے سیاسی و میڈیا حلقوں میں عراق کی صدر پارٹی کے سربراہ سید مقتدی صدر کا دورہ سعودی عرب چھایا ہوا ہے۔ یہ دورہ سیاسی اور میڈیا محافل کی خاص توجہ کا مرکز اس لئے بن گیا ہے کہ 2003ء سے اب تک عراق خاص طور پر شیعہ عوام میں سعودی عرب کی نسبت انتہائی منفی نقطہ نظر پایا جاتا ہے اور عراقی رائے عامہ آل سعود رژیم کو فتنہ انگیز اور جنگ طلب تصور کرتی ہے۔ دوسری طرف سید مقتدی صدر بھی سعودی عرب کے بارے میں کم و بیش شدت پسندانہ موقف کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے 2006ء میں ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے بعد سعودی حکام سے ان کے کسی قسم کے اعلانیہ تعلقات قائم نہیں رہے۔ مقتدی صدر کا دورہ سعودی عرب اس ملک کے نئے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے سرکاری دعوت کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ جب وہ ساحلی شہر جدہ پہنچے تو بغداد میں سعودی عرب کے سابق سفیر ثامر السہبان نے ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے ثامر السہبان کو گذشتہ برس عراقی قوم کے مقدسات کی توہین کرنے اور عراق میں فرقہ وارانہ سرگرمیاں انجام دینے کے الزام میں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر نکال دیا گیا تھا۔ مقتدی صدر کے دورہ سعودی عرب، اس کے مختلف پہلووں، اہداف اور نتائج کے بارے میں درج ذیل نکات اہمیت کے حامل ہیں:

1)۔ محمد بن سلمان کی ولیعہدی کے بعد سعودی عرب نے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کی نگاہ میں عراق انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے، لہذا سعودی حکام عراق کی سیاست میں ماضی کی نسبت زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ بغداد سے سعودی سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر نکال دیئے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے جس کے بعد دونوں طرف سے تعلقات بحالی کیلئے کاوشوں کا آغاز کر دیا گیا۔ اس سال فروری میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بغداد کا دورہ کیا جبکہ حال ہی میں عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے مقتدی صدر کو سعودی عرب آنے کی دعوت سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے عراق سے تعلقات بحال کرنے کی کوششیں حکومتی سطح سے بھی عبور کر چکی ہیں۔

2)۔ اگرچہ ماضی میں سید مقتدی صدر سعودی حکام کے خلاف انتہائی شدید موقف اپناتے رہے ہیں لیکن اب انہوں نے سعودی ولیعہد کی دعوت قبول کرتے ہوئے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ عراق کے بعض سیاسی گروہوں اور شخصیات خاص طور پر نوری المالکی سے مقتدی صدر کے اختلافات اور اسلامی جمہوریہ ایران سے فاصلہ پیدا کرنے کے باعث سعودی عرب کے پاس ان پر کام کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے مقتدی صدر کو دورے کی دعوت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض عراق میں شیعہ قوتوں کو اپنی جانب لانے اور انہیں اسلامی جمہوریہ ایران سے دور کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ مقتدی صدر کی زیر سربراہی صدر پارٹی عراقی پارلیمنٹ میں 34 کرسیوں کی مالک ہے جبکہ اس کا ملٹری ونگ “سرایا السلام” 60 ہزار جنگجووں پر مشتمل ہے جو اس وقت رضاکار فورس الحشد الشعبی میں سرگرم عمل ہے۔ اسی طرح مقتدی صدر کی پارٹی دیگر شیعہ پارٹیوں جیسے حزب الدعوہ اور مجلس اعلای عراق کی نسبت عوام میں زیادہ محبوبیت کی حامل ہے۔ لہذا سعودی حکام کی جانب سے عراق میں ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے صدر پارٹی کا انتخاب عقلمندی اور ذہانت کی بنیاد پر انجام پایا ہے۔

3)۔ سعودی حکام نے مقتدی صدر کے دورہ سعودی عرب کا پرتپاک استقبال کیا جبکہ عراق کے بعض گروہوں اور سیاسی عہدیداروں نیز ایرانی میڈیا نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب سعودی حکام ملک کے مشرقی حصے میں واقع شیعہ اکثریتی علاقے العوامیہ میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کرنے اور انہیں طاقت کے زور پر کچلنے میں مصروف ہیں۔ البتہ عراق کے بعض سیاسی گروہوں نے اس دورے پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ ایسے گروہ ہیں جن کے ایران سے تعلقات اچھے نہیں اور وہ بغداد اور ریاض میں قربتیں بڑھائے جانے کے حامی ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ قومی حکمت پارٹی (مجلس اعلای اسلامی عراق سے علیحدہ ہونے والی ایک سیاسی جماعت) کے رکن محمد جمیل المیاحی نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مقتدی صدر کے دورہ عربستان کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ عراقی حکام اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خارجہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنائیں۔

4)۔ اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ مقتدی صدر اس دورے سے کیا اہداف حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں، ماضی میں سعودی حکام کی جانب سے عراق اور خاص طور پر شیعہ عراقی عوام کے بارے میں منفی رویہ اپنائے جانے کے پیش نظر اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر پارٹی کے سربراہ مقتدی صدر کی جانب سے آل سعود رژیم خاص طور پر اس ملک کے نئے اور جوان ولیعہد پر حد سے زیادہ اعتماد کا نتیجہ داعش کے خاتمے کے بعد 2018ء کے الیکشن کے قریب عراق میں سعودی عرب کے اثرورسوخ میں اضافے کے خطرے کے علاوہ خود مقتدی صدر اور ان کی پارٹی کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ جانے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

5)۔ مقتدی صدر کی جانب سے سعودی عرب دورے کے بارے میں ایک اور اہم نکتہ سعودی عرب کے بارے میں نئی امریکی حکومت کی پالیسی پر مبنی ہے۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آل سعود رژیم کو سبز جھنڈی دکھائی ہے جس کی بنیاد پر دونوں ممالک میں چند اہم معاہدے انجام پائے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرون ملک دورے میں سعودی عرب کا سفر کیا ہے اور اس طرح سعودی عرب کو خطے میں اس کی کھوئی ہوئی حیثیت واپس دلوانے کی پالیسی کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکہ نے سعودی حکام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اسے خطے اور عرب ممالک میں مرکزی کردار عطا کرے گا اور یوں آل سعود رژیم کو نیا امریکی ایجنڈا دیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر سعودی حکومت اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لوٹانے کے درپے ہے۔ قطر سے سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کا تعطل اور اس کے خلاف بھرپور اقتصادی اور نفسیاتی جنگ کا آغاز اسی امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اسی طرح سعودی حکومت امریکہ کی جانب سے دیئے گئے روڈ میپ کے مطابق عراق میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کیلئے شیعہ گروہوں اور شخصیات پر بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد ایران مخالف محاذ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنانا ہے۔

6)۔ سعودی عرب کے حامی میڈیا ذرائع نے سید مقتدی صدر کے دورہ سعودی عرب کو روٹین سے ہٹ کر بھرپور انداز میں کوریج دی ہے۔ اسی طرح ان ذرائع نے مقتدی صدر کے دورے کو مجلس اعلای عراق سے سید عمار حکیم کی علیحدگی کے بعد عراقی شیعہ عوام کی ایران سے دور ہونے کے دوسرے قدم کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ سید مقتدی صدر اور سید عمار حکیم ایران کی حمایت پر اس کے شکرگزار تو ہیں لیکن اب عراق میں ایران کے حد سے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو برداشت نہیں کرتے لہذا ان کا جھکاو خطے میں ایران کے حریف سعودی عرب کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

7)۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے حامی میڈیا ذرائع کی جانب سے شروع کی گئی اس نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈے میں مشاہدہ ہونے والا ایک اور اہم نکتہ ایران پر عراق اور خطے میں قومی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے کی الزام تراشی ہے۔ البتہ یہ کوئی نئی بات نہیں اور یہ ذرائع ابلاغ ہمیشہ سے خطے میں ایران کے کردار کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ نئے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب قومی اور مذہبی سطح سے بالاتر ہو کر اعتدال پسندانہ پالیسیاں اختیار کرے گا اور اس طرح عراق میں موجود قومی و مذہبی تنازعات کو حل کرنے کیلئے موثر اقدامات انجام دے گا۔ سید مقتدی صدر کو سعودی عرب دورے کی دعوت بھی اسی تناظر میں دی گئی ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز دعوی ہے اور یمن کے خلاف سعودی جارحیت اور خود سعودی علاقے العوامیہ میں آل سعود رژیم کی جانب سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف طاقت کا ظالمانہ استعمال اس دعوے کے کھوکھلا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply