مقام شکر یا مقام عبرت۔۔بنتِ شفیع

ازل سے ابد تک قائم رہنے والی ذاتِ بابرکات نے اس عالم ِ نا پائیدار کے ہر نفس کو جیسا اور جس طرح تخلیق کیا اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر پوری کائنات کو اس کے تابع کر دیااس کے لیے وہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کرے، کم ہے۔ مقام ِ شکر تو یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں صحیح وسالم اعضاء عطا فرمائے۔اس کا فضل و احسان یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو دماغ دے کر اس میں ایسی صلاحیتیں بھر دیں کہ ان کو بروئے کار لا کر وہ معاشرے میں جیسا چاہے مقام حاصل کر سکتا ہے۔اب یہ انسان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کو مثبت سمت دیتا ہے یا منفی۔

مقامات شکر تو لاکھوں ہیں، انسان چاہے بھی تو ان کا شمار نہیں کر سکتا۔ خود خداتعالیٰ نےبندے سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم میری کن کن نعمتوں کا شکر ادا کرو گے ۔ ہر وقت بندے کو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہیے مگر ایسا شکر نہیں جوآ ج کل دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے۔کچھ ستم ظریفوں نےمقام شکر کا عجیب و غریب استعمال دریافت کیا ہےجوایک ٫لمحہ فکریہ ہے دیکھنے اور سننے والوں کے لیے۔آپ نے ایسے ہزاروں بد باطن دیکھے ہوں گے جن کی شخصیت کے ہر بُرے پہلو سے عوام پوری طرح باخبر ہوتے ہیں۔یہ بد باطن ہر حکومت میں چولا بدل کر موجود ہوتے ہیں۔چونکہ سارا میڈیا ان کے اپنے کنٹرول میں ہوتا ہے اس لیے ان کے انٹرویو میں اکثر اس سوال کے جواب میں کہ آپ اس مقام تک کیسے پہنچے ؟مخصوص تبسم کے ساتھ یہ جواب نمایاں ہوتا ہے کہ یہ سب اللہ کا فضل اور اس کا احسان ہے کہ آج میں اس مقام پر ہوں کہ عوام کی خدمت کر سکوں۔قہرِ خداوندی بن کر بندوں پر نازل ہونے والے ان لوگوں کا یہ جملہ ملاحظہ فرمایا آپ نےکہ یہ سب اللہ کے فضل اور احسان کے نتیجہ میں ہوا۔ ٹھیکیداران ِمعیشت عوام کی رگوں سے لہو کا آخری قطرہ نچوڑ لینے والی جونکیں چہرے سے اپنا اصلی نقاب اتار کر جب انٹرویو کے لیے آتی ہیں تو ان کی زبان پر اکثر یہی الفاظ جاری وساری ہوتے ہیں کہ  اللہ کا فضل ہے،حالانکہ اس فضل کی اوٹ سے جھانکتے بینکوں کے لاکرز, ان کی چھلکتی تجوریاں اور ان کے سیکڑوں ایکڑ رقبے پر ایستادہ اندرون و بیرون ملک محل, جدید سے جدید ماڈل کی جہازی سائز گاڑیاں    سب پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہیں کہ یہ سب کچھ بلیک منی کا کمال تو ہو سکتا ہے اللہ کا فضل ہر گز نہیں ۔

یہ کمال ڈھٹائی اور دیدہ دلیری نہیں تو اور کیا ہےکہ لوٹ مار نوچ کھسوٹ اور ناجائز اور حرام طریقوں اور ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو یہ کہہ کر جائز اور حلال بنانے کی کوشش کی جائے کہ یہ سب اللہ کا فضل اور احسان ہے پھر اس ستم ظریفی میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ حرام کار اپنی حرام کی آمد سے تعمیر کردہ پلازوں اور بنگلوں کی پیشانی پر “ہذامن فضل ربی” کی سنہری تختی لگا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان پر واقعی صرف خدا کا فضل ہو گیا ہے۔اسلام کے احکام سے سرتابی اور ممنوعہ افعال کے ارتکاب کے بعد اس سب کچھ کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی حرام دولت اور جعلی شان و شوکت کو اللہ کا فضل قرار دینا کوئی  ان حرام کھانے والوں سے سنے۔ہماری حکومت کبھی بھی آزادی سے اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس کی ہر سوچ نوکر شاہی کی تدبیروں کے شکنجوں میں جکڑی ہوتی ہے ہمارا ہر چھوٹا بڑا سرکاری اہل کار اپنی جگہ پر ایک چھوٹا یا بڑا فرعون ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ادنی’ ترین کلرکوں کی رسائی اور اپروچ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہےاور آپ ان سے جب حال احوال دریافت کریں گےرسمی یا غیر رسمی تو جواب بڑے ہی مسکین لہجے میں ان کا بھی یہی ہوگا ۔(بڑی ہی مکروہ قسم کی مسکراہٹ کے ساتھ )کہ اللہ کا احسان ہے کہ میں آپ کی خدمت کے مقام پر ہوں ۔ورنہ شائد آپ کو اس کام کے لیے مہینوں اس دفتر کا طواف کرنا ہڑتا۔بے شک دور جدید کے سوشل میڈیا نے عوام کے لیے جو بات کل تک باعث شرم تھی آج باعث فخر بنا دی ہے۔بدی برائی  فحاشی نے فیشن کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ہماری ترقی پسند لبرل سوچ نے ہر حیا باختہ فعل کا جواز پیدا کر لیا ہےجس کے طفیل ہم بزعم خویش مغربی قوموں ے آنکھیں ملانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔اور اس سب پر ہماری دیدہ دلیرانہ خدا پرستی اور خدا دوستی دیکھیے کہ ہم اپنی ہر بے راہ روی کو بھی اللہ کا فضل اور احسان قرار دیتے ہیں جب کہ یہ مقام شکر نہیں مقام عبرت ہے جس کا خمیازہ اس دنیا اورآخرت دونوں میں بھگتنا پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply