ٹیکنالوجی کی حشر سامانیاں

اگر صحاحِ ستہ کے مصنفین کو بتا دیا جائے کہ ان سب کی زندگی بھر کی اجتماعی مساعی چند درہم کی فلیش ڈرائیو میں محفوظ ہے ، اگر تمام آئمہ کو بتا دیا جائے کہ ان سب کی فقہی محنتیں بس ایک چھوٹے سے میموری کارڈ میں رکھی ہوئی ہیں ، امام سرخسی کو بتا دیا جائے کہ 10 سالہ مشقت کے نتیجے میں بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی جانے والی ان کی شرح 25 درہم کی فلیش ڈرائیو میں رکھی ہوئی ہے تو۔۔۔۔ سوچتا ہوں کیسے کیسے تراہ نکلیں گے لوگوں کے حشر کے میدان میں۔ایک عرض سنتے جائیے گا۔۔۔

اگر قارون کو بتا دیا جائے کہ آپ کی جیب میں رکھا اے ٹی ایم کارڈ اس کے خزانوں کی ان چابیوں سے زیادہ مفید ہے جنہیں اس کے وقت کے طاقتور ترین انسان بھی اٹھانے سے عاجز تھے تو قارون پر کیا بیتے گی؟۔اگر کسریٰ کو بتا دیا جائے کہ آپ کے گھر کی بیٹھک میں رکھا صوفہ اس کے تخت سے کہیں زیادہ آرام دہ ہے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟۔اور اگر قیصر روم کو بتا دیا جائے کہ اس کے غلام شتر مرغ کے پروں سے بنے جن پنکھوں سے اسے جیسی اور جتنی ہوا پہنچایا کرتے تھے آپ کے گھر کے درمیانے سے سپلٹ اے سی کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہیں تھی تو اسے کیسا لگے گا؟۔آپ اپنی پرانی سی کرولا کار لے کر ہلاکو خاں کے سامنے فراٹے بھرتے ہوئے گزر جائیں ، کیا اب بھی اس کی اپنے گھوڑوں پر سواری کا تکبر اور نخوت برقرار رہی ہوگی؟۔۔

ہرقل خاص مٹی سے بنی صراحی سے ٹھنڈا پانی لے کر پیتا تھا، تو دنیا اس کی اِس آسائش پر حسد کیا کرتی تھی۔ تو اگر اسے اپنے گھر کا کولر دکھا دیا جائے تو وہ کیا سوچے گا؟۔خلیفہ منصور کے غلام اس کے لیے ٹھنڈے اور گرم پانی کو ملا کر غسل کا اہتمام کرتے تھے اور وہ اپنے آپ میں پھولا نہیں سمایا کرتا تھا، کیسا لگے گا اسے اگر وہ تیرے گھر میں بنی جاکوزی دیکھ لے تو؟۔اونٹوں پر سوار ہو کر حج کے لیے گھر سے نکلتے تھے اور مہینوں میں پہنچتے تھے اور آج تو چاہے تو جہاز میں سوار چند گھنٹوں میں مکہ پہنچ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مان لیجئے کہ آپ بادشاہوں کی سی راحت میں ہی نہیں رہ رہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ بادشاہ آپ جیسی راحت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ مگر کیا کیجئے کہ آپ سے تو جب بھی ملیں آپ اپنے نصیب سے نالاں ہی نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ آپ کے پاس جتنی را حتیں اور وسعتیں بڑھ رہی ہیں آپ کا سینہ اتنا ہی تنگ ہوتا جا رہا ہے!الحمد للہ پڑھیے، شکر اداکیجئے خالق کی ان نعمتوں کا جن کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply