اُمِّ فیصل (2)-مرزا مدثر نواز

برصغیر پاک و ہند میں باپ یا وارث کی وفات کے بعد بروقت وراثت کا تقسیم نہ ہونا بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں کئی پشتیں مروت میں یہ فریضہ سر انجام نہیں دیتیں جسکا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے جو اپنی ساری جمع پونجی و وقت عدالتی نظام کی نذر کر دیتی ہیں اور خاندانی جھگڑے و چپقلشیں‘ قتل و غارت معاشرے میں جنم لیتے ہیں۔ دو شادیاں اور ایک لمبے عرصہ تک اولاد نہ ہونے کے سبب ابراہیم کے بھائیوں اور بھتیجوں نے اس کے حصے کی زمین کو اپنی ملکیت تصور کرنا شروع کر دیا اور کئی دفعہ تقاضا کیا کہ پٹواری کے پاس چل کر یہ سب کچھ ان کے نام کر دے لیکن ہر دفعہ ابراہیم کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میرا کیا ہے اور میں نے کون سا ان کو قبر میں لے کر جانا ہے‘ جو کچھ ہے تمہارا ہی تو ہے۔

جن لوگوں کے مال مویشی اور زمین زیادہ ہوتی ہے‘ وہ گاؤں سے باہر مویشیوں اور ان کی خوراک ذخیرہ کرنے کے لیے ایک گھر تعمیر کر لیتے ہیں‘ جو ڈیرہ کہلاتا ہے۔ موجودہ دور کے برعکس ماضی میں فراغت کے لمحات گزارنے اور تفریح کے لیے مختلف مشاغل اپنائے جاتے جیسا کہ گندم کی کٹائی کے بعد بیساکھی کا اور سال کے دوسرے مخصوص دنوں میں میلوں کا انعقاد‘ بیل اکھاڑے‘ کبوتروں کی بازیاں اور کبڈی کے میچز وغیرہ۔ گاؤں کے لوگ حقہ پینے اور گپ شپ کی محفلیں سجانے کے لیے دن و رات کے مخصوص اوقات میں ڈیروں پر اپنی حاضری یقینی بناتے جہاں ہنسی مذاق‘گیت و ماہیے و ٹپے گانا‘لُڈّو و کیرم بورڈ و تاش کھیلنا‘ مویشیوں کے معاملات‘ گاؤں کی سیاست اور دوسرے معاملات پر باہمی رائے کا اظہار کیا جاتا اور کبھی کبھار یہ ڈیرے مِنی سینما گھر کا روپ دھار لیتے جہاں وی سی پی یا وی سی آرپرفلمیں دیکھی جاتیں۔

ملک ابراہیم اور اس کے بھائیوں کا بھی گاؤں سے باہر اپنا ڈیرہ تھا جہاں ابراہیم مویشیوں کی دیکھ بھال کی غرض سے زیادہ تر وقت وہیں گزارتا۔ کھل‘ بیج‘ درانتی و دوسرے سامان کے لیے وہ ہری پور شہر میں ایک دکان سے خریداری کرتا اور زیادہ تر ادھار پر سامان اٹھاتا۔ اسی اثناء میں دکان کے مالک سے اس کا اچھا تعلق بن گیا جو اس کے ایک قریبی گاؤں سے تھا۔ جمعہ کو دکان بند ہوتی تو دکان کا مالک یعقوب اکثر اپنا وقت ابراہیم کے ڈیرہ پر گزارتا۔ دوسری بیوی کی وفات اور اکیلے پن کی وجہ سے ابراہیم بجھا بجھا سا اور پریشان رہتا‘ عمر ساٹھ سال ہونے کے قریب تھی اور اوپر سے اولاد نہ ہونے کے باعث مستقبل کے اندیشے ذہن میں ایک ہیجان برپا کیے رکھتے مگر اس نے کبھی کسی غیر کے آگے اپنے دکھوں و بے بسی کا اظہار نہیں کیا کیونکہ اب وہ لوگوں کی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھا۔
؎جہاں میں کون رکھتا ہے پرائے ہاتھ پہ مرہم
ہر ہاتھ بھی دستِ مسیحا نہیں ہوتا

ایک دن دونوں دوست کنویں کے قریب تشریف فرما تھے جہاں بیلوں کے گھنگھروؤں اور رہٹ کی آواز‘ کنویں کے قریب لگے پیپل کے ایک بڑے سے درخت پر چہچہاتے اور پانی کی آڈ‘یا کھال میں نہاتے و ڈبکیاں لگاتے پرندوں کی بولیاں‘ مرغیوں و بطخوں کی کھیت میں سے خوراک چگنے کی دلکش آوازیں فضا میں ایک عجیب رس گھول رہی تھیں کہ یعقوب نے ابراہیم کو بہت ہی غمگین و پریشان پا کر اس کی وجہ پو چھی تو آنسوؤں کی ایک لڑی اس کے رخساروں پر عیاں ہو گئی اور ابراہیم نے نم آنکھوں کے ساتھ ان خیالات کا اظہار کیاکہ بڑھاپا دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ محتاجی و بیماری و ضعیفی میں تو قریبی رشتہ دار بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور انسان خود کو ایک بوجھ محسوس کرتے ہوئے اپنی موت کی خواہش کرنے لگ جاتا ہے‘ بالوں و داڑھی میں سفیدی و چاندی اُتر آئی ہے‘
؎اک تیرا ہجر جو بالوں میں سفیدی لایا
اِک تیرا عشق جو سینے میں جواں رہتا ہے

اس عمر میں تو اب کوئی رشتہ بھی نہیں دے گا‘ اگر شادی کر بھی لوں تو لوگ کیا کہیں گے‘پتہ نہیں مستقبل کے دن کیسے گزریں گے؟
؎غمِ دل اس لیے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے جاناں
کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سُن سُن کے دل تیرا

Advertisements
julia rana solicitors london

یعقوب کے دل میں یہ سب سن کر ابراہیم کے بارے میں ہمدردی پیدا ہو گئی اور بہت دن سوچ بچار کے بعد اس نے اپنی چھوٹی بہن ہاجرہ کا رشتہ ابراہیم کو دے دیاجس کی عمر اس وقت فقط سولہ برس تھی اور ابراہیم‘ ہاجرہ کی ماں سے بھی عمر میں بڑا تھا اور تیسری شادی کے وقت اس کی عمر لگ بھگ ساٹھ برس ہو گی۔حالات و واقعات جو بھی ہوں‘ ایک سولہ برس کی لڑکی کو اس سے چوالیس سال بڑے شخص سے بیاہ دینا سرا سر زیادتی و ظلم عظیم ہے‘ آخر وہ بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہے‘ اس کے بھی کچھ ارمان و خواہشات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی نظر میں ایک نیک و ولی اللہ شخص کوبہت مشکل ہے کہ تین قسم کے لوگ نیک تصور کرتے ہوں‘ ایک اس کی بیوی‘ دوسرا اس کے دوست اور تیسرا اس کے ملازم۔ دوستی کو رشتہ داری میں بدلنا بہت ہی مشکل کام ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابراہیم ایک نیک و شریف النفس انسان تھاجو یعقوب نے اس بات کی حامی بھری۔
؎بے فائدہ ہے زیست میں احباب کا ہجوم
پر خلوص جو مل جائے تو اک شخص بہت ہے
(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply