خیال اور سوچ کی پرواز بھی کسی ہوائی سفر کے جیسی ہے۔ہر بار انسان جب یہ پرواز لے کر کسی نئے جزیرے پر پہنچتا ہے تو اس کے اندر کی گھڑی کا نظام الٹ پلٹ جاتا ہے۔ اور انسان بالکل جیٹ لیگ کی سی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔کتنے کتنے دن نیند سے ناطہ ٹوٹ جاتا ہےاور ایسا لگتا ہے کہ خیال کی یہ دنیا زمان و مکان کے باہر کی کوئی دنیا ہے جہاں ماضی حال اور مستقبل کی کوئی قید نہیں ۔
انسان جس وقت چاہے مستقبل میں جی آئے اور جب چاہے ماضی کی کسی کھڑکی سے گئے زمانے کی سیر کر آئے ۔آخر یہ خیال کیسے بنتا ہے۔کہاں سے آتا ہے ۔دماغ کیسے سوچتا ہے۔اور کہاں تک سوچ سکتا ہے۔کاگنیٹو سائنس کا یہ ماننا ہے کہ انسان وہی سوچ سکتا ہے جسکا علم اس کو پہلے سے ہے۔اور جن چیزوں کا اسے علم پہلے سے نہیں ہے وہ ان کے بارے میں کوئی رائے یا خیال نہیں بنا سکتا۔جیسے اگر باہر کسی مرغی کی آواز آتی ہے تو وہ یہ خیال کر سکتا ہے کہ یہ مرغی ہے اگر اس نے پہلے سے مرغی کو دیکھ سن رکھا ہے۔لیکن اگر اس سے پہلے زندگی میں مرغی نہیں دیکھی تو وہ نہیں سوچ سکتا کہ یہ کیا چیز ہے ۔اسی طرح کاگنیٹو فلیکسی بلٹی بھی کام کرتی ہے جیسے اگر ابھی یہ خیال کیا جائے کہ کوئی بھینس پیانو بجا رہی ہے یا کوئی گائے بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہے۔ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ پڑھتے ہوئے ہمارے دماغ میں ایک بالکل ایسی امیج ہی بنتی ہے جبکہ ہم نے اس سے پہلے کسی گائے کو کتاب پڑھتے نہیں دیکھا۔ اور نہ ہی بھینس کو پیانو بجاتے دیکھا ہے۔
دماغ یہ سب کام کیسے کرتا ہے۔یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔لیکن چونکہ ہم نے اس سے پہلے گائے بھی دیکھ رکھی ہے اور کتاب بھی ،تو ایک کاگنیٹو وے سے انسان ایک ایسی امیج بنانے کے قابل ہو جاتا ہے جو حقیقت میں نہیں دیکھی ہوتی۔اور کاگنیٹو سائنس کا یہی ماننا ہے کہ دماغ سوچ کا کام ایک کاگنیٹو وے سے کرتا ہے۔پہلے سے موجود انفارمیشن سے ہی ایک امیج بناتا ہے۔ڈیوڈ کاہینمن اپنی کتاب” تھنکنگ فاسٹ اینڈ سلو” میں کہتا ہے کہ ہم نے اپنے مائنڈ میں پہلے سے ایک ایزی کانسیپٹ بنا رکھا ہوتا ہے جس سے ہم چیزوں کو سمجھتے ہیں ۔ اسے وہ سسٹم ون کہتا ہے یہ آسان اور بغیر کسی محنت کے چیزوں کے بارے میں سوچنا ہے۔جیسے ایک ڈاکٹر مریض کا چہرہ دیکھ کر بیماری اور درد کی شدت کا اندازہ لگاتا ہے۔اور سٹاک مارکیٹ کے بروکرز بھی اسی انشوایشن کی مدد سے کاروبار کرتے ہیں ۔یہ ایک قسم کا لیول آف کمٹ منٹ ہوتا ہے۔۔۔جیسے ہم کسی دوست کی ایک بات سے اسکے موڈ کا پتہ لگا لیتے ہیں ۔ گیری۔۔اے۔کلائن بھی اپنی کتاب “سورس آف پاور” میں دماغ کی اسی طرح کی کاگنیٹو اپروچ کا اعتراف کرتا ہے۔
کچھ چیزوں کے بارے میں ہمارا پکا قسم کا تخیل بن جاتا ہے۔جو ہمیں حقیقت سے زیادہ حقیقی لگتا ہے۔جیسے کچھ لوگوں کے بارے میں ،جن کو ہم پسند کرتے ہیں ہمارا دماغ انکی ایک ایسی امیج بناتا ہے جو نہ جھوٹ بول سکتے ہیں اور کسی بھی قسم کی اخلاقی برائی سے وہ پاک ہوتے ہیں ۔ہم انکے بارے میں کسی قسم کی مخالف بات نہ سنتے ہیں نہ مانتے نہ برداشت کرتے ہیں ۔مختلف چیزوں کے بارے میں ہر انسان اپنے اپنے تجربے اور علم کی روشنی میں ایک خیال ایک سوچ وضح کر لیتا ہے۔ جیسے موت کے بارے میں،خوف کے بارے میں،خوشی ،خوبصورتی اور دکھ کے بارے میں ہر انسان کا اپنا اپنا خیال ہوتا ہے۔خیال اور سوچنے کا ایک اور طریقہ ہے جس میں دماغ کو تھوڑا زور لگانا پڑتا ہے۔یہ دماغ کی ریشنل اپروچ ہوتی ہے۔ جیسے کسی حادثاتی وقت میں کوئی فیصلہ کرنا۔اس کی مثال ہم بعض رڈلز میں دیکھتے ہیں جیسے A 13 C اور 11 13 14 میں ایک دم دیکھنے سے ہم اس میں پہلی لائن کو الفا بیٹس پڑھتے ہیں لیکن دوسری لائن میں ہم اسے نمبرز پڑھتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم دماغ پر تھوڑا زور لگائیں تو ہم اس فرق کو باآسانی پہچان سکتے ہیں۔اس طرح کی اپروچ کو کو-ہیرنس یا مطابقت کا اصول کہتے ہیں۔دماغ پہلا تاثر ایزی وے یعنی کاگنیٹو وے ہی سے بناتا ہے۔اور ریشنل وے سے بچتا ہے۔اکثر لوگ ریشنل حصے کا استعمال کم کرتے ہیں ۔زیادہ تر لوگ کاگنیٹو وے سے ہی چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔اسی وجہ سے اکثر لوگ بدعت، غلط فہمی اور بد عقیدتی کا شکار نظر آتے ہیں ۔
آج انسان ،سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں پہنچ گیا ہے وہ چیزوں کے بارے میں زیادہ بہتر جان سکتا ہے۔جیسا کہ ڈیوڈ ہیومز کہتا تھا کہ انسان اپنے تخیل سے ایک خوبصورت حقیقت پیدا کر سکتا ہے اور آج انسان جہاں ہے وہ اپنے کسی وقت کی امیجینیشن کی بدولت ہے جو آج ایک حقیقت بن کر اسکے سامنے ہیں ۔اب اس حقیقت سے وہ اپنے کئی خیالات کو بہتر خیال کر سکتا ہے اور آئندہ ایک مزید خوبصورت حقیقت کو انجوائے کر سکتا ہے۔ جیسا کہ کانٹ نے کہا تھا کہ انسان چیزوں کو اپنے اوزار سے جان سکتا ہے اور پہلے سے موجود کسی علم کی ضرورت نہیں ۔جیسے ایک اندھا انسان بھی چیزوں کے بارے میں خیال کر سکتا ہے۔ہم اپنے پہلے سے بہت سے خیالات کو ڈیلیٹ کر سکتے ہیں انھیں دوبارہ سوچ سکتے ہیں ۔آج ہمارے پاس اچھے اوزار ہیں اور ہم زیادہ بہتر علم حاصل کر سکتے ہیں۔بے شک علم اور امیجینیشن ایک دوسرے کے لیئے لازم ملزوم ہیں ۔آج علم نے ہماری امیجینیشن کو وسیع کر دیا ہے۔ہم زندگی کو دنیا کو اور بہت چیزوں کو زیادہ بہتر امیجن کر سکتے ہیں ۔ LET’S RE-IMAGINE THE WORLD.
Facebook Comments
زبردست۔ ہمیں اوزاروں سے کام لیتے ہوئے سوچ کے زاویے کو بدلنا چاہیے اور نیا سوچنا چاہیے۔ عمدگی سے آپ کام کے نقطے سمجھا گئی ہیں۔ خبر ملی کہ سورس آف پاور کس بلا کا نام ہے۔ ہماری دنیا بہت وسیع ہے۔ اندھے کنووں سے نکل کر نئی سمت اڑان بھرنی چاہیے۔ شکریہ۔
آپ بہت اچھا لکھتی ہیں۔ اور خاصی گہری باتیں آسان شبدوں میں سمجھاتی ہیں۔ سلامت رہیے۔ لکھتی رہیے۔
بہت اعلی تحریر۔ اتنے مشکل اور کارآمد موضوع کو اس طرح سلیس اور عام فہم انداز میں لکھنا واقعی قابل تحسین ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔