ارتقاء کو راستہ دیجیے، ارتقا کو قبول کیجیے۔۔۔شاہد خیالوی

طارق عزیز واقف کا ایک شعر
اچھا ہوں یا بہت برا ماحول کا ہے یہ سارا اثر
میں تھا کورا کاغذ مجھ کو دنیا نےکردار دیا

صدیق سالک کے ناول پریشر ککر میں ایک ایسے شخص کو ڈسکس کیا گیا جو اپنے مزاج میں دنیا سے مطابقت پیدا نہ کر سکا اور بالآخر حالت جنون کو پہنچ گیا۔بعض لوگوں کی طبیعت میں مزاحمت زیادہ ہوتی ہے. اب عمران خان کی مثال لیجیے وہ ایک مقدس مشن کے لیے مزاحمتی جنگ لڑ رہا ہے لیکن بالا دست طبقہ اسے فسادی کہتا ہے۔رات چند دوستوں کے پاس بیٹھا تھا موضوع گفتگو شعور کا ارتقاء تھا. ایک دوست نے بڑی اچھی بات کی اس نے کہا، ” میں بچپن کا ایک ڈرامہ دیکھ رہا ہوں اس ڈرامے میں جو شخص مجھے بچپن میں ولن لگتا تھا اب وہ ولن نہیں لگتا، بچپن میں اس ولن سے نفرت کی سو وجوہات تھیں لیکن اب میں کوشش کے باوجود ایک وجہ بھی تلاش نہ کر سکا کہ جس کی بنا پر اس سے نفرت کر سکوں” اس کی بات دل کو لگی تو میں نے کہا،” اس کا مطلب ہے کہ آپکی عمر، آپکا مطالعہ اور آپکا مشاہدہ یہ وہ تین عوامل ہیں جو سماجی انیلسیز کو آسان بنا دیتے ہیں اور طبیعت میں ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ان تین چیزوں کو شعور کے ارتقاء کی مبادیات سمجھا جائے”.
اب ان تینوں عوامل کو اجمالاً ڈسکس کرتے ہیں۔
عمر میں بڑھوتری سے انسان کی سوچ پختگی کی طرف مائل ہوتی ہے. چالیس سال کی عمر روح کی بلوغت کی عمر ہے. چالیس سال کی عمر میں سرکار کریم کو نبوت عطا ہوئی، یوں کہا جاسکتا ہے کہ چالیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنی سماجی و مذہبی ذمہ داریوں کو پہچان بھی لیتا ہے اور ان کا تعین بھی کر لیتا ہے. اسی لیے کہا گیا کہ
Fool in forty is a real fool
ہر کام عمر کی ایک خاص سٹیج پر اچھا لگتا ہے. غبارے، گڑیا وغیرہ دس سال کی ایج سے پہلے اچھے لگتے ہیں. جوانی میں پہنچتے ہی بچپن میں اچھی لگنے والی چیزیں معیوب نظر آنے لگتی ہیں.. کیوں
اس کے لیے مشاہدہ اور مطالعہ پر نظر ڈالتے ہیں۔جب انسان کے رویوں کی تفہیم کی کوشش کرتا ہوں تو اپنے فہم کی وسعت کی آخری حدوں تک جا کر بھی خداکے اس شاہکار کو نہیں سمجھ پاتا۔میں گناہ گار خدا کی تفہیم کا تو کسی حد تک دعویٰ کر سکتا ہوں کہ وہ رحیم ہے ، وہ کریم ہے ، وہ ستار ہے ، وہ غفار ہے اور جب کوئی ان تمام اوصاف ربی کی نفی کرے تو پھر اس کے لیے قہار ہے ۔ لیکن خدا  کیا ہے ؟
لوگوں سے سنا تھا کہ ،”رنگ برنگی دنیا” آج جب دنیا میں چلے ہیں تو پتا چلا ہے کہ رنگ برنگی دنیا کیا ہوتی ہے ۔ بھائی ہر انسان کا ایک اپنا رنگ ہے جو رویوں ، عادات ،رہن سہن ، بودوباش، کےکئی رنگوں کو ملا کر بنا ہےتہہ در تہہ رنگ ہی رنگ ہیں۔ ایک آنکھوں کو سجھائی دینے لگتا ہے تو دوسرا اپنے تمام تر ابہام کے ساتھ بینائی کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے اگر ہم صرف اور صرف اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں کی تہہ میں اتر جائیں اور ان کی تفہیم کر لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کا ابتدایہ سمجھ میں آ گیا۔
مشاہدہ سے انسانی شعور کو ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے. آپ زندگی میں لمحہ لمحہ تجربات سے گذرتے ہیں اور انہیں تجربات سے سیکھتے ہیں اور اپنے مائینڈ کو سدھارتے ہیں. آپ اپنے پاس موجود لوگوں کے قول وعمل میں موجود تضاد سے جیسے جیسے آگاہی حاصل کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے آپکو انسانوں کی مختلف انواع کا پتا چلتا ہے اور سابقہ تجربات کی روشنی میں آئندہ پیش آمدہ حالات کے لیے ہر بندے کی طبیعت و شخصیت کے مطابق لائحہ عمل بنانے میں آسانی ہوتی جاتی ہے. مثلاً میرا ایک دوست تھا جس پر مجھے بے پناہ اعتماد تھا اب اس کی ایک طبیعت تھی کہ وہ اپنی لڑائی دوسرے لوگوں کے ذریعے لڑنے کا ماہر تھا اپنی اس سائنس کے دوچار تجربات اس نے مجھ پر بھی کیے اور میں آسانی سے اس کے “کام ” آتا چلا گیا،لیکن اس کے قول و عمل کے تضاد نے بالآخر مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور یوں اس ایک افتاد سے جان چھوٹی لیکن اس طرح کی ہزاروں افتادیں ہیں جن سے روزانہ کی بنیاد پر پالا پڑتا ہے. کسی مفکر نے کہا، “جب تک ہم انسانوں کے مختلف مزاجوں اور ذہنی سطحوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے ہم کبھی مطمئن اور پر سکون نہیں رہ پاتے۔انسانی رویوں میں لچک ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں مدد دیتی ہے” اور یوں مشاہدے کی بنیاد پر شعور ارتقاء کی منزلیں چڑھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مطالعہ عمر و مشاہدہ سے بالا ہے. مختلف عبقری الصفت لوگوں کے مشاہدات کا نچوڑ ایک کتاب کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے لیکن مشاہدہ کے بغیر صرف مطالعہ کے ذریعے اپنی جہات کا تعین کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ مطالعہ کسی کی نگرانی میں کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ورنہ بندہ بہک بھی سکتا ہے۔مختصراً میرا خیال ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ارتقاء کے عمل کو قبول کرنے والا اور مشاہدے و مطالعے کی اعانت سے اپنی سماجی و مذہبی ترجیہات کا درست سمت میں تعین کرنا بے حد ضروری ہے. وما علینا

 

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply