اڈیالہ جیل کے پنچھی اڑ کے جاتی امراء کے چمن جاپہنچے ۔۔۔ نونی جشن مسرت بپا کئے ہوئے ہیں جنونی بنے ہوئے ہیں ۔ ناچتے ناچتے تھک جاتے ہیں تو ڈھول بجانے لگتے ہیں جبکہ انصافیوں کے صحن میں شاید اسلام آباد ہائیکورٹ کی ایمبولینس سے آیا انصاف کا لاشہ پڑا ہے بالکل ویسی ہی میت پنڈی سے جج محمد بشیر کی عدالت سے جاتی امراء پہنچائی گئی تھی ۔۔۔ لیکن نواز شریف کی قید کا فیصلہ ہو یا رہائی کا درحقیقت دونوں ہی انصاف کی سربلندی نہیں بلکہ قانون کی افسوسناک کمزوریوں کا حوالہ بن گئے ہیں ۔ پنڈی کے جج محمد بشیر کا رویہ تو بالکل ذاتی بغض و عناد سے بھرپور اور کسی کے اشارے پہ معذور کا سا تھا ۔ دن بارہ بجے فیصلہ سنانے کا اعلان حیرت انگیز طور پہ بار بار ملتوی کیا جاتا رہا اور فیصلہ خلاف روایت نصف شب کو سنایا گیا ۔۔۔
یہاں جسٹس اطہرمن اللہ نے ویسے تو عین دستیاب ملکی قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیا ہے لیکن پھر بھی زیربحث جائیداد اور مال و منال کا انبار تو اپنی جگہ موجود ہی ہے بس یہ جواب موجود نہیں کہ یہ سب زمین و زر کس کا ہے اور کہاں سےآیا۔۔ البتہ یہ بات تو جسٹس اطہر کا ضمیر بھی یقیناً جانتا ہی ہے کہ یہ سب مال و منال کیسے بنا اور کس نے بنایا بس معاملہ فقط اس غیرمعمولی ہنرمندی اور کاریگری کا ہے کہ جو اس دولت کے ذرائع چھپانے میں باریک بینی سے برتی گئی ہے اور جس کا سراغ لگانے میں نیب ( توقع کے عین مطابق ) ناکام رہی اور یہی کچھ اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے خصوصاً آصف زرداری ، فریال تالپور، ملک ریاض ، اسفندیار ولی ، جہانگیر ترین، پرویز خٹک ، علیم خان اور بابر غوری و ایم کیوایم کے کئی دیگر جانے مانے لٹیرے اسی سبب فاتح کی شان سے گھومتے پھرتے اور احتساب کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔
میرا مؤقف اس حوالے سے بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ ایسے شرمناک قانون ہی کو بدل دیا جائے کہ جو لٹیروں کو اپنی دولت کے ذرائع ثابت کرنے کے بجائےحکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انکی دولت کے ناجائز ذرائع ثابت کرے ۔ یہ چالاک لٹیرے اسی قانونی نقص کا فائدہ اٹھا کے موجیں مارتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی لوٹ مار کو پوشیدہ رکھنے کا ہر جتن پہلے ہی سے کررکھا ہوتا ہے اور وہ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ حکومتی تحقیقاتی اداروں میں بیشتر اہلکار نااہل بھی ہیں اور بدعنوان بھی اور یہ اہلکار اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ ان میں سے کئی کے بارے میں ‘خصوصی معلومات’ سے پر فائلیں بھی ان لٹیروں کے خفیہ ٹھکانوں و گوگل کی خفیہ درازوں میں محفوظ ہیں کیونکہ ان میں سے بعضے تو خود انہوں نے اسی مقصد سے اپنے اپنے اقتداری زمانوں میں وہاں بھرتی کیئے تھے جو کہ بہرطور انکا ساتھ دینے پہ بعد میں بھی مجبور رہتے ہیں ۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب 1979 کے ایرانی انقلاب کو بدعنوانوں کے خلاف اپنے اہداف میں کامیابی اس انقلابی قانون کے تحت میسر آئی تھیں کہ ماضی اور حال کی مالی حالت کے فرق کا سب حساب خود زیر الزام فرد ہی دے نہ کہ ریاست اپنے ناقص تحقیقاتی اداروں کی وجہ سے جگہ جگہ منہ کی کھاتی پھرے اور لٹیرے بغلیں بجاتے پھریں ۔۔۔ تلخ سچائی یہ ہے کہ ہمارے ملک کا قانون ایسی ہی لاتعداد کمزوریوں سے بھرا پڑا ہے اور جب تک ایسا ہے حقیقی انصاف کی تمنا اک خواب ہی رہے گی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ بار اور بنچ پہ مشتمل کوئی جوڈیشیل خصوصی کمیٹی بنائی جائے جس میں نجانے مانے اہل فکر و نظر اور نمائندہ صحافی حضرات بھی موجود ہوں اور وہ ایسے تمام قوانین کا جائزہ لے کر انہیں کالعدم قرار دلوائے اور انکے متبادل قوانین وضع کرکے منظور کروائے – خصوصاً ملکی خزانے کی لوٹ مار کرنے والوں کے اس گروہ سے نپٹنے کے لیئے ایرانی انقلاب کے آزمودہ نمونے کی طرز پہ خصوصی قوانین مرتب کیئے جائیں اور فی الفور نافذ کیئے جائیں تاکہ آئندہ اس وطن عزیز میں نہ تو کوئی نونی و جیالا انصافیوں کے ہاتھوں انصاف کے خون کی دہائیاں دیتا پھرے اور نہ ہی کوئی ملک قیوم سا بےضمیر و بکاؤ جج جاتی امراء کے مکینوں و لیگی متوالوں کے جوتے چاٹتا نظر آئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں