آئیں سکول بنائیں ۔۔۔۔ڈاکٹر عمران آفتاب

سکولز کا بزنس ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اس میں سر سید ثانی کہلانے کا مارجن بھی موجود ہے اور ملک ریاض بننے کا امکان بھی۔ درمیانے درجے سے لے کر ایک وسیع و عریض کیمپس تک اس کو پھیلایا جا سکتا ہے۔ آپ کی جیب جتنی اجازت دے اس کے مطابق ایک کوٹھی دیکھ رکھیں۔ اگر فنڈز کی کمی ہو تو خریدنے کی بجائے کرائے پر لے لیں۔ سکول بنانے کے لیے چندہ مہم سے پرہیز کریں۔ ہو سکتا ہے کہ رشتہ دار یا دوست آپ کو انوسٹمنٹ کے نام پہ چندہ وصولی پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن آپ اپنا دامن ایسے جبری خیر خواہوں سے ہر ممکن طور پر بچائیں۔ آج تھوڑی تنگی برداشت کر لیں ۔ کل کو سکھی رہیں گے۔ یاد رکھیں آج جو سرمایہ کار، فنڈز کا وعدہ کریں گے کل وہی سوشل میڈیا کے چوراہے پر کھڑے ہو کر سانجھے کی ہنڈیا توڑنے میں پیش پیش ہوں گے۔ سکول بنانے کے لیے پہلا کام ہے مناسب جگہ کی تلاش۔ کوشش کریں کہ کسی پروفیشنل سے مشورہ لینے کی بجائے خود ہی اس پر محنت کریں۔ یاد رکھیں آپ کو اپنی ذات پر اعتماد ہونا چاہیے۔ جو خداداد صلاحیت آپ میں موجود ہے وہ کسی اور میں نہیں ہو سکتی۔ آپ پر فن مولا ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے دوسروں پر انحصار کرنا شروع کر دیا تو ہمیشہ ہی محتاج رہیں گے۔

اب سکول کی عمارت فائنل کریں۔ بلڈنگ اپنی ضروریات کے مطابق بنائی مل جائے  اچھا ہے ۔ ورنہ عمارت میں تبدیلی کے لیے کسی اچھے مستری یا ٹھیکے دار سے مشورہ کر لیں۔ یہ نادر روزگار، یکتائے فن ہوتے ہیں  اور اس قیمتی مشورے کی عام طور پر کوئی فیس نہیں لیتے ۔ آرکیٹیکٹ یا سول انجینئر کے چکر میں نہ  پڑیں۔ بلاوجہ خرچہ بڑھانے والی بات ہے۔ بلڈنگ میں جتنی تبدیلی ناگزیر ہو صرف اتنی کافی ہے۔ دوسروں کے گال لال دیکھ کر خود پر طمانچہ بازی احمقوں کا کام ہے۔ مناسب تعمیراتی کام، کم خرچ، بالا نشین ہونا چاہیے۔ اگر یہ آپ کی زندگی کا پہلا پراجیکٹ ہے تو یاد رکھیں آئندہ نسلیں آپ کو اسی کی بنیاد پر یاد رکھیں گی۔

مٹیریل کہیں سے ادھار پر مل جائے تو بہتر ہے۔ تاہم کوالٹی پر کمپرومائز نہ  کریں۔ یہ آنے والی نسلوں کا سوال ہے۔ ایک مرتبہ تعمیراتی کام کا آغاز قریب ہو تو سامان کی نگرانی شروع ہو جانی چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو ایک جھونپڑا، سکول کی متوقع عمارت کےسامنے ڈال لیں۔ اور بہتر تو یہی ہے، کہ خود اس میں ہمہ وقت موجود رہیں۔ اس کے دو فائدے ہیں ۔ ایک تو نگرانی رہے گی، دوسرا علاقے کے لوگوں سے تعلق بنے گا۔ جو سکول کی مفت ایڈورٹائزنگ میں کام آئے گا۔ تاہم اگر کسی ناگزیر وجہ سے آپ کا خود بیٹھ کر نگرانی کرنا ممکن نہ  ہو تو خاندان کے ایسے کسی ریٹائرڈ بزرگ کو تلاش کریں جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنی اولاد اور بہووں کے دکھڑے آپ کو سنانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ہر خاندان میں ایسے لوگ وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں ۔ عمومی حالات میں شاید آپ پانچ منٹ بھی ان کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مگر اب آپ کی اپنی ضرورت ہے۔ دو درجن کیلے یا ایک کلو سیب لے کر ان کے پاس تشریف لے جائیں۔ اگر قریبی رشتہ نہ  بھی ہو تو بھی تایا ابو، چچا جان، یا ماما جی کے پیار بھرے الفاظ سے پکاریں۔ باتوں باتوں میں ناخلف اولاد اور بہووں کا ذکر چھڑ گیا تو آپ کے وارے نیارے۔ ایک مرتبہ جی کڑا کر کے آدھا گھنٹہ ان کی تلخ نوائی برداشت کر لیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ کسی صورت بھی بچوں کی طرف داری نہیں کرنی ۔ورنہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ سیل رواں کو بہہ جانے دیں۔ ایک مرتبہ نکاسی ہو جائے تو اب آپ کی منزل قریب تر ہے۔

ہر بابا اندر سے نرم دل ہوتا ہے۔ جیسے ہی کھیتی نرم ہو، آپ اپنے سکول کا ذکر چھیڑ دیں۔
پراجیکٹ کی مختصر تفصیل بتاتے ہوئے بابا جی پر ”مگر ایک پرابلم ہے” کا لافانی ہتھیار استعمال کر ڈالیں۔ اب بابا جی پوچھیں گے کیا ۔ تو آپ طرح دے جائیں۔ دو تین مرتبہ اصرار کرنے کے بعد تعمیراتی مٹیریل کی نگرانی کا مسئلہ پیش کریں۔ تاریخ واحد شاہد ہے کہ آج تک کسی بابے نے کسی بھی قسم کی نگرانی سونپی جانے سے انکار نہیں کیا۔
بہت محبت کےساتھ بابا جی کو اپنی کار میں بٹھا کر کام والی جگہ کا معائنہ کرا دیں۔ اگلے روز وہ اپنی نا خلف اولاد کو بتا کر کلف والے جوڑے میں ملبوس خود ہی علی الصبح کام والی جگہ پر موجود ہوں گے۔ آپ نے صرف اتنا کرنا ہے کہ چائے، سگریٹ، پان یا حقہ جو بھی بابا جی کو پسند ہو ، وہ باقاعدگی سے فراہم کرنا ہے۔ کھانا لازمی طور پر اپنے گھر سے بھیجیں۔ وہ بھی تازہ روٹی کےساتھ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بابا جی کو آپ کی بیگم اپنی بہوؤں سے زیادہ سلیقہ شعار لگنا شروع ہو جائے گی۔ آپ کی اپنی اہمیت تو پہلے ہی ان کے بیٹوں سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ بابا جی کو معلوم ہو گیا ہے کہ اپنے بچے اس قابل ہی نہیں تھے کہ ان کی صلاحیتوں سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکتے۔
اب تک آپ نے اپنے سکول کے لیے ایک بہترین نگران کی تلاش کا کام نمٹا لیا ہے۔ اب سب کام بابا جی پر چھوڑ دیں۔ مستری،مزدوروں پر بابا جی کا چیک اینڈ بیلنس موجود ہو گا۔ آپ کو فکر کرنے کی چنداں (چنداں ہی پڑھا جائے، چندہ نہیں ) ضرورت نہیں۔

اب آپ اطمینان سے سب کام بابا  کے حوالے کر کے اپنے کام کاج پر توجہ دے سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض جگہ آپ کو بابا جی بلا ضرورت دخل اندازی کرتے محسوس ہوں۔ اور آپ کی رائے کے برعکس اپنی مرضی ٹھونسنا چاہیں۔ اس پر صبر کریں۔ یہ دخل در معقولات، آپ ہی کی طرف سے تفویض کردہ، ان کا حق ہے۔ لیکن بہر کیف اگر معاملات آپ کے ہاتھ سے نکلتے دکھائی دیں تو پیار محبت سے بابا جی کو ان کے اپنے گھر کے مسائل یاد کرا دیں۔ امید ہے کافی بہتری آ جائے گی۔
دن میں ایک آدھ چکر لگا کر کام دیکھنا کافی ہو گا۔ بابا جی کی خیر خبر لیتے رہیں جوں جوں کام کی تکمیل کا وقت قریب آئے، بابا جی سے دوری اختیار کرنا شروع کر دیں۔ مبادا سکول میں کلاسز کے اجرا کے بعد بابا جی انتظامی امور میں دخیل ہوں۔ اس سے پہلے کہ عمارت میں پینٹ کا کام شروع ہو آپ نے بابا جی کو الوداع کہنا ہے۔ کام نکل جانے کے بعد ویسے بھی بابوں کو کون پوچھتا ہے۔ اب تو چھوٹے بچے بابا بلیک شِیپ (عرف کالی بھیڑ والا بابا ) کو بھی لفٹ نہیں کراتے ۔ آپ تو خیر سے عاقل بالغ ہیں۔ اس مرحلے کے بعد بابا جی کی ناگزیریت ختم ہو چکی ہو گی۔

اب اگلے مراحل سے پہلے آپ سکول کے لیے پہلی بھرتی کریں گے۔ ایک عدد چوکیدار کی۔
رنگ روغن کے لیے کلر سکیم زیادہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے شہر کے بڑے چوک میں موجود رنگ ساز سے بہتر کوئی نہیں۔ بغیر کسی خرچے کے آپ کو بہترین رائے دے گا۔
کوشش کریں کہ سکول کی عمارت کا پینٹ بچوں کے مجوزہ یونیفارم سے ہم رنگ ہو۔ واضح رہے کہ یونیفارم کسی عام رنگ کا نہیں ہونا چاہیے۔ آج کل اچھوتے ڈیزائن اور نت نئے رنگ مارکیٹ میں موجود ہیں۔ کسی بھی یونیفارم کی دکان والے سے پہلے ہی ڈیل کر لیں۔ رنگ اور ڈیزائین ایسا ہونا چاہیے کہ پورے شہر میں اور کسی دکان سے ڈھونڈے سے بھی نا مل سکے۔ یونیفارم میں اپنا شئیر پہلے ہی طے کر لیں۔ یہ شئیر صرف پہلے سال کے لیے ہو گا۔ اس کو ہر سال بڑھاتے جانا ہے۔ یہاں تک کہ یونیفارم سنٹر والا آپ کو اپنی دکان بیچنے پر مجبور ہو جاۓ۔ یہ سکول کے ساتھ مستقبل میں بننے والا آپ کا پہلا سائیڈ بزنس ہوگا۔ چند “سالوں” میں آپ اپنے چند “سالوں” کو ایسے ہی سائیڈ پراجیکٹس میں ایڈجسٹ کرنے کے قابل ہوں گے۔ خاندانی اور سسرالی حسد سے بچاؤ کا آسان ترین طریقہ اپنے اعزہ و اقارب کو اپنی ترقی میں حصہ دار بنانا ہے۔
سکول یونیفارم میں شرٹ کا رنگ سفید یا آسمانی تو بالکل نہ  ہو، اسی طرح پتلون بھی گرے یا خاکی نہ  ہو تو بہتر ہے۔ یہ رنگ ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں ۔ پیرٹ گرین شرٹس اور ڈارک براؤن ٹراؤزر میں آپ کے سکول کے بچے سب سے منفرد دکھائی دیں گے۔ اور یہی رنگ دیواروں پر بھی بہت اٹھے گا۔ باقی آپ اپنی اہلیہ سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں۔ آخر کو انہی کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے۔ وہ آپ کو بھلا کیا کیا نا تجویز پیش کریں گی۔ بس یہ دھیان رہے کہ لڑکوں کو شاکنگ پنک اور لڑکیوں کو میجنٹا جیسے رنگ تجویز نہ  کر دیں۔ یوں تو اس میں کوئی خاص قباحت نہیں۔ لیکن آخر کو معاشرتی اقدار کی اپنی اہمیت ہے۔ سکول بنانے والوں سے ان کی پاسداری کا بدرجہ اتم تقاضا ہوتا ہے۔ اور آپ نے خود پر وضعداری کا ایک ایسا خول چڑھانا ہے کہ تمام اپنے پرائے آپ کو اخلاقیات کا گھنٹہ گھر سمجھنے لگیں۔
آپ کی یہ شناخت آئندہ زندگی میں بہت مددگار ثابت ہو گی۔ بندہ بشر ہے ، کسی خوش شکل خاتون ٹیچر سے ہنس کر بات کر ہی لیتا ہے۔ می ٹو والوں کا مگر کوئی پتا نہیں، کب کس کو یاد آ جائے کہ آپ نے ضرورت سے زیادہ فرینک ہونے کی کوشش کی تھی۔ اپنے نام پر ہیش ٹیگ بنوانے سے پہلے ہی حفظ ما تقدم کے طور پر پارسائی کی چادر اوڑھ لینا بہتر  ہے۔
تو بات ہو رہی تھی یونیفارم کی۔ شرٹ اور ٹراؤزر تو سائز میں تبدیلی کی وجہ سے ہر سال ہی نیا لینا پڑتا ہے۔ البتہ والدین ایک ٹائی کو سالہا سال چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک انتہائی  منافع بخش آئیڈیا یہ ہے کہ ہر کلاس کی ٹائی کا رنگ مختلف ہو ۔ اور اس پر سکول کا مونوگرام بنا ہو۔ تھوڑی مزید محنت سے مانیٹر، پریفیکٹ یا ہیڈ بوائے کے لیے مزید اختراعات کی جا سکتی ہیں ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنی تعلیمی قابلیت سے قطع نظر سال بھر میں ہر طالب علم کسی نا کسی عہدے کے لیے کم از کم ایک مرتبہ ضرور چنا جا چکا ہو۔ اس سے والدین بھی زیادہ چون چرا نہیں کرتے۔ اور خاندان میں ان کے بچے کا نام بھی روشن رہتا ہے۔ جو حتمی شکل میں آپ کے سکول کی چلتی پھرتی اشتہاری مہم کا حصہ ہوتا ہے۔
نت نئے ٹائٹل دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ کا ذخیرہ الفاظ محدود ہے تو فیس بک سے آئی ڈیز کو ہلکی پھلکی ترمیم کے بعد استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً سکول پرنس، کلاس ڈول، میڈم کی لاڈلی، کیپٹن پلانیٹ، ہائجین مونسٹر وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آپ نے ٹیچرز کی بھرتی کرنی ہے۔ یہاں بھی اخراجات میں عدم توازن سے گریز کیا جائے۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ اچھی شکل ایک چلتی پھرتی “سی وی” ہوتی ہے۔ آپ اگر زندہ دل ہیں تو “سی وی” کی بنیاد پر ہی سٹاف اپائنٹ کریں۔ بچوں نے کون سا ٹیچر کی ڈگریاں چیک کرنی ہیں۔ البتہ ان کے والد کی جیب ایسے سکول میں آسانی سے ڈھیلی کی جا سکتی ہے جہاں صوتی اور بصری دلکشی موجود ہو۔ ٹیچرز کو انگریزی میں بات کرنا آنی چاہیے۔ اگر غلط بھی بولیں تو گزارا چل جائے گا۔ اب تو میڈیا پر اردو میں بھی کتابچہ چل رہا ہے۔
سلیبس کے انتخاب میں وہی یونیفارم والے کلیہ کو لاگو کرنا ہے۔ یعنی نایاب کتب، جو صرف ایک ہی بک سٹور سے دستیاب ہوں اور آپ کا مارجن کم از کم ہر کتاب کی نصف قیمت ہو۔
دھیرے دھیرے آپ خود پبلشنگ کے کام کو سمجھ جائیں گے۔
نسلوں کی تقدیر بدلنے کو تیار ہے۔ سکول کا کوئی انتہائی  انوکھا نام سوچیے۔ گوگل ٹرانسلیٹ سے اطالوی یا فرنچ میں بھی نام تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ایک بھرپور اشتہاری مہم کے بعد شہر کی کسی سیاسی، سماجی یا کاروباری شخصیت کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیجئے۔ اور ایک رنگ برنگی تقریب میں اپنے سکول کا افتتاح کر دیجئے۔ لیکن یاد رکھیں بابا جی کا سایہ دور دور تک نظر نا آئے ۔ ورنہ سکول بعد میں کھلے نا کھلے ، آپ پر ان سے غداری کا نکتہ نمبر چھ پہلے لگ جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply