ہدایت کےضابطے۔۔قاری حنیف ڈار

وہ دارالعلوم دیوبند کے قریب  کے محلے میں ایک امیرہندو گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور ہندوؤں کے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا تھا جو سورج کی پوجا کرتے ہیں ، بچپن گزرا تو جوانی شروع ہوئی، بچپن کی طرح اس کی جوانی بھی نرالی تھی ، وہ ایک ہمدرد اور دیالو نوجوان تھا، ہر دم ہر  کسی کی مدد کو تیار ! مذہبی تعصب سے بالاتر، محلے کی سب خواتین کو ماسی کہتا ،ان کے کام کرتا ! جوانی سے اس کا معمول تھا کہ وہ صبح دارالعلوم کے کنوئیں پر سورج طلوع ہونے سے تھوڑا پہلے آتا، پانی نکال کر اشنان کرتا اور پھر پشت سورج کی طرف کر کے اپنے سائے کی گردن پر نظر جما کر گھنٹوں کھڑا رہتا اور پھر اپنا جاپ ختم کر کے چلا جاتا ! نہ اس نے کبھی دارالعلوم کے مہتمم سے کوئی ربط ضبط بڑھانے کی کوشش کی اور نہ کبھی انہوں نے اسے کنوئیں پر نہانے اور مدرسے کے ایک کونے میں اپنی عبادت کرنے سے روکا ! وقت گزرتا رہا مہتم فوت ہو گئے اور نظم و نسق ان کے فرزند کے ہاتھ آیا ، ادھر سوریا مہاراج بھی اب عمر کے آخری دور میں داخل ہو چکے تھے مگر معمولات میں کوئی ناغہ نہیں تھا !

آج بادل چھائے ہوئے تھے اور سوریا مہاراج اشنان کر کے سورج کا انتظار کر رہے تھے مگر بادل سورج کو دبوچے بیٹھے تھے، پتہ نہیں تقدیر کو سوریا مہاراج پر ترس آیا یا خود ان کا موڈ مسلمان مولوی کو چھیڑنے کا بن گیا ! وہ مہتمم صاحب کے پاس جا کھڑے ہوئے جو اس وقت کیکر سے مسواک کاٹ رہے تھے !

مہاراج نہ تو آپ کے پرشوں نے ہمیں مسلمان بنانے کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی آپ ہمیں جنت میں بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں  ؟۔۔ سوریا جی نے مذاق کے انداز میں مہتمم صاحب کو چھیڑا!

مولانا  نے پلٹ کر سوریا جی کو دیکھا اور ان کا ہاتھ پکڑے پکڑے اپنے دفتر میں لے آئے۔
آپ سنایئے آج ہمارے نصیب کیسے جاگے ، آپ نے ہمیں وقت کیسے دے دیا ،آپ جناب تو کسی کو لفٹ ہی نہیں کراتے ؟ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا !

دیکھو بھئ تم میرے بچوں کے سمان ہو ،مجھے غچہ دینے کی کوشش مت کرو ،سوال پہلے میں نے کیا ہے ،جواب بھی میرا حق بنتا ہے،آخر تم لوگ ساری دنیا کو مسلمان بنانے بستر اٹھائے پھرتے ہو، بھیا! میں تمھارے پڑوس میں عمر پوری کر چلا ہوں، مجھے کسی  نے ایک بار جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ میاں تم بھی مسلمان بننا چاہے ہو یا نہیں؟۔۔ میاں سنا ہے، پڑوسی کے تو بڑے حق حقوق ہوتے ہیں اسلام میں ،چلو ہمیں پڑوسی کا حق ہی دے دیتے!

سوریا جی کی بات نے مولانا کو سنجیدہ کر دیا، وہ بڑی متانت سے بولے،

سوریا جی میرے والد مرحوم کی جان نکلنے سے پہلے وصیت آپ کے لیے ہی تھی،وہ فرماتے تھے، یہ سوریا جنتی آدمی ہے  ،اس میں ساری عادتیں اللہ کی پسندیدہ ہیں ، بس تھوڑا کاغذی کام باقی ہے ،یہ اندر سے مسلمان ہے،اللہ کی رحمت اس پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ہے، بس تم اس لمحے کے لیے تیار رہنا، جب سوریا جی میں رب کی جوت جاگے گی،اس وقت انہیں سنبھالنا تمھاری ذمہ داری ہے !

مولانا کی بات سن کر سوریا جی ہکا بکا رہ گئے ، اچھا جی تو مولانا مرحوم بہت پہنچی ہوئی ہستی تھے،ہمیں خبر بھی نہیں لگنے دی اور ہمیں پڑھتے رہے،خیر۔۔

مولانا نے پوچھا، سوریا جی آج آپ جاپ نہیں کر رہے؟

بیٹا تمھیں معلوم ہے، سورج نظر نہ آئے تو اپنا جاپ رہ جاتا ہے !

اچھا! سوریا جی کبھی آپ آتے ہیں، تو سورج دستیاب نہیں ہوتا ، کبھی سورج ہوتا ہے  تو آپ بیمار ہوتے ہیں ،نہیں آتے، آج آپ دونوں موجود ہیں مگر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے، یہ درمیان میں اڑچن کون ڈال دیتا ہے ؟

بادل ! سوریا جی نے بڑے آہستہ سے کہا!

اچھا سورج ایک ہلکے پھلکے  بادل  کے  آگے مجبور ہو گیا، یا کسی اور ہستی نے جو سورج سے طاقتور ہے ، اپنے حکم سے ایک اڑچن کھڑی کر دی اور سورج مہاراج آگ اگلنے کے باوجود مجبور ہو گئے ؟

سوریا جی خاموش رہے ،۔

اچھا سوریا جی! کبھی ایسا ہوا کہ آپ کے ناغے سے ناخوش ہو کر سورج نے بھی غصے سے اگلے دن ناغہ کر دیا ہو اور طلوع ہونے سے انکار کر دیا ہو ؟

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ سوریا جی نے پلٹ کر سوال داغ دیا !

ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟کیا سورج دیوتا کو غصہ نہیں آتا؟ یا اسے آپ کے ناغے کی خبر نہیں ہوتی؟ مولانا نے نرمی سے گفتگو کو جاری رکھا۔۔

غصہ بھی آتا ہے اور اس غصے سے پناہ کے لیے ہی ہم اس کی پوجا کرتے ہیں اور انہیں ہماری پوجا کی خبر بھی ہوتی ہے،مگر۔۔۔ کیا “مگر “مولانا نے بات کو جاری رکھا !

مگر سورج دیوتا مجبور ہے کہ وہ طلوع ہو ، وہ اپنی مرضی سے طلوع غروب نہیں ہو سکتا ، سوریا جی نے ایک سوچتی ہوئی شکل کے ساتھ جواب دیا !

مہاراج اگر دیوتا بھی مجبور ہوتے ہیں تو پھر ہماری مجبوریاں کیسے دور کریں گے؟ ایک مجبور دوسرے مجبور کی کیا مدد کر سکتا ہے ؟؟ کیوں نہ اسے مجبور کرنے والے سے ہی رجوع کر لیا جائے جو اسے طلوع و غروب کرتا ہے۔۔ بادل بھیج کر اس کی دھوپ کو لپیٹ دیتا ہے ؟

سوریا جی چپ رہے !

مولانا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،سوریا جی آپ کے پاس چھٹی کرنے کا اختیار اور ارادہ ہے، سورج کے پاس نہ چھٹی کا ارادہ ہے اور نہ ہی اختیار ہے !

سوریا جی مہاراج آپ کو پتہ ہے کہ اسی ارادے اور اختیار کی بنیاد پر تمام کائنات اور اس کو سنبھالنے والے ان کا نظم و نسق چلانے والے ملائکہ کو کہا گیا تھا کہ ” آدم کو سجدہ کرو، اس کی بڑائی تسلیم کرو ، آج کائنات میں خالق نے پہلی صاحبِ ارادہ صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کی ہے، خدا کے بعد ارادے کی مالک ایک ہستی پیدا کی گئی  اور کائنات اور اس کو سنبھالنے والے فرشتوں کو اس آدم کے قدموں میں ڈال دیا ،جس آدم کی پشت میں آپ بھی تھے سوریا جی۔۔۔ اور میں بھی تھا! آپ نے آج تک اس ارادے کو استعمال نہیں فرمایا،اپنے شرف کو استعمال نہیں کیا، اسے ویسے کا ویسا ہی رب کے پاس لے کر چلے جاؤ گے سوریا جی اور پھر اسے کیا منہ دکھاؤ گے؟ اس سجدے کی قیمت تو چکاتے جاؤ جو اس اختیار کے صدقے فرشتوں سے کرایا تھا۔۔

سوریا جی ” ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ” کی تصویر بنے بیٹھے تھے!

مولوی جی پہ بھی جلال اور جمال کی دونوں صفات کا غلبہ تھا کبھی ایک آرہی تھی تو کبھی دوسری ،، لگتا تھا انہوں نے اپنے پرشوں کی بات پلے باندھ کر خوب تیاری کر رکھی تھی سوریا جی کے استقبال کی !
سوریا جی آپ بہت نیک انسان ہیں،ہم سب نے آپ کو بچپن سے دیکھا ہوا ہے شاید کہ مسلمانوں میں بھی آپ سا ہمدرد ، سخی اور خداترس انسان پوری بستی میں نہیں ،مگر سوریا جی پیپر ورق تو کرنا پڑے گا، دل کے دروازے کا تالا اندر سے کھلتا ہے، اللہ نے سنت بنا رکھی ہے ۔اس نے نبیوں کے باپ ،بیٹوں اور بیویوں کو بھی ہدایت نہیں دی جب تک کہ انہوں نے دل کا دروازہ نہیں کھولا ، کسی کے گھر بغیر چاہے جانے سے اللہ نے منع فرمایا ہے،اس کا حکم ہے اسی گھر میں جاؤ ،جس گھر کا مالک انس محبت سے تمھیں بلائے،پھر وہ آپ کے اندر بغیر انس کے بغیر آپ کے بلائے کیسے آ جائے گا ؟ اس کی رحمت کا سمندر آپ کی چارپائی کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے سوریا جی، بس ذرا دل کی کھڑکی کھول کے دیکھو وہ کیسے اندر آتا ہے !

سوریا جی اٹھ کر چلے تو لگتا تھا کہ وہ زمین پر نہیں پانی پر چل رہے ہیں، زمین ان کے پاؤں تلے سے کھسک گئی  تھی ! وہ رات قیامت کی رات تھی ، دل میں گداز پیدا ہونا تھا کہ رحمت کی جھڑی شروع ہو گئی ، سوریا جی ساری رات رو رو کر معافیاں مانگتے رہے،وہ ڈر رہے تھے کہ وہ صبح سے پہلے کہیں مر نہ جائیں، کہیں پیپر ورق ادھورا نہ رہ جائے ، انہوں نے اللہ سے اپنی ساری نیکیوں کے عوض صبح تک جینے کی مہلت مانگ لی،آج انہیں زندگی کی قدر آ گئی  تھی ،صبح ابھی مدرسہ کھلنے کا وقت نہیں ہوا تھا کہ سوریا جی مہتمم صاحب کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہے تھے !

دروازہ مولانا صاحب نے خود کھولا،،لگتا تھا وہ اسی بات کی توقع رکھتے تھے، سوریا جی کی کیفیت سے لگتا تھا کہ جیسے ان کا پورا وجود بول رہا ہے مگر زبان جواب دے گئی ہے، مولانا نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنی بیٹھک میں لے گئے ، سوریا جی کو چارپائی پر بٹھا کر وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے، اور گویا ہوئے ۔۔۔سوریا جی مہاراج ! آپ کچھ بھی مت بولیے ، زبان کو بند رہنے دیجئے، آج خود اللہ آپ کے وجود کو پڑھ رہا ہے، وہ آپ کی دعوت قبول کر کے آپ کے دل میں آ بیٹھا ہے،سوریا جی میں اسی کے احترام میں آپ کے قدموں میں بیٹھا ہوں،

زارو قطار روتے سوریا جی کو انہوں نے خوب رونے دیا وہ جانتے تھے ہر مسلمان ہونے والا پیدا ہونے والے بچے کی طرح روتا ہوا مسلمان ہوتا ہے اور یہ صحت کی علامت ہے،جان کی صحت کی بھی اور ایمان کی صحت کی بھی !

پھر اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر مدرسے کے تمام طلباء کے سامنے اسلام قبول کرایا گیا، عبداللہ نام منتخب کیا گیا اور اسلام قبول کرنے کے ہفتہ دس دن بعد عبداللہ بھائی بس ایک بخار میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے !

Advertisements
julia rana solicitors london

واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے علامہ دوست محمد قریشی فرماتے ہیں” عبداللہ بھائی کے جنازے پر لگتا تھا پورا دیوبند امڈ پڑا ہے، ایک تو وہ خود ایک انسان دوست شخصیت تھے،بلا تفریق مذہب و مسلک ہر ایک کے کام آنے والے،اوپر سے جو اکرام مسلمانوں نے خاص کر دارالعلوم کے طلباء نے ان کا کیا ،اس نے ہندوؤں کے دلوں میں بھی گداز بھر دیا،، طلباء ان کی چارپائی کو کندھا دینے ٹوٹے پڑتے تھے ، جنازہ شروع ہوا تو اعلان ہوا کہ جنازے میں تاخیر کی جائے، کئی ہندو بھی مسلمان ہو کر جنازے میں شرکت چاہتے ہیں، شیخ الجامعہ نے کہا کہ جو مسلمان ہونا چاہتے ہیں وہ صفوں میں کھڑے ہی ہمارے پیچھے شہادتین دھرا لیں، باقی کام بعد میں ہوتے رہیں گے، بہت سارے ہندوؤں نے جب شہادتین کا ورد شروع کیا تو جن کی نیت شاید مسلمان ہونے کی نہ بھی تھی وہ بھی جذبات میں بہہ گئے ،سینکڑوں لوگ مسلمان ہوئے ،اس کے علاوہ ان کے ہندو رشتے داروں کو بھی جنازے میں کھڑا ہونے سے نہیں روکا گیا!

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply